• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوری مسلم دنیا اس وقت بے بسی اور لاچاری سے دوچار ہے۔ اب صرف مسلمان ہی نہیں مغرب میں بھی اس بات کا احساس ہے، برطانیہ، فرانس، امریکہ میں لوگ بےبس فلسطینی عوام پر جو عذاب اس وقت نازل ہورہا ہے اس پر ہمدردی میں باہر نکلے ہیں مگر دنیا پر قابض طاقتیں ان کو خاطر میں نہیں لارہی۔ یہ لاچاری بے بسی غریب لوگوں کا مقدر ہے اور مقدر سے کون لڑسکتا ہے۔ غریبوں کی نہ قسمت ہوتی ہے نہ مقدر، اسی صدقہ، زکوۃٰ ،خیرات اس ہی وجہ سے افضل ہیں کہ ان کی وجہ سے غربت سے لڑا جاسکتا ہے۔ امیر اس ہی لئے لڑتا ہے کہ اس کے دھن دولت میں اضافہ ہو اور غریبوں پر حکمرانی قائم رہے۔ کیا فلسطینی غریب ہیں، بالکل غریب ہیں اور اس ہی وجہ سے کمزور بھی ہیں۔ یہودی ریاست اسرائیل کی آبادی 80 سے 90 لاکھ کے درمیان ہے اس میں دو سے تین فیصد مسلمان اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ اسرائیل تقریباً 450 کلو میٹر اور 150 کلو میٹر لمبا اور چوڑا ہے۔ اس کی سرحدیں کافی مسلمان ممالک سے ملتی ہیں۔ دولت کے حوالہ سے اس کا شمار دولتمند ملکوں میں ہوتا ہے۔ تل ابیب جو اسرائیل کا دوسرا بڑا شہر ہے، سہولتوں اور ترقی کے تناظر میں نیویارک کا مقابلہ کرتا نظر آتا ہے جب اتنا سب کچھ ہو تو جنگ میں اصول اور قانون کوئی نہیں ہوتا ،یہ اسرائیلوں کی بقاء کی جنگ ہے، جس کو وہ خوب لڑرہے ہیں اس ہی خطہ میں مسلمان بے بس اور لاچار ہیں۔ ان کے حکمران دولتمند ہیں، جو ان کو اب تک تحفظ دیتی آئی ہے۔ مصر اس خطہ میں امیر ملک نہیں مگر عربوں میں اپنا منفرد تشخص رکھتا ہے جو فرعون کی سرزمین میں ان کے رگ و ریشے میں بسا ہوا ہے۔ وہاں مسلمان جمہوریت کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مسلمانوں میں جمہوریت فقط عیاری ہے نہ ہی اس کا کوئی حسن ہے اور نہ شکل۔کچھ ایسا معاملہ ہمارے ہاں بھی ہے۔ ملک میں جمہوریت کا راگ گایا جارہا ہے، مگر اس میں نہ سر ہے نہ سنگت، گانے والے بھی بے سرے، تان ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہے۔ ایسے میں کون ان کے ریاض پر اعتبار کرے۔ اس وقت جمہوری لوگ، لانگ مارچ، امن مارچ اورانقلاب کے دعوئوں سے گھبرا گھبرا سےگئے ہیں ہر وزیر اپنی اپنی راگنی بجارہا ہے۔ وزیر اعظم میاں صاحب رمضان کی فضلیت سمیٹنے کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے ہیں۔وہاں پر عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے۔ اپنی جلا وطنی کے زمانہ کے دوستوں سے ملیں گے۔ان سب کے لئے ڈھیر ساری آم کی پیٹیاں لے کر گئے ہیں۔ آم جو ہمارے ہاں پھلوں کا بادشاہ مانا جاتا ہے وہاں کے بادشاہ کو پیش کیا جائے گا پھر اللہ سے اپنے پر فضل کی دعا مانگی جائے گی۔ وزیر اعظم کی ملک سے غیر حاضری سے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔پہلے بھی وہ چار دن ہی حکومت کرتے تھے جمعہ کو اسلام آباد سے آجاتے اور پیر کو دوبارہ دربار سجانے چلے جاتے۔ ملک پہلے بھی چل رہا تھا اور ملک اب بھی چل رہا ہے۔ عوام کو اطمینان ہے کہ وزیر اعظم صاحب اللہ کے دربار میں پاکستان کے لئے دعا کریں گے۔ رہا قبولیت کا معاملہ وہ مقدر اور نصیب کی بات ہے کہ ان کی دعا سے کس کا مقدر بدلے اور کس کس کا نصیب جاگے ۔اگست بس سر پر ہے جلد ہی معلوم ہوجائے گا امن ہوگا کہ مارچ، عوام کے لئے دونوں ہی خوش نصیب ہوں اور مقدر بدلے۔
