• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذوالفقار علی بھٹو 1967ء میں بلوچستان کے سَربُرآوردہ سیاستدان اور قائداعظمؒ کے ساتھی میر جعفر خان جمالی‘ جنہیں بھٹو صاحب خود بھی اپنا سیاسی مرشد مانتے تھے‘ کے انتقال پر روجھان جمالی گئے تو اُنہوں نے میر ظفر اللہ خان جمالی کے والد شاہنواز جمالی سے درخواست کی کہ ’’مجھے جمالی خاندان سے ایک فرد دے دو جو میرا سیاسی رفیق بنے‘‘ جس کے جواب میں شاہنواز جمالی نے اپنے صاحبزادے ظفراللہ خان جمالی کا ہاتھ بھٹو صاحب کے ہاتھ میں پکڑا دیا‘ اور یہیں سے میر ظفر اللہ خان جمالی نے باضابطہ طور پر اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ 1986ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وہ پانی و بجلی کے وزیر رہے۔ پھر ضیاء الحق نے اپنی حکومت میں اُنہیں وزیر ریلوے بنا دیا۔ وہ دو مرتبہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ بھی رہے اور اُنہیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ملک کے پہلے وزیراعظم تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ تک کا سفر۔۔ کوئی خاص ہنگامہ خیز نہیں تھا لیکن 1999ء میں میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ منقسم ہوئی تو اُنہوں نے اپنا سارا وزن جنرل ضیاء الحق کی حمایت کرنے والے دھڑے مسلم لیگ (ق) میں ڈال دیا۔ یہ اُنکے سیاسی ثمرات کے حصول کا دور تھا۔ اُنہیں جنرل ضیاء الحق کے بعد اُس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی زبردست اور پُرجوش حامی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کا جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا۔ جس کے صدر چوہدری شجاعت حسین تھے۔ اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ نے 21نومبر 2002ء کو میر ظفر اللہ خان جمالی کو وزیراعظم منتخب کیا‘ لیکن دو سال بعد ہی میرظفر اللہ خان جمالی سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ ان دو سال کے نشیب و فراز کی داستانیں عجیب بھی ہیں اور سیاسی حوالے سے عبرتناک بھی۔
یہ جون، جولائی 2004ء کا عرصہ ہے جب چوہدری شجاعت حسین اور میر ظفر اللہ خان جمالی کے مابین اختلافات عُروج پر تھے۔ صدر پرویز مشرف چوہدری شجاعت حسین کی سفارش پر بنائے ہوئے وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی سے باقاعدہ طور پر ناراض تھے۔ اسمبلی ٹوٹنے اور مڈٹرم الیکشن کی باتیں بھی سرگوشیوں سے نکل کر اعلانیہ ہو رہی تھیں اور وزیراعظم جمالی شدید دبائو میں آ چکے تھے۔ وہ خود کو اتنا تنہا محسوس کر رہے تھے کہ نہ صرف چوہدری شجاعت کے گھر مشاورت کیلئے خود جاتے بلکہ اُنہیں اپنی جماعت کے نائب صدر سید کبیر علی واسطی کی اعلانیہ حمایت حاصل کرنے اور اُنہیں منانے کیلئے بھی اُنکے قدیمی گھر راولپنڈی جانا پڑا۔ مئی کے اختتامی دنوں میں بعض ایسے واقعات بھی پیش آئے جو چیخ چیخ کر وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کو ’’الوداع الوداع‘‘ کا پیغام دے رہے تھے۔ اس ساری صورتحال میں جب جمالی صاحب نے خود کو بے بس محسوس کیا تو وہی کچھ کیا جو اُن جیسے عقیدے کے لوگ کرتے ہیں۔ اُنہوں نے پوری توجہ سے اللہ سے لو لگائی اور پھر ارض مقدس پر حاضری کا قصد کیا۔ کچھ احباب اور چند خاندان کے افراد کے ہمراہ عمرہ کرنے کیلئے سعودی عرب روانہ ہو گئے۔
