• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل ایکشن پلان:رکاوٹیں وخامیاں،دونوں زیربحث لائیں

آج پوری پاکستانی قوم اپنا 70 واں یوم آزادی منارہی ہے۔ 69 برس کی اس مدت میں اس ملک نے مسلسل چیلنجوں کا مقابلہ کرکے ان عناصر کو منہ کی کھانے پر مجبور کیا ہے جو اس کے قیام کے فوراً بعد ہی سے اس کے خاتمے کی آرزوئیں دل میں پال رہے ہیں ۔پاکستان کے وجود کے خلاف ان عناصرکی ریشہ دوانیاں آج بھی جاری ہیں۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عرصے میں ہماری اپنی غلطیاں بھی ہمارے لیے سنگین مسائل کا سبب بنی ہیں جن کا محاسبہ اور تدارک ضروری ہے ۔ لگ بھگ ڈیڑھ دہائی سے جو سب سے بڑا چیلنج پاکستانی قوم کو درپیش ہے وہ دہشت گردی کا مسئلہ ہے۔ اس کے اسباب نہایت گہرے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے معاشی و سیاسی مفادات بھی پاکستان سمیت پورے خطے میں دہشت گردی کے فروغ کا سبب ہیں اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے خواہشمند پڑوسی بھی اس میں شریک ہیں۔ دو ڈھائی سال پہلے تک دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات روز کا معمول تھے۔ بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے ملک کا کوئی حصہ محفوظ نہ تھا۔ حتیٰ کہ دو سال پہلے جون کے دوسرے ہفتے میں کراچی ائیرپورٹ پر ایک بڑی دہشت گرد کارروائی کے بعد ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے آپریشن ضرب عضب کے نام سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بڑی کارروائی شروع کی۔ اسی سال دسمبر کے وسط میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں نے انتہائی وحشیانہ اور سنگدلانہ حملہ کرکے تقریباً ڈیڑھ سو معصوم بچوں کو شہید کردیا۔اس سفاکانہ کارروائی نے قوم کے تمام طبقوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جامع اور فیصلہ کن اقدامات کے لیے یکسو کردیا۔ اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے عسکری قیادت کی مشاورت سے نیشنل ایکشن پلان کے نام سے بیس نکات پر مشتمل ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا تاکہ دہشت گردی کے ناسور کو ہمیشہ کے لیے جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں حالات میں واضح بہتری آئی ہے۔ تاہم ملک سے دہشت گردتنظیموں کا اب تک مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔کوئٹہ کے حالیہ سانحہ نے جس میں وکلاء کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی، پورے ملک میں نیشنل ایکشن پلان پر مزید توجہ اور تیزرفتاری سے عملدرآمد کی ضرورت کے احساس کو بڑھادیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی کوئٹہ دہشت گردی کے بعد یہ معاملہ اٹھا ۔فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی بھی زیر بحث آئی۔ وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں پر مشتمل ٹاسک فورس بنانے کا بھی فیصلہ ہوا، جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ روز جی ایچ کیو میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سست روی ، آپریشن ضرب عضب کے نتائج پر اثر انداز ہورہی ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق انہوں نے واضح کیا کہ ایکشن پلان پر پوری طرح عمل نہ ہوا تو دہشت گردی پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔انہوں نے مزید کہاکہ نامناسب بیانات اور تجزیے قومی مقاصد کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ آرمی چیف نے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں کے باہمی تعاون پر زور دیا ۔ پاک فوج ، انٹلیجنس ایجنسیوں اور عوام کی کوششوں اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جلد ہی حتمی کامیابی حاصل کرکے رہے گی۔ آرمی چیف کا یہ اظہار خیال یقینا نہایت اہم ہے۔نیشنل ایکشن پلان پر تیزرفتار اور مکمل عمل درآمد دہشت گردی سے مکمل نجات کے لیے ناگزیر ہے تاہم نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب پر عملدرآمد میں سیاسی اور عسکری قیادت اور خفیہ ایجنسیوں سب کے کردار کی نگرانی کا معتبر بندوبست بھی ضروری ہے۔ سوالات اور اعتراضات کا اطمینان بخش جواب بھی متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔احتساب اور توازن کے اس اہتمام کے بغیر کوئی منصوبہ بھی درست طور پر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
تازہ ترین