ادھر ایک اور سابق صدر دنیا پر حکمرانی کرنے والے ملک تشریف لے گئے ہیں۔ ان کا استقبال بھی ایک بادشاہ کے انداز میں ہوا ہے۔ بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے ان کے دورہ کی نگرانی میں کبھی کبھار کسی کسی جگہ ہمارے سابق سفیر حسین حقانی بھی نظر آجاتے ہیں۔ سابق صدر کے ساتھ پیپلز پارٹی نے اہم ترین نوجوان رہنما بلاول بھٹو زرداری بڑے نمایاں ہیں۔ سابق صدر کے حلقہ فکر میں صرف دوست احباب شامل ہیں پارٹی کے لوگوں کو ملک میں جمہوریت کی نگرانی کے لئے مصروف کر رکھا ہے۔ ہمارے امریکی دوست اس وقت بہت ہی مصروف ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے مسائل نے ان کو پریشان کر رکھا ہے۔ افغانستان سے فوجی انخلاء ان کے لئے بہت اہم ہوتا جارہا ہے۔ روسی مداخلت اور یوکرائن کے معاملات نے ان کو پریشان کر رکھا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو اسرائیل کی مدد کے لئے حرکت پذیر کر رکھا ہے مگر عالمی برادری میں ان کی حیثیت کمزور ہوتی جارہی ہے ،امریکی افواج دوستوں کو کبھی بھولتی نہیں۔ ہمارے سابق صدر اور فارغ جنرل پرویز مشرف کا معاملہ بھی زیر غور ہے۔ ہمارے سابق صدر جناب زرداری بڑا لطیف مزاح رکھتے ہیں۔اب وہ سابق صدر جنرل مشرف کو ان کے نام سے نہیں بلاتے۔ فقط مشرف کہتے ہیں۔ وہ خطرات سے نکل چکے ہیں اور پانچ سال کی مقررہ مدت بڑی خوش اسلوبی سے مکمل کی ہے اس لئے ایسا مذاق اور گفتار ان کا حق ہے مگر امریکی ان کو باور کرواسکتے ہیں کہ این آر او کے مطابق ان کے کردار کا تعین ہوچکا ہے اور وہ خلاف ورزی کے مجاز نہیں۔ سو ان کی امریکہ یاتیرا ملک میں کیا رنگ دکھاتی ہے۔ وہ تو این آر او کی طرح کا خفیہ راز ہے جس پر سے پردہ صرف اور صرف سابق کمانڈر جناب کیانی اٹھا سکتے ہیں مگر وہ شریف آدمی ہیں اور ان کو دو شریف لوگوں کا لحاظ بھی کرنا ہے اس لئے اگر جنرل(ر) پاشا کچھ بتاسکیں تو غنیمت ہوگا۔
ادھر فاٹا میں ضرب عضب میں مصروف پاک افواج مسلسل پیش قدمی کررہی ہیں۔ ہماری پیش قدمی سے ہمارا مہربان دوست مطمئن نہیں وہ کیا چاہتا ہے اس کا اس کو بھی معلوم نہیں۔ دہشت گرد پسپا ہوتے ہوئے افغانستان جارہے ہیں جہاں پر نیٹو افواج کا کنٹرول ہے۔ یہ کیسی جنگ ہے جس میں دوست بھی دشمن کو پناہ دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ممبر قومی اسمبلی جناب اچکزئی خصوصی نمائندہ وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے کابل گئے۔ سیکرٹری خارجہ ان کے ساتھ تھے۔ افغان صدر اور اعلیٰ فوجی قیادت سے ملاقات ہوئی جن خدشات کا اندازہ کیا جارہا تھاان پر مشاورت بھی ہوئی مگر دونوں حکومتوں نے تفصیل بتانے سے گریز کیا۔ افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخابات امریکی دوستوں کی مدد سے درست کئے جارہے ہیں اور کوشش ہورہی ہے کہ دونوں صدارتی امیدواروں کو افغانستان میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کاموقع فراہم کیا جائے۔ پاکستان کا دفتر خارجہ حسب سابق ان معاملات میں خاموش ہے۔ فوج نے اپنے طور پر افغان افواج سے رابطہ کرکے سرحدی صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ فاٹا کی حیثیت ا ب بدلنے کا وقت آگیا ہے تاکہ فاٹا کے لوگ دیگرعوامی سہولتوں سے بہرہ ور ہوسکیں۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فاٹا میں فوج نے کافی ترقیاتی کام کیا ہے اب صوبے کو وہاں پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وفاقی وزیر سابق جنرل عبدالقادر بلوچ کے مطابق اس علاقہ میں جنگ بندی جلد ممکن نہیں جنگ کی طوالت ملکی معیشت کے لئے مناسب نہیں۔ اس کا حل جلد از جلد ضروری ہے۔ صوبہ پختونخوا کی سرکار مرکز سے خوش نہیں وہ صوبے کے مفادات پر وزیر اعظم سے مشاورت چاہتی ہے۔ وزیر اعظم کو اس معاملہ پر توجہ دینی ضروری ہے تاکہ اندرونی خلفشار باہمی مشاورت سے دور ہوسکیں ۔ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ میر منشی بھی اس وقت سعودی عرب میں عبادت اور سیاسی ریاضت میں مشغول ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں حکومت کے معا ملات پنجاب کے صوبے دار اور داخلہ کے اصولی وزیر دیکھ رہے ہیں۔ دن میں کئی کئی بار مشاورت ہوتی ہے بظاہر تمام معاملات خوش اسلوبی سے جارہے ہیں مگر مرکز میں ایک اندرونی طوفان کا خدشہ ہے۔ پاکستان کے حساب کتاب کے بڑے افسر کا حالیہ دنوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے تحفظ حاصل کرنا خاصا تشویشناک ہے۔ ان کے حساب کتاب کی وجہ سے پنجاب میں بھی مسائل پیدا ہوئے اور پھر میر منشی نے خاصی بڑی رقم حکومت میں آنے کے ابتدائی دنوں میں بجلی کی کمپنیوں کو بخش دی۔ جس کا حساب کتاب ضروری تھا۔ یہ اختلافی مسئلہ اب قانونی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ حساب کتاب کے بڑے آفیسر کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے ۔وزیر اعظم اس سلسلہ میں کچھ احکامات دے چکے ہیں مگر ان پرعملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس معاملہ کو طے کرنااسمبلی کا کام ہے۔ دوسری طرف پاکستان ائیر لائن کی نجکاری کا معاملہ شفاف نہیں ہے جس کی وجہ سے حزب اختلاف کے لوگ بھی سرکار سے ناراض ہیں۔ نجکاری کا وعدہ میرمنشی نے آئی ایم ایف سے قرضے کے حوالہ سے کیا تھا جس کو پورا کرنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر جو ہمارے ڈاکٹر قادری کی طرح سے کینیڈا سے آئے ہیں وہ قومی ادارے کو ایک عرب ملک کے ہاتھ بیچنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ یہ خبر بازبان راوی ہے مگر نجکاری ہونے جارہی ہے اتنے سارے معاملے میں قیادت ملک سے باہر ہے۔ اللہ ملک چلا رہا ہے دیکھیں اللہ آنے والے دنوں میں ملک کو کن لوگوں کے ساتھ مل کر چلاتا ہے، دیر ہے اندھیر نہیں۔
تازہ ترین