• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جذبے اور جذباتی پن میں کیا فرق ہے۔ سوال کرنے والا ایک طالب دعا تھا۔ ہمارے ہاں اکثر بولا جاتا ہے۔ دعائوں میں یاد رکھنا۔ اب سوال یہ ہے کہ دعا کیا ہوتی ہے۔ ذہنی طور پر تو ہماری نماز بھی ایک دعا ہے جس کو دنیابھر کے مسلمان فرض کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ مگر سوال اپنی جگہ پر ہے کہ دعا کی کیا حیثیت ہے۔ انفرادی طور پر کلمہ خیر بھی دعا کی ایک قسم ہے۔ ہمارے ہاں عموماً کسی بھی محفل یا مجلس کے اختتام پر دعا کی جاتی ہے۔ عسکری حلقوں میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے دعا کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بسم اللہ ایک مکمل دعا ہے۔ کافی سال پرانی بات ہے۔ ہمارے آج کے وزیراعظم جناب میاں نوازشریف اس زمانہ میں سیاسی طور پر زیر عتاب تھے اور کافی پریشان تھےوہ کراچی گئے ہوئے تھے۔ میاں نوازشریف بہت مروت والے انسان ہیں۔ وہ لوگوں کی قدر کرنا جانتے ہیں اور فنکاروں پر ان کی خصوصی نظر کرم رہتی ہے۔ جب میاں نوازشریف کراچی گئے ہوئے تھے اس زمانہ میں پاکستانی فلمی دنیا کے مشہور زمانہ کامیڈین لہری صاحب صاحب فراش تھے۔ میاں نوازشریف کا ان سے تعلق خاطر تھا۔ جب میاں نوازشریف کو معلوم ہوا کہ ان کے پسندیدہ مزاحیہ اداکار لہری صاحب علیل ہیں میاں صاحب ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اور لہری صاحب سے بات چیت کی۔ لہری صاحب کو بولنے میں خاصی لکنت تھی۔ لہری صاحب کی فلموں کی بات ہوئی، سیاسی لوگوں پر تبصرے ہوئے پھر جب میاں صاحب نے اجازت مانگی تو لہری صاحب کا ہاتھ کافی دیر تک ہاتھ میں رکھا اور زور سے ان کے پاس کان میں کہا۔ ’’آپ میرے لئے دعا کریں‘‘ لہری صاحب کے چہرے پر تکلیف کے باوجود ایک مسکراہٹ سی تھی۔ لہری صاحب بولے ’’نواز میاں تم .....تم .....ضرور بنو گے ایک دفعہ .....پھر .....پھر سے .....وزیر ..... وزیراعظم .....میری .....میری .....بات .....یاد .....یاد .....رکھنا۔ کچھ عرصہ کے بعد میاں نوازشریف نے لہری صاحب کے علاج کے حوالے سے خاصی معقول رقم بھی ان کی نذر کی۔
اب اتنے سال گزرنے کے بعد جب آج میاں نوازشریف تیسری دفعہ ملک کے طاقتور ترین وزیراعظم کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ دعا کی کتنی طاقت ہوتی ہے۔ ویسے تو روزانہ ہم مسلمان دعا کرتے رہتے ہیں۔ مگر جو دعا کسی فقیر کی جانب سے ہو جائے وہ اللہ کے حضور بہت معتبر ہوجاتی ہے۔ ایک بہت ہی خوبصورت اور بامعنی شعر دعا کے حوالہ سے ہے؎
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
اصل میں دعا کی تعبیر خوشی اور آسانی ہے!
