• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر اور پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما سیدہ شہلا رضا نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 15سال تک مارشل لاء نہ لگانے کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس حوالے سے قومی مفاہمتی آرڈی ننس (این آر او) میں ایک غیر تحریر شدہ شق شامل تھی۔ امریکی حکومت، برطانوی حکومت، متحدہ عرب امارات اور پاکستانی فوج کی طرف سے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ نے اس غیر تحریر شدہ شق کی ضمانت دی تھی۔ سیدہ شہلا رضا کے بقول سابق صدر آصف علی زرداری وعدے یاد دلانے کے لئے امریکہ گئے تھے۔ اس وقت یہ ضروری ہے کہ امریکیوں کو جا کر یاد دلایا جائے کہ وہ ضامن تھے اور ہمارے ملک میں وہ لوگوں کو اس طرح استعمال نہیں کرسکتے کہ جمہوری عمل پٹری سے اتر جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے باقاعدہ طور پر اپنی خاتون رہنما کے اس بیان کی تردید کردی ہے لیکن اس تردید کے باوجود نہ صرف یہ بیان قرین از قیاس لگتا ہے بلکہ اس سے سچ کا گمان ہوتا ہے۔
سیدہ شہلا رضا نے یہ انکشاف اس وقت کیا ہے جب شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ بھی جاری ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے موجودہ ’’نظام‘‘ کے خاتمے کے لئے اپنی حکمت عملی کے فیصلہ کن مرحلے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ حالانکہ 15 سال ختم ہونے میں ساڑھے 8 سال باقی ہیں۔ واضح رہے کہ 15 سال کا عرصہ 2008ء سے شروع ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ ’’این آر او‘‘ جاری ہوا تھا اور یہ ایک معاہدہ تھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس معاہدے کی کئی غیر تحریر شدہ شقیں بھی تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’مفاہمت‘‘ میں اس کے اشارے بھی دیئے تھے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 239 پر تحریر ہے کہ ’’میں جمہوریت کی بحالی اور پاکستان کو اپنی محفوظ واپسی کے لئے بین الاقوامی طور پر ویسے ہی لابنگ کررہی تھی جیسے میری جماعت پاکستان میں ان ایشوز پر کام کررہی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوا تھا جنرل مشرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک کلیدی اتحادی کی حیثیت رکھتے ہیں اور 2002ء کے انتخابات کے مطابق پاکستان کی سب سے مقبول جماعت پیپلز پارٹی ہے لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے معاندت رکھتے ہیں تو جمہوریت کی طرف ایک ہموار سفر کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر پاکستان میں دنیا کو انتہا پسند قوتوں کی پیدا کردہ غیر معمولی صورت حال سے فائدہ اٹھانے والی آمریت کا چکر توڑنا تھا تو مصالحت ناگزیر معلوم ہوتی تھی‘‘۔ آگے چل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کہتی ہیں کہ ’’پرویز مشرف کے ساتھ مذاکرات کے تمام تر عمل سے میں نے واشنگٹن، لندن اور پی پی کے رہنمائوں کو باخبر رکھا۔ جنرل مشرف کے سب سے بڑے عالمی حمایتی اور پاکستان کو امداد دینے والے کلیدی ممالک کی حیثیت سے لندن اور واشنگٹن کی طرف سے جمہوریت کی حمایت بنیادی اہمیت رکھتی تھی۔‘‘ محترمہ بینظیر بھٹو نے کتاب میں اس مفاہمت کے حوالے سے کئی واقعات کا کتاب میں ذکر کیا ہے اور بالآخر 16 نومبر 2007ء کو اس وقت کے امریکی نائب وزیر خارجہ جان نیگرو پونٹے کے دورہ پاکستان کے بعد سارے معاملات طے ہوگئے۔ جنرل مشرف نے ایمرجنسی ختم کرنے، فوجی وردی اتارنے اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے کچھ باتوں پر رضا مندی بھی ظاہر کردی۔ جنرل مشرف نے 16دسمبر 2007ء کو ایمرجنسی ختم کرنے کا بھی اعلان کردیا اور فوجی وردی بھی اتاردی۔ یہ ساری باتیں بھی این آر او میں شامل نہیں تھیں۔ صاف ظاہر ہے یہ بھی غیر تحریر شدہ شقیں تھیں۔ جنرل مشرف نے یہ اقدامات عوامی دبائو پر نہیں کئے تھے بلکہ یہ کسی معاہدے کا نتیجہ تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام فریقین اس معاہدے کی پاسداری کریں گے یا نہیں؟ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ ضمانت دینے والے اپنی بات پر قائم رہیں گے۔ معاہدے کی کئی غیر تحریر شدہ شقوں کی خلاف ورزی ہوچکی ہے۔ 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل معاہدہ شکنی کا سب سے زیادہ بھیانک اور ضامنوں پر ہمیشہ کے لئے اعتماد ختم کردینے والا اقدام تھا۔
