قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم اردو زبان کے ساتھ غیروں والا اور امتیازی سلوک کر رہے ہیں۔ دنیا کی ہر قوم اور حکومت اپنی قومی زبان کی ترویج، فروغ اور ترقی کے لئے کام کرتی ہے بلکہ دوسری زبانوں کے علوم و فنون کا بھی اپنی قومی زبان میں ترجمہ کرکے کتابیں مرتب کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ایک ہم ہیں جو اردو بولنے والے اور پڑھنے والے کو کم علم، کم تر اور کم درجہ دیتے ہیں۔ ہمارے وہ حکمران جنہیں انگریزی نہیں آتی، پتہ نہیں انہوں نے اس انگریزی کو سیکھنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں، کچھ نے غیر ملکی جلاوطنی میں انگریزی سیکھی تو کچھ نے قید تنہائی میں انگریزی سیکھی۔پاکستان کے آئین کی شق نمبر یعنی دفعہ 251 میں درج ہے۔ ’’(1)پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اسے سرکاری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے (آئین کے) اجراء کے پندرہ برس کے اندر اندر نافذ کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔ (2) شق 1 کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی کو سرکاری مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے تاآنکہ اس کو اردو کے ذریعے بدل دینے کے انتظامات کئے جائیں۔ (3) قومی زبان سے کوئی تعصب اختیار کئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی قانون سازی کے ذریعے قومی زبان کے ساتھ ساتھ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، فروغ اور استعمال کے لئے اقدامات تجویز کر سکتی ہے‘‘۔
کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ 1947ء سے 1973ء تک یعنی 26 برس تک ہماری تمام حکومتیں اور سیاستدان یہی سمجھتے رہے کہ اردو ایک غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ زبان ہے۔ اسے ترقی اور فروغ دینے کے لئے مزید پندرہ برس چاہئیں۔ یعنی 41 برس کے بعد ہم اس کو مکمل طور پر رائج کرسکیں۔ آئین کی رو سے دیکھیں تو 1988ء میں اس زبان کو یعنی اردو کو مکمل طور پر نافذ کر دینا چاہئے تھا۔ محترم ضیاءالحق تو خود اردو کے بڑے حامی تھے۔ ان کے دور میں کئی سرکاری سکولز انگلش میڈیم سے اردو میڈیم ہوگئے۔ آج 2014ء آگیا ہے، پاکستان کے قیام کو 67 برس ہو چکے ہیں ہم آج تک پاکستان کی قومی زبان کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکے۔ حالانکہ 1940 میں قائد اعظم نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی پھر پتہ نہیں ہم نے آج تک اس واضح اعلان پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا۔ شکر ہے کہ ماروی میمن کا بل قومی اسمبلی میں پاس نہیں ہوا ورنہ پاکستان میں 9 علاقائی زبانیں قومی زبانیں بن جاتیں اور پھر پتہ نہیں کیا ہوتا۔ 1948 میں قائد اعظم نے ڈھاکہ میں فرمایا تھا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ اردو کے ساتھ دفتری استعمال کے لئے بنگالی زبان میں بھی خط و کتابت کرسکتے ہیں۔ ضیاءالحق کے دور میں اخبارات میں ایک خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ آئندہ سی ایس ایس کے امتحانات اردو میں ہوں گے مگر بعد میں نادیدہ قوتوں نے یہ فیصلہ یا اعلان واپس کروا دیا۔ اب تک کے مقابلے کے امتحانات انگریزی میں ہو رہے ہیں۔ سائنسی مضامین کی تعلیم انگریزی میں دی جا رہی ہے۔ سرکار خود انگلش میڈیم اسکولوں کے قیام پر زور دے رہی ہے اور جو سرکاری سکولز پہلے سے قائم ہیں انہیں انگلش میڈیم بنایا جا رہا ہے۔ این ٹی ایس ٹیسٹاورGATکا ٹیسٹ بھی انگریزی زبان میں ہو رہا ہے۔
آپ نے اردو میں ایم فل کرنا یا پولیٹیکل سائنس، پنجابی یا فارسی میں تو اس کے لئےجو بھی ٹیسٹ ہوتا ہے وہ بھی انگریزی میں ہوتا ہے۔ اپنے نظام تعلیم اور نصاب کے لئے باہر سے گورے بلائے جاتے ہیں۔ ارے عقل کے اندھو! کیا کبھی جاپان، چین، کوریا، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، ترکی وغیرہ نے اپنا سلیبس مرتب کرنے کے لئے امریکیوں اور انگریزوں کو بلایا ہے؟ ہماری اپنی قومی ضروریات، ہمارے اپنے مسائل اور تقاضے ہیں، ہمیں اپنا نصاب، اپنے قومی تقاضوں اور ضروریات کو پیش نظر رکھ کر مرتب کرنا چاہئے۔ اس ملک میں میڈیکل ایجوکیشن کے جو بانی اساتذہ رہے ہیں، جنہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) سے تعلیم حاصل کرکے ملک کے دیگر علاقوں میں میڈیکل کالجز قائم کئے ان کی اکثریت اردو میڈیم اسکولوں اور خصوصاً لاہور کے گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال کی تعلیم یافتہ تھی۔ یہ بات ہم کسی مفروضے پر نہیں بلکہ حقیقت میں بیان کر رہے ہیں۔ 