• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو مدعی بنے، اس کے نہ مدعی بنئے
جو نا سزا کہے، اس کو نہ ناسزا کہئے
کبھی شکایت رنج گراں نشیں کیجئے
کبھی حکایت صبر گریز پا کہئے
مرزا غالب کے مندرجہ بالا اشعار چوہدری افتخار صاحب کا عمران کو کولیگل نوٹس بھیجنا اور عمران خان کا جواباً اخباری بیان پڑھ کر ذہین میں آئے، جمعۃ الوداع کے دن ایک اخبار میں جناب یوسف رضا گیلانی سے منسوب بھی بیان چوہدری صاحب کے بارے میں لکھا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ چوہدری صاحب چیف جسٹس نہیں سیاست داں تھے۔ ماضی قریب میں تمام سیاسی پارٹیوں نے چوہدری صاحب کی بطور چیف جسٹس بحالی کے لئے وکلا کے شانہ بشانہ جدوجہد کی اور پھر میاں نواز شریف صاحب نے لانگ مارچ کی ابتدا کر کے کیانی صاحب کے توسط چیف صاحب کو بحال کروایا۔ اب ان کے ریٹائر ہوتے ہی یکایک پہ کیا ہوا کہ مختلف اطراف سے ایک چیف صاحب کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور نوبت یہاں تک آگئی کہ جو شخص خود چیف جسٹس آف پاکستان رہا ہوا سے لیگل نوٹس دینے کی ضرورت پیش آگئی۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ابھی تو چوہدری صاحب کو اپنے آفس سے نکلے ہوئے ایک سال کا عرصہ بھی نہیں ہوا اور اس طرح کی چہ مہ گوئیاں شروع ہوگئیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہی دستور زمانہ ہے۔ کل پرویز مشرف کا طوطی بولتا تھا۔ ان کی آنکھ کے ایک اشارے سے ان کے تمام اقدامات قانونی قرار دے دیئے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو تین سال کے لئے آئینی ترامیم کرنے کی بھی اجازت دیدی گئی تھی۔ آج وہ اپنی والدہ کی عیادت کے لئے جانے سے بھی قاصر ہیں اور انہیں عدالتی احکامات کی ضرورت ہے۔ کل عدالتیں انہیں آئین میں ترمیم کا اختیار دے رہی تھیں۔ آج وہ سائل ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔ اسے عوامی زبان میں کہتے ہیں کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔ بہرحال یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ 14اگست آنے والی ہے اور مختلف لیڈروں نے بڑے بڑے دعوے کر رکھے ہیں۔ طاہر القادری صاحب نے تو سنا ہے کہ نوکریوں کے لئے درخواستیں بھی طلب کرلی ہیں جو کہ کامیاب انقلاب کے بعد بانٹیں جائیں گی۔ اگرچہ عمران خان کے دعوے واضح نہیں ہیں مگر وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ صرف جلسہ نہیں ہوگا۔ اگر جلوس ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ میں اس موضوع پر اپنے گزشتہ کالم میں روشنی ڈال چکا ہوں۔ لوگوں کی بے چینی اور تبدیلی کی خواہش ان لوگوں کے کامیاب جلسوں سے عیاں ہے۔ اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اس قوت اپنی قوم کو سخت گرمی کےکڑاکےدارروزوںمیں لوڈشیڈنگ کے حوالے کر کے ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ میاں صاحب تو خیرہر سال آخری دس روزے سعودی عرب میں اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اس سال سابق صدر زرداری صاحب روزے گزارنے واشنگٹن تشریف لے گئے اس پر اکبر الہ آبادی کا ایک شعر یاد آیا جو قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
شیخ جی جائیں حرم کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا، ہم خدا کی شان دیکھیں گے
گویا کوئی خدا کا گھر دیکھ رہا ہے اور کوئی خدا کی شان۔ عوام عذاب بھگت رہے ہیں۔ گرمی، روزے، لوڈشیڈنگ پانی کی قلت، بے روزگاری، اقربا پروری، رشوت ستانی جتنے مصائب ہیں ہم ان سے دوچار ہیں مگر اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو۔ جب غزہ کے مسلمانوں کو دیکھتا ہوں، ان کے بچوں کی معصوم نعشوں کی تصویریں اخبارات میں دیکھتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ دل تھام کے رہ جاتا ہوں۔ بھلا ہو پاکستان کی حکومت کا آج پھر ایک بیان جاری کیا ہے اور 10لاکھ ڈالر بھی دیئے ہیں۔ اگرچہ یہ امداد وہاں مصیبتوں کے پہاڑ کے آگے کچھ بھی نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی غریب ملک ہیں اور ہمارے وسائل بھی محدود ہیں۔ کاش خلیج کے ممالک اس کارخیر میں حصہ لیں اور عید کے اس موقع پر اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھوں کو بانٹ لیں۔ غزہ کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تمام یورپی ممالک اور امریکہ بشمول ملالہ خاموش ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے۔ کیا وہاں خون نہیں بہتا۔ یہ عبرت کا مقام ہے اور ہمیں اس پر سوچناہے۔ جمعۃ الوداع کو پاکستان میں غزہ کے مسلمانوں کی حمایت میں دن منایا گیا۔ جو ہم سے ہو رہا ہے ہم کررہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود غزہ کے مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہورہا۔ پاکستان میں اب چھٹیوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ طویل چھٹیاں ہیں۔ لوگ کافی خوش ہیں خاص طور پر کراچی میں ہلکی سی بارش نے موسم خوش گوار کردیا ہے۔ اور لوگ پکنک کے موڈ میں ہیں بازاوں میں خاصی رونق ہے اور مسجدں میں آخری عشرے کی طاق راتوں کی وجہ سے عبادت گزاروں کا خوب رش ہے اور لوگ حسب توفیق عبادت میں مصروف ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم عید کی خوشیوں میں اپنے سفید پوش عزیز و اقارب اور ان کے بچوں کو اپنے ساتھ شامل کریں تاکہ ان کو اور ان کے بچوں کو کسی قسم کا احساس محرومی نہ ہو۔ آخر میں غالب کے حسب موقع اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
ہزاروں خواہش ایسی کہ، ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرہ پر پیج و خم کا پیچ و خم نکلے
تازہ ترین