اندر سے تنہا تھے لیکن دُنیاوی طور پر بہرحال اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم‘ خصوصی جہاز میں حجاز مقدس پہنچے تو انہیں منصب کے شایان شان پروٹوکول ملا۔ اعلیٰ ترین مناصب پر متمکن سعودی شخصیات نے پذیرائی کی‘ ملاقاتیں کیں، پاکستان کیلئے دعائیں بھی کیں اور پاکستان میں حکومت کیساتھ تعاون کی یقین دہانیاں بھی کرائیں۔ ان ملاقاتوں میں جمالی صاحب نے پاکستان کے فیصلوں پر اثرانداز ہونیوالی شخصیات سے کیا باتیں کیں۔۔ یہ تو نہیں معلوم‘ لیکن مکّہ اور مدینے میں اُنکے رفقاء نے اُنہیں بڑے خُشوع و خُضوع سے دعائیں مانگتے دیکھا۔ اسلام آباد سے روانگی کے وقت اصل پروگرام دو دن کا تھا لیکن سعودی عرب میں قیام کا دورانیہ بڑھتا گیا۔ سعودی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا اور اللہ کے حضور حاضری کا بھی‘ اور اس طرح چار دن گزر گئے۔ وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی کے وفد میں شامل حکومت پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر جو اُنکے انتہائی قریب بھی تھے‘ وہ اس واقعہ کے راوی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں سعودی عرب میں قیام کے چوتھے روز ایک سعودی جو شاہی خاندان کے افراد میں شامل تھا‘ اُس نے مجھ سے استفسار کیا کہ ’’ہزہائی نیس (وزیراعظم پاکستان) کسی پریشانی میں ہیں؟ تو میں نے کہا ’’قطعاً نہیں‘‘۔ اُس نے بتایا کہ گزشتہ شب میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ’’آپ کے وزیراعظم اور ایک باوردی شخص کے درمیان کوئی مقابلہ ہو رہا ہے‘ لیکن اس مقابلے میں باریش شخص کی جو یقیناً آپ کے وزیراعظم ہی تھے‘ اُنہیں شکست ہو گئی ہے‘‘ یہ خواب سنا کر وہ شخص چلا گیا اور میں نے بہت سوچ بچار اور ہمت کرکے سعودی کا خواب وزیراعظم جمالی صاحب کو سنا دیا۔ جمالی صاحب خواب سن کر خاموش ہو گئے اور خود کلامی کے انداز میں بولے ’’بس بات ختم ہو گئی‘‘ پھر مجھ سے کہا کہ یہ بات کسی اور سے نہیں کرنی اور پھر اگلے ہی لمحے اُنہوں نے فیصلہ کُن انداز میں وطن واپسی کا اعلان کیا۔ متعلقہ اسٹاف جو دو دن سے صبح روانگی، شام روانگی، کے احکامات سن رہا تھا اُس نے غیریقینی کیفیت سے تیاری شروع کی۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں فوری روانگی کا حکم آ گیا۔جمالی صاحب وطن واپس پہنچے۔ وزیراعظم ہائوس میں ہی قیام کیا اور اُمور مملکت بھی چلائے لیکن شاید ایک ماہ سے بھی کم عرصہ۔
جمالی صاحب ایک باوقار اور وضعدار شخصیت ہیں۔ رکھ رکھائو کا قرینہ اُنہیں اپنے آبائو اجداد سے ملا ہے۔ اُنہوں نے ہار مان لی‘ مستعفی ہونے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی‘ بس اتنا کہا کہ ’’میں جمالی خاندان کا وقار ہوں‘ مجھے بے توقیر نہ کیا جائے‘ میری تضحیک نہیں ہونی چاہئے‘‘ چنانچہ اُنکے اعزاز میں الوداعی تقاریب بھی ہوئیں‘ خراج تحسین بھی پیش کیا گیا اور اُن سے استعفیٰ لینے کے عمل کو کہا گیا کہ ’’وزیراعظم جمالی نے استعفیٰ دیدیا ہے‘‘ چونکہ نگران وزیراعظم کیلئے چوہدری شجاعت حسین کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا بلکہ آئندہ کے وزیراعظم کے نام کا انتخاب بھی۔ چوہدری شجاعت حسین جلداز جلد وزیراعظم ہائوس منتقل ہونے کے خواہشمند تھے اور زیادہ انتظار اُن کیلئے ناقابل برداشت تھا۔ اسلئے میر ظفر اللہ خان جمالی نے اپنا سامان سمیٹا اور اپنے اے ڈی سی کے ہمراہ روجھان جمالی جانے کیلئے راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔۔ جہاں نہ تو اُنہیں دیکھ کر کسی نے نعرے لگائے‘ نہ ہی کوئی الوداع کہنے والا تھا‘ بس اسٹیشن پر چند مسافر اور ریلوے کا عملہ تھا جنہوں نے اُنہیں اسٹیشن پر حیرت سے دیکھتے ہوئے بے یقینی کے انداز میں کہا کہ ’’اُنکی شکل وزیراعظم جمالی سے نہیں ملتی؟؟؟؟