ویسے تو میاں نوازشریف کے لئے دنیا دعا کرتی رہتی ہے میرے ایک دوست محمد رشید جو پی آئی اے شعبہ مارکیٹ سے تعلق رکھتے ہیں ۔وہ میاں نوازشریف سے جتنی محبت اور لگائو رکھتے ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے جب بھی ملتے ہیں ہمارا موضوع ’’میاں صاحب اور ان سے پیار‘‘ ہی ہوتا ہے۔ جب میاں نوازشریف کو جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا تو اس زمانہ میں میاں نوازشریف کے خاندان کے لوگ ان سے رابطہ میں رہے اور اپنے سفر کے معاملات آسان بناتے رہے۔ مجھے لگتا ہے محمد رشید بھی ایک اچھے اور سالک انسان ہیں انہوں نے میاں نوازشریف سے کچھ بھی نہیں لیا بلکہ میاں نوازشریف کے مہربانوں نے ان کو بہت مشکل وقت دیا۔ مگر ان کی زباں پر حرف شکایت نہ آیا اورآج میاں نوازشریف کی سرکار میں ان کی دعائوں کا اثر نظر آتا ہے۔
اب اتنی دعائوں کے بعد میاں صاحب ملک کے وزیراعظم تو بن گئے مگر ان کا سکون اور آرام غارت ہوگیا۔ ان کی زندگی آسان نہیں رہی اور ایسی دعا کے بعد حالات اگر ایسے ہوں تو یہ مقام صبر ہے یا مقام شکر؟ چند دن پہلے جب میاں نوازشریف لندن سے علاج کے بعد واپس آئے تو میں نے میاں صاحب کے دوست محمد رشید آف پی آئی اے کو مبارک باد دی اور کہا کہ میاں صاحب کو پہلی فرصت میں لاہور کے ولی جناب داتا گنج بخش کے ہاں حاضری دینی چاہئے۔ مگر اتنے دن ہوگئے میاں صاحب کو فرصت نہیں ملی اور ان کے حالات اور ملک کے حالات مخدوش اور پریشان کن جارہے ہیں۔
آج کل صرف اور صرف آئی ایم ایف کو خوش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے ایک مہربان سے بات ہورہی تھی تو کہنے لگے دعا کی ضرورت کیا ہے اللہ نے ہمارے لئے سب کچھ مقرر کر رکھا ہے۔ اب دعا سے تقدیر تو نہیں بدل سکتی۔ ان کی بات بھی درست ہے مگر حضرت اقبال نے کیوں کہا!
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اب ہمارے ہاں ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار جیسے مرد حق تو ہیں مگر ہمارے معاشرے میں مرد مومن کی تلاش مشکل ہے۔ اصل میں دعا ایک توکل اور شکر کا پیغام ہے۔ ہمارے شہر لاہور میں ایک ایسا صاحب فقر بھی ہے جو لوگوں کی مشکلات میں ان کے لئے دعا کرتا ہے اور ان کے حلقہ اثر میں ہمارے وزیراعظم کے خاندان کے لوگ بھی شامل ہیں۔ جناب سرفراز شاہ کے بارے میں ایک کتاب ’’جناب سرفراز شاہ کے حضور‘‘ چند دن پہلے شائع ہوئی ہے اس میں پاکستان کے اہم کالم نگاروں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سرفراز شاہ صاحب کی محفل میں دعا کی اہمیت پر بہت بات ہوتی ہے۔ مگر قبولیت کی گھڑی کا معاملہ مولا پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس ہی طرح پروفیسر عبداللہ بھٹی کا طریقہ درویشی ہے وہ بھی دعا دیتے ہیں اور لوگ فیض یاب ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے لاہور میں ایک بہت ہی اہم مصنف بابا محمد یحییٰ خان ہیں ان کا معاملہ سب سے جدا ہے۔ وہ ایک منفرد صاحب قلم اور روحانی شخصیت ہیں وہ دعا پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور کچھ لوگوں کو دعا اور کچھ پر نظر کرم بھی فرما دیتے ہیں۔
بات شروع ہوئی تھی دعا سے کہ دعا جذبے سے قبول ہوتی یا جذباتی ہو کر۔ پاکستان میں جذبہ کم اور جذباتی لوگ ہر طرف نظر آرہے ہیں اور اس جذباتی کیفیت نے پاکستان کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ فوج میں ہوں یا سیاست میں اگر جذباتی طریقے سے فیصلے ہونگے تو ان کی کوئی اہمیت نہ ہوگی۔ ہمارے ہاں جذبے کی بہت کمی ہے۔ اب دہشت گردی اور کرپشن پر ہمارے ہاں جذباتی طور پر بہت تکلیف محسوس کی جاتی ہے مگر ہمارا پورا معاشرہ اور نظام مکمل طور پر بے بس اور لاچار نظر آرہا ہے۔ جمہوریت کے دعوے دار بھی جذباتی فیصلے کر کے جمہور کی زندگی مشکل بنا رہے ہیں حالیہ دہشت گردی جو کہ کوئٹہ میں ہوئی اس کے بعد قومی اسمبلی میں جو جذباتی ابال آیا ہے وہ ایک سنجیدہ قوم کی آواز نہیں۔دعا کی دوسری کیفیت کا نام عمل ہے بقول اقبال؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
ہمارے عمل کچھ ایسے ہی ہیں کہ دعا سے ڈر سا لگتا ہے۔
وقت قبولیت ہے مگر کانپتا ہے دل
غائب کا خوف بھی ہے دعا کے اثر کے ساتھ


.
تازہ ترین