• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کیا کہہ سکتے ہیں جو پہلے نہ کہا گیا ہو؟ اب آپ کون سی متاع ِ عقل کو ارزاں کریں گے، کس نئی دانش کے جواہر نچھاور کریں گے؟ کسی قسم کی بھی جنگ ہو، ایک کٹھن آزمائش ہوتی ہے ، اور اگر وہ طوالت اختیار کرجائے، جیسا کہ یہ جنگ جو ہم پر مسلط ہے ، تواس میں سانحات پیش آتے ہیں، انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے ، اور پھر ان کا کوئی فوری حل نہیں ہوتا، ایسی کوئی جادو کی چھڑ ی نہیں ہوتی جس کے ہلانے سے ڈرامائی نتائج سامنے آجائیں۔ حقیقت کی دنیا میں خوش فہمیوں کا گزر نہیں ہوتا۔
ہمارا شمار شمال کے ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہوتا، ہم اپنی تاریخ، جغرافیہ اور کلچر کے ساتھ تیسری دنیا کا ایک ملک ہیں۔ بطور ایک معاشرہ، ہمارے کچھ طاقتور پہلوہیں تو کچھ کمزوریوں سے بھی انکار نہیں۔ ہم خیراتی اور انسانی فلاح کے کاموں اور اختراعی تنوع کی مہارت رکھتے ہیں،لیکن تنظیم سازی اور ڈسپلن کی پابندی ہمیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ قطاربنا کر کھڑا ہونا ہمارے لئے عذاب ِ الیم ۔ جب کوئی ٹریفک حادثہ ہوتا ہے تو لوگ تماشائیوں کی طرح جمع ہوکر ٹریفک بلاک کردیتے ہیں۔ جب کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا ہے تو ہر طرف افراتفری پھیل جاتی ہے ، جیسا کہ ہم نے کوئٹہ سانحے کے موقع پر دیکھا، لوگ اسپتال کی طرف بھاگتے ہیں اور ایمرجنسی کا راستہ بلاک کردیتے ہیں۔ اب یہ بات کہنا تو آسان کہ جب بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو قتل کیا گیا، اور ان کی لاش کو لایا گیا تو اسپتال کے گرد ایک حفاظتی حصارقائم کیا جانا چاہئے تھا، لیکن اگر پولیس وکلا کو اسپتال میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کرتی تو ایک ہنگامہ بپا ہوجاتا ۔ ہم نے یہ سب کچھ پہلے بھی دیکھا ہے ۔ اور دہشت گردوں نے بھی اسے ہی ذہن میں رکھ کر تمام پلاننگ کی ہوگی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے لیکن ہم سبق سیکھنے والی قوم نہیں۔
رویے کے علاوہ اپنے الفاظ اور جذبات کو بھی کنٹرول کرنا سیکھنا چاہئے۔ جب کوئی سانحہ ہوتا ہے تو سلجھے ہوئے ذی شعور معاشرے اختلافات ختم کرکے یک جان دکھائی دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ واقعہ سیکورٹی کی غفلت کی وجہ سے پیش آیا ہو لیکن اس کے فوراً بعد ہی سیاست دان اور رہنما گھر کی چھتوں پر کھڑے ہوکر سیکورٹی فورسز کے خلاف نعرہ بازی نہیں شروع کردیتے ، جیسا کہ ہم نے کوئٹہ سانحے کے بعد ہوتی دیکھی۔ ہر چیز کے لئے کوئی موقع محل ہوتا ہے ، لیکن اُ س موقع پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے خلاف ویسی ہرزہ سرائی کی ضرورت نہیں تھی جیسی محمود خان اچکزئی نے کی۔ اچکزئی دکھاوا اس طرح کرتے ہیں جیسے دوسوملین کی اس قوم میں صرف وہی سچائی اور جمہوریت کے واحد چیمپئن ہیں۔ اُنھوں نے ایسا دکھاوا کرکے ہی اپنا کیرئیر بنایا ہے ۔ کیا اُن کی بات کوئی سنجیدگی سے سنتا ہے ؟ اُن جیسے سیاست دانوں اور مولانا فضل الرحمن جیسے فخر ِ مومنین کو نظر انداز کرنا ہی بہتر۔
پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہے، کسی کوانکار نہیں ، اور جن دہشت گردوں کا اسے سامنا ہے ، اُن کا شمار دنیا کے سفاک اور سخت جان ترین جنگجوئوں میں ہوتا ہے ۔ ان کے خلاف امریکی بھی افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑرہے ہیںلیکن وہ شورش کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ اس جنگ میں ہمیں امریکہ کی نسبت زیادہ کامیابیاں ملیں۔ تحریک ِطالبان پاکستان اورچیچن، عرب، ازبک ، تاجک اور دنیا بھر سے آئے ہوئے جہادی جنگجو قبائلی علاقوںمیں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوںسے نکل بھاگنے پر مجبور ہوگئے ۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہ تھی۔ سیکورٹی فورسز نے کراچی میں بھی کسی قدر امن قائم کردیا۔ اب دہشت گرد ادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں، لیکن اُن کا ابھی مکمل صفایا نہیں ہوا ۔ تحریک ِ طالبان پاکستان اور اس کی مختلف ذیلی تنظیمیںسرحد پار ، افغانستان کے کئی اضلاع میں اپنے ٹھکانے بنا چکی ہیں۔ وہ اُن محفوظ ٹھکانوں سے نکل پر ریاست ِ پاکستان پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں۔ یہ ایک گوریلا جنگ ہے ، اور گوریلا جنگ کرنے والے اپنے ٹھکانوں کی فیس بک یا واٹس ایپ پر تشہیر نہیں کرتے ۔ وہ گمنام مقامات میں روپوش ہوتے ہیں اور اکثر اوقات شہریوں میں گھل مل جاتے ہیں۔ اُن کا سراغ لگانا آسان نہیں ہوتا۔ چنانچہ اپنے محفوظ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر گفتار کے غازی پوچھ سکتے ہیں کہ دہشت گرد کیوں نہیں پکڑے جاتے ، یا اُنہیں اب تک کچلا کیوں نہیں جاسکا؟ اگر صرف الفاظ اور جذباتی بیانات سے ہی مسئلہ حل ہوسکتا تو اس وقت تک پاکستان ایک مثالی ریاست بن چکا ہوتا۔
افغانستان کی صورت ِحال تشویش ناک ہے ۔ اگرچہ انتہا پسند کابل میں داخل نہیں ہوپارہے ہیں لیکن نہ تو افغان حکومت اور نہ ہی امریکی اُنہیں حتمی طور پر شکست سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔چنانچہ ہمارے سامنے ایک طویل آزمائش ہے کہ افغانستان عدم استحکام کا شکار ہے اور وہاں اُن انتہا پسندوں نے پناہ لی ہوئی ہے جو ریاست ِ پاکستان کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ بالکل اسی طرح ڈیورنڈ لائن کے اس پار چھپے ہوئے انتہا پسند کابل حکومت کے لئے درد ِ سربنے رہے ۔ صورت ِحال ’’کچھ دو ، کچھ لو‘‘ کی متقاضی ہے ۔ افغانستان کے حوالے سے ہمیں نصیحت کرناآسان ، اوراس کام میں ہمارے امریکی دوست مستعد ، لیکن یہی نسخہ وہ خودافغانستان میں کیوں نہیں آزما سکے۔ دنیا کی طاقتور ترین جنگی مشین افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام، لیکن وہ ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے میں پیش پیش۔ ویت نام کی جنگ میں امریکیوں کا کہنا تھا کہ شمالی ویت نام کے کمبوڈیا کے راستے سپلائی لانے والے راستوں کی وجہ سے وہ ویت نام میں فتح حاصل نہیں کرپارہے ۔ چنانچہ اُنھوں نے کمبوڈیا پر بمباری شروع کردی اور اسے تباہ کرکے رکھ دیا۔
