• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب آصف علی زرداری کی 29جولائی 1987ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے لندن میں منگنی طے پائی تو دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ میں اس کی نمایاں طور پرتشہیرہوئی۔ نیوز ویک‘ ٹائم میگزین‘ گارڈین‘ واشنگٹن پوسٹ‘ بی بی سی‘ امریکن ٹیلی ویژن جیسے سبھی اداروں نے اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور آصف زرداری عالمگیر شخصیت بن گئے۔ تادم تحریر وہ میڈیا کا اہم موضوع ہیں۔ ان پر مختلف نوعیت کی بے تحاشا تنقید کی گئی۔ انہوں نے طویل عرصہ جیل میں گزارا۔ یہاں تک کہ صدر پاکستان کے عہدہ پر فائز ہونے کے دوران بھی ان پر تنقید کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر انہوں نے انتہائی تحمل و بردباری سے اپنے خلاف نکتہ چینی کو برداشت کیا اور قوت برداشت کی نئی مثال قائم کی۔آصف علی زرداری کے طویل عرصہ جیل میں گزارنے کی وجہ سے کئی سال میاں بیوی جدا رہے لیکن اس کا سب سے قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ان میں یگانگت کا رشتہ کمزور نہیں ہوا اور آصف علی زرداری خوش نصیب ہیں کہ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی رفیق حیات ملیں جنہوں نے ان کی قید کے خلاف ہر عالمی فورم پر آوازبلند کی۔ 2004ء میں آصف علی زرداری کو پاکستان میں قید سے رہائی ملی۔ بچوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکاتھا۔ وہ باپ کی شفقت کے لئے تڑپ رہے تھے۔ بی بی نے مجھے لندن فون کرکے دبئی آنے کا کہا اور بتایا کہ آصف دبئی آنے والے ہیں چنانچہ میں دبئی آگیا۔ جس دن آصف صاحب کی آمد تھی اس روز بی بی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اس شام وہ نہ تو کوئی سیاسی قائد تھیں نہ سربراہ حکومت‘ وہ فقط ایک عورت‘ ایک بیوی اور ایک ماں تھیں۔ اس روز گھر میں چراغاں کیا گیا۔آصف علی زرداری کی رہائی کے بعد یہ پروپیگنڈا شروع کیا گیا کہ اب پی پی پی کی قیادت آصف علی زرداری کے سپرد کی جائے گی اور آئندہ حکومت سازی میں انہی کا کلیدی کردار ہوگا۔ اس سرکاری مہم کا اصل ہدف محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔ پارٹی کوتقسیم کرنے اور قیادت کا تنازع پیدا کرنے کی یہ گہری چال تھی۔ لیکن سازشی گروہ میاں بیوی کے درمیان سیاسی اختلافات کا بیج بونے میں ناکام رہا۔ آصف علی زرداری نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیربھٹو ہیں اور وہ ان کے سیاسی احکام پر عمل کرینگے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپنے خاوند سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ آصف علی زرداری سے جیل میں دوران قید ملنے جاتیں‘ بارش ہو یا طوفان وہ ملاقات کاپروگرام تبدیل نہ کرتیں۔ سابق وزیراعظم کو عدالتوں کے چکر کاٹنا پڑتے‘ ہجوم میں دھکے کھانا پڑتے۔ ایک مرتبہ آصف زرداری کے مقدمہ کے سلسلے میں وہ کراچی کی عدالت میں تھیں اورعام لوگوں کی طرح دھکم پیل میں انہیں شدید مشکل پیش آرہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ بی بی آپ کیوں یہاں آئی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ان کے شوہر کا معاملہ ہے۔ آصف زرداری اور بی بی کے تعلقات کے بارے میں پاکستان واپسی سے قبل یہ گمراہ کن افواہیں پھیلائی گئیں کہ ان کی علیحدگی ہوگئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام افسانے تھے۔ اپنی رہائی کے بعد تین سال تک آصف صاحب نیویارک میں رہے۔ بی بی نے پاکستان آتے وقت آصف صاحب کو روک دیا تھا کہ وہ پاکستان نہ جائیں کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا تھا۔ بچوں کو بھی انہوں نے دبئی میں ہی رہنے دیا۔ وہ اپنے بچوں اور شوہر کو کسی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی تھیں۔