حقائق گواہ ہیں کہ میر ظفر اللہ خان جمالی ہوں یا محمد خان جونیجو اسٹیبلشمنٹ نے جن سیاستدانوں کو بھی کمزور جان کر اسلئے اقتدار سونپا کہ وہ اُسے ایک احسان مانے گا اور احسان مندی کے ساتھ ہی اقتدار میں ہر اُس حکم کی تعمیل اور تکمیل آنکھیں بند کرکے کریگا جو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اُسے دیا جائیگا۔ لیکن سندھڑی کے ایک انتہائی دھیمے اور معصوم ہونے کی حد تک بے ضرر سیاستدان نے اقتدار میں آ کر فوجی جرنیلز کو چھوٹی گاڑیوں میں بٹھا دیا اور اپنے ’’باوردی محسن‘‘ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بھی کہہ دیا کہ ’’جمہوریت اور آمریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ ایسا ہی کچھ میرظفر اللہ جمالی نے بھی کیا۔ نرم خو‘ وضعدار روایات کا پاس رکھنے والے اور تعلق نبھانے والے میر ظفر اللہ خان جمالی بھی جمہوریت کی بالادستی اور عوامی حکمرانی کا بول بالا کرنے کے زُعم اور خوش فہمی میں ’’اس حد تک آگے چلے گئے‘‘ کہ اپریل 2004ء میں نیشنل سکیورٹی کونسل کا وہ مسودہ قانون جسے اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے رفقاءاور سیاسی زعماء نے تیار کیا تھا‘ اس میں تبدیلی کرا دی اور کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کر دیا اور کابینہ کے ارکان پر زور دیا کہ ’’جمہوری کابینہ کو چاہئے کہ ہم اس مسودہ قانون کو اس طرح منظور کرائیں کہ پارلیمنٹ کا وقار قائم رہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے جو ہمیں پوری کرنی ہے‘‘ پھر فروری میں نیشنل ڈیفنس کالج میں اُس وقت کے صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی دونوں نے ایک ہی دن الگ الگ سیشنز سے خطاب کیا جس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ اُس وقت کے فوجی صدر پر ہی کیا موقوف خود چوہدری شجاعت حسین اور میر ظفر اللہ خان جمالی میں اختلافات کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب وزیراعظم کی حیثیت سے اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے میر ظفر اللہ خان جمالی نے چند وفاقی سیکرٹریوں کے تبادلے اپنے طور پر ہی کر دیئے تھے اور پھر بعد میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی بعض اُن شخصیات کو بھی وزیر نہیں بنایا جن کی سفارش پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کی تھی‘ جس پر چوہدری صاحب کو قلق بھی تھا اور غصہ بھی۔۔ اسلئے ان معاملات اور حالات میں صرف فوجی حکمرانوں کو ہی قصوروار ہرگز نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ عوامی حمایت و تائید سے محروم وہ سیاستدان بھی برابر کے ذمہ دار ہوتے ہیں جو محض اقتدار میں حصہ لینے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیاں بنتے ہیں۔ بہرحال میرظفر اللہ خان جمالی کو یہ کریڈٹ تو جائیگا کہ اُس دور میں جب مخدوم فیصل صالح حیات اور رائو سکندر اقبال جیسے وزراء کھلم کھلا جرنیل (ر) پرویز مشرف کو اعلانیہ مشورے دے رہے تھے۔۔ بلکہ مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ کسی صورت بھی فوجی وردی نہ اُتاریں، میر ظفر اللہ خان جمالی نے جو پرویز مشرف کو ہمیشہ ’’باس‘‘ کہا کرتے تھے، اُن کے وردی میں رہنے کی کبھی حمایت نہیں کی اور اپنے سیاسی رفقاء کی سازشوں کا شکار ہو کر فوجی صدر کو استعفیٰ پیش کر دیا۔
تازہ ترین