ہمیں بنیادی نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ افغانستان ایک تباہ شدہ ملک ہے ، اورامریکی امداد کے بغیر یہ مزید خرابیوں کا شکارہو جائے گا۔اسی طرح عراق بھی تباہ ہوچکا ہے ۔ شام ایک انتہائی خونی خانہ جنگی کا شکار ہے۔ لیبیا بطورایک فعال ریاست اپنا وجودکھوچکا ہے۔ امریکہ اور اس کی غلط پالیسیاں اس تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ اگر پاکستان اس انجام سے دوچار نہیںہواتو اس کی وجہ صرف اور صرف اس کے عوام اور مسلح افواج کی قوت ہے ۔ ہمیں ایک واقعہ کے تناظر میں وسیع تر منظر نامے سے نظریں نہیں ہٹانی چاہئیں۔ دہشت گردی اورشورش پسندی راتوں رات ختم نہیں ہوجائیںگی، یہ ایک پیہم جدوجہد ہے جو ہمارے عزم اور قوت ِ برداشت کا امتحان لے گی۔ کوئٹہ دہشت گردی جیسے واقعات پہلے بھی ہوئے ہیں، آئندہ بھی پیش آنے کا خدشہ موجود ہے ۔ دہشت گردوں کے پاس اچانک اور اپنی پسند کے موقع اور وقت کے مطابق وار کرنے کا آپشن موجود ہوتا ہے ۔ ہمارے دفاع یا چوکسی میں ہلکی سی غفلت، اور وہ اس کا فائدہ اٹھا جائیں گے ۔
ضروری ہے کہ قوم زیادہ تیار اور چوکس رہے ۔ اس کے لئے بہتر قیادت درکار ہے ، نیز ہمیں بغیر ٹھوس ثبوت کے را یا سی پیک کو ناکام بنانے کے گھنائونے منصوبے جیسے بیانات داغنے سے بھی پرہیز کرنا ہوگا۔ کوئٹہ سانحے کے بعد دئیے گئے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے ہمارا بطور ایک ذمہ دار قوم اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ ایسے واقعات ہوں گے ، رہنما اپنی سیکورٹی کے حصار میں محفوظ رہیں گے ، اُنہیں تو کوئی خوف نہیں،لیکن ملک کے عام شہری ہلاک ہوتے رہیںگے۔ چنانچہ ضروری ہے ہم دبائو اور ہنگامی حالات میں بھی اختصار سے ٹھوس بات کرنے کی عادت اپنائیں۔ دنیا ہمیں ایک بوکھلایا ہوا غول نہ سمجھے ۔ ہمیں صر ف بیانات نہیں، ثابت کرنا پڑے گا کہ ہم واقعی حالت ِ جنگ میں ہیں۔ اس کے لئے کچھ ضروری تبدیلیاںدرکار ہیں۔ سب سے پہلے تو فوج کو پراپرٹی بزنس سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی۔ بہت ہو گئیں ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیز۔ یہ کام بھی آسان اور راتوں رات نہیں ہوگا، لیکن سینئرافسران سادہ زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش کریں۔ شہادت اور پراپرٹی بزنس اکٹھے نہیں چل سکتے ۔ جہاں تک سیاسی طبقے ، خاص طور پر حکمران جماعت، کا تعلق ہے تو اگر موجودہ واقعہ نے اسے حقیقت میں جھنجھوڑ ا ہے تو اسے سرکاری امور اور ذاتی مفادات کے کاروبار کے درمیان لکیر کھینچنا ہوگی۔ ان کے پاس کافی دولت ہے ، اس سے زیادہ وہ کیا کریں گے ؟یہ بات سمجھ میں آجانی چاہئے کہ انفراسٹرکچر اور پاور پلانٹس پرپلنے والا کمیشن مافیا جنگ میں قوم کی قیادت نہیں کرسکتا۔ قوم کی تربیت کریں، اسے تعلیم دیں، اس کی ترجیحات درست کریں، لیکن یہ کام صرف وہی قیادت کرسکتی ہے جس کا دامن صاف ہو۔

.
تازہ ترین