پاکستان میں اس وقت جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ مذکورہ ضامنوں کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو اس بات کا شدت سے ادراک تھا۔ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کی سیاست، معیشت، انتہا پسندانہ سرگرمیاں، نام نہاد سیاسی تحریکیں اور بظاہر اچانک رونما ہونے والے واقعات ان قوتوں کے کنٹرول میں آچکے ہیں ، جو نیو ورلڈ آرڈر کے تحت ایک ’’گلوبل امپائر‘‘ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر محترمہ بینظیر بھٹو نے ایسے حالات میں ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں جمہوریت کے لئے وقفہ حاصل کیا ہے، تو یہ عہد نو میں ان کی ایک عظیم کامیابی ہے کیونکہ پوری دنیا میں مزاحمت ختم ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تھا ہی نہیں، لیکن بری خبر یہ ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوچکی ہیں اور آئندہ بھی ہوسکتی ہیں۔ آج کی نئی دنیا کو سمجھنے والے خطرات محسوس کررہے ہیں جبکہ ہمارے اکثر لوگ حالات کو اس طرح سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، جس طرح وہ حقیقت میں ہیں اور جس طرح محترمہ بینظیر بھٹو نے ادراک کیا تھا۔ ہمیں تو 50، 60 سال کے بعد حقائق کا اس وقت پتہ چلتا ہے ، جب امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں کی خفیہ دستاویزات سرکاری طور پر افشا کی جاتی ہیں، جیسے ایرانیوں کو 60 سال بعد 19 اگست 2013ء کو شائع ہونے والی سی آئی اے کی دستاویزات سے پتہ چلا کہ 1953ء میں وزیراعظم مصدق کی حکومت کا تختہ سی آئی اے نے الٹا تھا۔ ’’وکی لیکس‘‘ نامی ویب سائٹ نے بھی امریکی خفیہ دستاویزات کو منکشف کیا ہے۔ اسی طرح امریکن سی آئی اے اور نیشنل سیکورٹی ایجنسی (این ایس اے) میں کام کرنے والے نوجوان ’’ایڈورڈ سنوڈن‘‘ نے بھی ’’گلوبل سرویلنس پروگرام‘‘ کے حوالے سے بعض اہم دستاویزات ظاہر کی ہیں۔ ان دستاویزات کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کے تناظر میں کوئی شخص پاکستان اور دنیا بھر کی سیاست کو نہیں سمجھ سکتا ہے تو دانشورانہ بددیانتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ روئے زمین پر ہر شخص کی حرکات وسکنات پر نظر رکھی جارہی ہے اور دنیا کے تمام معاملات کو چلانے کے لئے ایک میکنزم تیار کرلیا گیا ہے۔ ایک امریکی دانشور ڈاکٹر کیون بیرٹ(Dr. Kevin Barrett)کا کہنا ہے کہ گلوبل سرویلنس اسٹیٹ کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ایسی صلاحیت حاصل کرلی جائے کہ دنیا کے ہر شخص کو اس کے بارے میں معلومات کے حوالے سے بلیک میل کیا جاسکے اور اسے اپنے خلاف ہونے سے روکا جاسکے۔ ہر ایک کی نگرانی کی بنیاد پر جب عالمی آمریت قائم ہوگی تو اعلان کردیا جائے گا کہ ’’اب مزاحمت بے کار ہے‘‘۔ ان دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ پوری دنیا کو انتہائی دولت مند افراد کا مخصوص گروہ کنٹرول کررہا ہے، جسے ’’روشن ضمیر‘‘ یا ’’اشراقیہ‘‘یا ’’ILLUMINATI‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے پاس میڈیا کمپنیز، بڑی کارپوریشنز، آئل کمپنیز اور فنانشل انڈسٹریز کے ساتھ ساتھ اپنے سیاست دان بھی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اگر پاکستان کی سیاست میں نئے لوگوں کی آمد پر حیرت ہے تو وہ ان دستاویزات کو پڑھ لیں۔ اگر انہیں یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ بڑے بڑے جلسوں کے لئے پیسہ کہاں سے آرہا ہے تو وہ مطالعہ کی زحمت کریں۔ یہ بات واضح ہوجائے گی کہ معاہدے کے باوجود پاکستان میں فوجی مداخلت کے خطرات موجود ہیں۔ اب یہ سیاسی رہنمائوں کی اپنی صلاحیت پر ہے کہ وہ ضامنوں کو معاہدے کی پاسداری کراسکتے ہیں یا نہیں۔
تازہ ترین