• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا گزشتہ ہفتے کوئٹہ میںہونے والی دہشت گردی کی کارروائی کے پاکستانی ریاست اور معاشرے پرگہرے اثرات مرتب ہوں گے؟ 2014میں آرمی پبلک اسکول پشاور پرہونے والے حملے نے آخر کار ہمیں خواب ِ غفلت سے جگاتے ہوئے باور کرا ہی دیا کہ طالبان ہماری سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ چنانچہ اچھے اور برے طالبان کے درمیان فرق کی پالیسی ترک کردی گئی۔ عمران خان نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرلی ۔ اس سے پہلے وہ طالبان کو ’’بھٹکے ہوئے مسلمان ‘‘ کہا کرتے تھے ۔ اس کے بعد سول اور ملٹری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان بناتے ہوئے عہد کیا کہ اب کسی بھی اگر مگر کے بغیر دہشت گردی کا ہر حال میں خاتمہ کیا جائے گا۔ اسی طرح کوئٹہ حملے نے بھی پاکستانی عوام، جس میں خاکی بھی ہیں اور مفتی بھی، امیر بھی غریب بھی، کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کردیا کہ کیادہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے نیشنل ایکشن، اگر اس پر بھرپور طریقے سے عمل کیا جائے، پلان کافی ہے ؟
آرمی چیف ، جنرل راحیل شریف نے اُن طاقتوں کی طرف اشارہ کیا جو پاک چین معاشی راہداری کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ تاہم بلوچستان میں حملے تو اُس وقت سے جاری ہیں جب سی پیک کا منصوبہ پاکستان پلاننگ کمیشن کی دراز میں کہیں پڑا ہوا تھا۔ چنانچہ یہ وضاحت تسلی بخش نہیں ہے ۔ وزیر ِ داخلہ، چوہدری نثار علی خان نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں، را اور این ڈی ایس، کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ، لیکن اُنھوں نے اس بات کی وضاحت کرنے کی زحمت نہیں کی کہ بھارتی اور افغان ایجنسیاںکس طرح اُس حملے کی منصوبہ بند ی کرنے اور دھماکہ کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ آئی ایس پی آر کا بیان اور بھی مبہم ہے ۔ اس میں دعویٰ کیا گیا کہ دہشت گردوں نے کراچی اور فاٹا سے توجہ ہٹا کر بلوچستان کی طرف مبذول کرلی ہے کیونکہ فوج نے اُنہیں وہاں سے مار بھگایا ہے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیںکہ طالبان اور ایم کیو ایم ، جن پر دہشت گردی پھیلانے کا الزام تھا، کس طرح سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی کے قابل ہوئے ، حالانکہ یہ مسئلہ اُن کے سیاسی بیانیے کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا ہے ۔
نہیں، یہ معاملہ اتنا سیدھا سادا نہیں، جیسا کہ چیئرمین سینیٹ، رضا ربانی صاحب نے کوئٹہ حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔’’ ہمیں ملک پر حکومت کرنے والی سول ملٹری بیوروکریٹک اسٹیٹ کے بارے میں بنیادی سوالوں کا جواب چاہئے۔ ‘‘ مسٹر ربانی کس سوال کا جواب چاہتے ہیں؟وہ کھل کر بات کیوں نہیں کرتے،اتنے ابہام سے کام نہیں چلے گا۔ پاکستان کی نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ افغانستان اور انڈیا کے ساتھ تنائواور پراکسی جنگوں اور ان کے رد ِعمل میں ہونے والی دہشت گردی کے تصورات سے باہر نہیں نکلی۔ اگرا یسا ہے تو پھر کوئی بھی نیشنل ایکشن پلان کام نہیں دے سکتا کیونکہ دہشت گردی کی سازش پاکستان کی ریاست سے باہر تیار کی جارہی ہے ، اور اس پر عمل کرنے والے غیر ریاستی عناصر ہیں۔
پاکستانی نیشنل سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے پہلے 1948 اور پھر 1965میں انڈیا کے ساتھ جنگ کرکے تقسیم ِ ہند کے نامکمل باب کو رقم کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر طے کرنے کی کوشش کی ۔ اس کوشش کے کامیاب نہ ہونے پر اس نے ملک میں جہادی عناصر تشکیل دئیے اورماضی میں اُنہیں بھارت کے خلاف آزمایا۔ ہم انڈیا کا بال بھی بیکا نہ کرسکے ۔ تاہم اب اس کا جواب دینے کی بھارت کی باری ہے ۔ اب وہ ناراض مہاجر اور بلوچ عناصر کے ذریعے ہمارے ساتھ حساب برابر کررہا ہے ۔ ماضی کی پاکستانی نیشنل سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے انڈیا کے خلاف افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے کی بھی کوشش کی ۔ اس نے 1980 کی دہائی میں سی آئی اے کے تعاون سے سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کے لشکر تیار کئے۔ تاہم سوویت یونین کے انخلا کے بعد وہ جہادی باہم خانہ جنگی میں الجھ گئے ۔ اس کے بعد پاکستانی نیشنل سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے پشتون طالبان کو آگے بڑھایا جنھوں نے 1997 میںکابل پر حکومت قائم کرلی ، لیکن ایک مذہبی حکومت قائم کرتے ہوئے تاجک، ازبک، پختون اور ہزارہ قبائل کے درمیان تاریخی توازن کو نظر انداز کردیا گیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کی حکومت ختم ہوگئی ۔ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے افغان طالبان کو فاٹا اور بلوچستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پالیسی نے پاکستان کے افغانستان اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بگاڑ دئیے کیونکہ افغان طالبان اپنی پناہ گاہوں سے نکل کر کابل حکومت اور نیٹو فورسز پر حملہ کرتے تھے ۔ اس کے رد ِعمل کے طور پر امریکہ نے افغان فورسز کو بھی اجازت دے دی کہ وہ پاکستانی طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو پناہ دے کر پاکستان سے حساب برابر کرلے ۔ جسطرح امریکی فورسز افغانستان میں جنگ نہیں جیت پائیں، اسی طرح ہمیں ضرب عضب میں نمایاں کامیابی نظر نہیں آتی۔
چنانچہ مسٹر ربانی کو جو بنیادی سوالات پوچھنے ہیں ، وہ یہ ہیں، (1) پاکستان کی انڈیا ، افغانستان اور امریکہ کے ساتھ کیا کشمکش ہے ؟ (2)ان پالیسیوں کے نتائج پاکستان کو کس حد تک نقصان پہنچا رہے ہیں؟(3)یہ تباہ کن پالیسیاں بنانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟ ایک بات طے ہے کہ جب تک پاکستان داخلی طور پر شدت پسند نیٹ ورک کا خاتمہ نہیں کرتا، اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری نہیں آئے گی۔ انڈیا اس بات کی یقین دہانی چاہے گا کہ دوبارہ ممبئی اور پٹھان کوٹ جیسے واقعات پیش نہ آئیں۔ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات بھی بہتر نہیں ہوں گے جب تک افغان طالبان کو شکست نہیں ہوجاتی، اور وہ کابل کے ساتھ پرامن طریقے سے بات کرنے پر راضی نہیںہوجاتے ۔ اور یہ بات سمجھنے کے لئے بہت بڑا دانشور ہونے کی ضرورت نہیں کہ جب تک پاکستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کے ساتھ نہیں رہے گا، اسے داخلی طور پر امن نصیب نہیں ہوگا۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ فیصلے کون کرتا ہے، سیاسی قیادت یا اسٹیبلشمنٹ؟
تازہ ترین