1950ء میں اس اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے آج بھی کئی بڑے نامور ڈاکٹرز ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں لمبی عمر اور صحت عطا فرمائے۔ ان لوگوں نے اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرکے بلکہ ٹاٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرکے ایک مقام اور نام پیدا کیا۔ آپ 67 برسوں کا تعلیمی ریکارڈ ملاحظہ فرمائیں۔ بورڈز کے امتحانات میں صرف اور صرف اردو میڈیم سرکاری اسکولوں کے بچوں نے پوزیشنیں حاصل کی ہیں۔ کسی ایچیسن کالج اور انگلش میڈیم اسکول کے بچے کی پوزیشن شاید ہی نظر آئے۔ البتہ پچھلے چند برسوں سے صرف ایک ہی پرائیویٹ گروپ آف کالجز کے بچے بورڈز میں کیوں پوزیشنیں لے رہے ہیں۔ اس پر بات کریں گے تو وہ برا مان جائیں گے۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
شکر ہے کہ ماروی میمن کا پیش کردہ بل قومی اسمبلی میں پاس نہ ہوا۔ ورنہ تو اس ملک میں زبانوں کے بعد فرقوں کا بھی ایک طوفان اٹھ جانا تھا۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں کا فروغ ضروری ہے۔ مگر آپ کسی علاقائی زبان کو قومی زبان کے برابر کس طرح درجہ دے سکتے ہیں؟ اردو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ کم از کم ابلاغ تو کر ہی لیتی ہے۔ پھر اردو کے ساتھ یہ دشمنی کیوں؟ پنجابی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہزاروی، ہندکو، سندھی، پوٹھوہاری، کشمیری، براہوی، مکرانی اور دیگر علاقائی زبانیں صرف اپنے علاقوں تک بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک پنجابی کو پشتو اور سندھی سیکھنے میں بہت وقت درکار ہوگا جبکہ اردو زبان ہر کوئی جلد سیکھ اور بول سکتا ہے۔ ویسے بھی یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ 1980-81ء میں احمد جمیل مرزا، مطلوب الحسن سید (سیکرٹری قائداعظم) اور میر خلیل الرحمن (بانی جنگ گروپ) کی کوششوں سے دنیا کا پہلا اردو زبان کا نوری نستعلیق سافٹ ویئر تیار ہوا اور یہ اعزاز روزنامہ جنگ کو حاصل ہوا وہ یکم اکتوبر 1981ء کواسی نوری نستعلیق سافٹ ویئر پر شائع ہوا۔ اس طرح یہ دنیا کا پہلا اردو اخبار بن گیا جو نوری نستعلیق سافٹ ویئر پر تیار کیا گیا۔ جسے بعد ازاں پوری اخباری صنعت نے اپنایا۔ آج پوری دنیا میں اسی نوری نستعلیق سافٹ ویئرپر کتابیں، جرائد اور رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آئین کا تقاضا ہے کہ قومی زبان اردو کا استعمال روزمرہ زندگی میں کیا جائے ۔ اگر ہم آئین پر عمل نہیں کریں گے تو کس پر کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طبقاتی درجہ بندی کے خاتمہ کے لئے قومی زبان میں بات چیت ضروری ہے‘‘۔ ایک طرف ہمارے معزز جسٹس جواد ایس خواجہ کا یہ بیان ہے اور دوسری جانب ہماری حکومت کی طرف سے اردو کے ساتھ امتیازی سلوک اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ایک طرف ممتاز ازبک دانشور اور اردو زبان کے شاعر پروفیسر تش مرزا ہیں جنہوں نے روسی اردو لغت اور ازبک اردو لغت مرتب کر دی ہے۔ جس پر انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا ہے۔
پہلی روسی اردو لغت 1954-55ء میں اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ عرب دنیا سے اردو کا پہلا اخبار بھی پچھلے 27 برس سے جاری ہے۔ جاپان کی یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جا رہی ہے مگر ہمارے ہاں بعض لوگوں کو اردو زبان سے پتہ نہیں چڑ کیوں ہے؟ یقین کریں اردو زبان قومی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کا باعث بنے گی۔ اس سے ہماری شرح خواندگی بڑھے گی، زیادہ سے زیادہ لوگ امتحانات میں پاس ہوں گے۔ ہنر مند افراد پیدا ہونگے، روزگار بڑھے۔ ہمارے ہاں جس طرح انگریزی کے فروغ اور ترقی کے لئے کام ہوا ہے اگر اردو کے فروغ اور ترقی کے لئے اس طرح سنجیدگی سے کوششیں کی جاتیں تو اس ہر سطح پر لوگوں کے مسائل بھی حل ہو جاتے۔ ہمارے ہاں دفاتر میں انگریزی میں جو نوٹ لکھے جاتے ہیں اس کو عام لوگ بالکل نہیں پڑھ پاتے۔ عدالتی نظام اردو میں ہونا چاہئے تاکہ وہ غریب مجبور لوگ جو اپنے کیسوں کے لئے اپنا گھر بار فروخت کرکے وکیل کرتے ہیں اس سے بچ سکیں گے کیونکہ وہ خود بھی اردو میں بات چیت کرکے اپنا کیس لڑ سکتے ہیں۔آج سے کئی برس قبل پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں بیس برس تک لاء کی تعلیمی اردو زبان میں دی جاتی رہی بعد میں کسی حضرت نے یہ ختم کردی اس آئینی خلاف ورزی کو فوری ختم کیا جائے اور اردو کے نفاذ کے آئین پر عملدرآمد کرایا جائے۔