آصف علی زرداری پر منشیات کا ایک مقدمہ بنایا گیا۔ ایک شخص سے اس ضمن میں اعتراف بھی کرایا گیا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت نے بعدازاں خود تسلیم کیا کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ ڈی جی نارکوٹکس نے بھی اس الزام کی تردید کی تھی۔ غلام اسحٰق خان نے جس شخص پر بدعنوانی کا الزام لگا کر بی بی کی پہلی حکومت کوختم کیا اسی شخص یعنی آصف علی زرداری سے اسی غلام اسحٰق خان نے عبوری حکومت میں بطور وزیر حلف لیا۔ یوں ان تمام الزامات کا پول کھل جاتا ہے۔ دراصل ان تمام الزامات اور پروپیگنڈہ کا ایک ہی مقصد تھا کہ پی پی پی کو ختم کردیا جائے۔
آصف علی زرداری نے استقامت اور جوانمردی سے جیل کی صعوبتیں اٹھائیں۔ ان کے عزم و استقلال میں کوئی فرق نہ آیا۔ ان کا طرزعمل محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے لئے ہمیشہ سربلندی کا باعث رہا۔ بی بی شہید کو اپنے خاوند کی اس جرأت و بہادری پر فخررہا۔ خود آصف علی زرداری بھی جیل میں رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کا حصہ رہے اور کسی لالچ یا دبائو کے سامنے جھکنے سے انکار کرکے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے دل میں ایک خاص جگہ بنالی۔بی بی نے 16اکتوبر 2007ء کو جو سیاسی وصیت لکھی اس کے پیچھے بھی ان کی خاص سوچ کار فرما تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ پارٹی کے اندر سندھ‘ پنجاب اور دیگر صوبوں میں مختلف گروہ بندیاں موجود تھیں۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ آصف علی زرداری کے علاوہ کوئی اور رہنما ایسا نہیں جو پارٹی کے شیرازے کو جوڑ کر رکھ سکتا ہو لہٰذا انہوں نے اپنے بعد اپنے شوہر کو پارٹی قیادت کے لئے منتخب کیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ وہ ان کے شوہر تھے اور دوسرا یہ کہ آصف علی زرداری نے طویل عرصہ جیل کاٹی اور آمر کے سامنے جھکے نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بی بی نے انہیں نامزد کیا کہ وہ پارٹی کی قیادت سنبھالیں اور اسے متحد بھی رکھیں۔
بی بی کی شہادت آصف صاحب اور ان کے بچوں کے لئے سانحہ عظیم تھا۔ خصوصاً ان کی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ اپنی ماں کے غم میں نڈھال تھیں۔ پارٹی کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی آصف صاحب کے کندھوں پر آن پڑا۔ سندھ اور پاکستان کے اکثر علاقوں میں عوام نے مشتعل ہوکر گھیرائو جلائو شروع کردیا اور ملکی سلامتی کیلئے ایک سنگین خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس صورتحال کو آصف علی زرداری نے بڑے تدبر سے سنبھالا اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک کو درپیش خطرناک حالات کا رخ تبدیل کیا۔ انہوں نے حسن تدبر سے پاکستان پیپلزپارٹی کو وفاق کی علامت ثابت کیا۔ ان کا یہی کارنامہ ان کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے آصف علی زرداری پر جس اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ اس پر پورا اترے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو یقینا اپنے اس انتخاب پر مطمئن ہونگی۔ آصف علی زرداری کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے بی بی کی مفاہمتی پالیسی پرعمل پیرا ہوکر پانچ سالہ دور حکومت کی تکمیل کی اور پرامن انتقال اقتدارکی روایت قائم کی۔ تاریخ میں انہیں اس لئے یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے اچھے رفیقِ سیاست ہونے کا ثبوت دیا اور بھٹو لیگیسی فائونڈیشن قائم کرکے قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے افکار و نظریات کو عام کرنے کا اہتمام کیا۔ 26جولائی۔سالگرہ مبارک
تازہ ترین