• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دن بھی اُداس اور میری رات بھی اُداس
ایسا تو وقت اے غم دوراں نہ تھا کبھی
بے کیف و بے نشاط نہ تھی اسقدر حیات
جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی
(ناصر کاظمی)
عید کے دوسرے روز سمندر میں نہاتے ہوئے 15سے تیس سال کی عمر کے 38لوگوں کے ڈوبنے کی خبروں نے پورے شہر کو اُداس کر دیا اور عید کے ماحول کو غم میں بدل دیا۔ ابھی تک 28نعشیں برآمد ہوچکی ہیں جبکہ تقریباً 10سے 12افراد کی اب بھی تلاش ہے۔ اس افسوسناک سانحہ کے بعد تیسرے دن سی ویو کا علاقہ بلاک کر دیا گیا اور پبلک کی آمدورفت روک دی گئی۔ میڈیا میں انتظامیہ پر غفلت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ ہمیں بطور ذی شعور قوم سوچنا چاہئے کہ انتظامیہ کی غفلت بجا مگر ڈوبنے والوں کی اپنی لاپرواہی کس قدر تھی کہ وہ اپنے قد سے بڑی موجوں سے مون سون کے موسم میں کھیل رہے تھے۔ سب لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر گہرے سمندر کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ آگے جانے والا تیراک ہے یا سوئمنگ جانتا ہے اور ہم تو ایک غوطہ بھی نہیں کھاسکتے۔ بچپن میں سنا تھا کہ آگ اور پانی کا کھیل خطرناک ہے آگ بھی دیکھتے ہی دیکھتے بھڑک کر پھیل جاتی ہے اور ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اسی طرح پانی سمندر کا ہو یا چھوٹے ندی نالے کا۔ وہ ڈبو نے کی طاقت رکھتا ہے اور کسی بھی وقت اپنی اس طاقت کو استعمال کرکے کوئی بھی سانحہ برپا کر سکتا ہے۔ عید کے روز کا یہ افسوسناک واقعہ برسوں یاد رہے گا مگر اس سے سبق سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے نوعمر بچوں کو اخبارات سے یہ واقعہ پڑھ کر بار بار بتائیں تاکہ اُن کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہو اور نہ صرف وہ خود محفوظ رہیں بلکہ اپنے دوستوں کو بھی محفوظ رکھنے کی تلقین کریں۔ سی ویو بند کر دینا اور عوام کو چھٹی والے دن پکنک سے روکنا کوئی اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تیسرے روز راستہ بند کرکے انتظامیہ نے لاکھوں لوگوں کو پکنک سے محروم کر دیا اور بیشمار ٹھیلے والے اور دکانداروں کو بے روزگار کر دیا۔ یہ اس سانحہ کے بعد دوسرا سانحہ ہے۔ میڈیا اور سوشل اداروں کا فرض ہے کہ ایسے موقعوں پر اس طرح کے معلوماتی پروگرام نشر کریں اور پرنٹ کریں جس سے عوام میں آگاہی ہو۔ این جی اوز کو چاہئے کہ ایسے موقعوں پر اپنے اسٹال لگا کر لوگوں میں شعور اور آگہی پیدا کریں کہ وہ ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔ بہرحال یہ تو باتیں ہی ہیں جو بعد میں کی جاتی ہیں۔ جو ہوا بہت بُرا ہوا۔ کتنے گھروں کے چراغ عید کے دن گُل ہوگئے۔ میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ اُن کے رمضان کے روزے اور نمازیں قبول کرے اور اُن کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ یہ سب کچھ کہنا بہت آسان ہے مگر جس پر بیتی ہے وہی جانتا ہے کہ صبر کیسے آتا ہے ناصر کاظمی
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی
غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی اسرائیل نے آخری گھنٹے میں فائرنگ کرکے 8معصوم لوگوں کو شہید کر دیا اور اس طرح شہید ہونے والوں کی تعداد اخباری اطلاعات کے مطابق 1450سے تجاوز کر گئی۔ اب دیکھئے مہذب دنیا کا کیا حال ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کے موضوع پر سیمینار کرکے لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور اُنہیں یہاں خون نظر نہیں آتا۔ یہ دہرا معیار ہے۔ مسلمانوں کے لئے الگ اور باقی دنیا کے لئے الگ۔ مگر ہماری مسلمان حکومتیں بھی تو انکے بوجھ تلے ایسی دبی ہوئی ہیں کہ کُھل کر مذمت بھی تو نہیں کرسکتیں۔ ایسی کیا مجبوری ہے؟ خود امریکہ کے اندر امریکی عوام فلسطینیوں کے حق میں ظلم کے خلاف جلوس نکال رہے ہیں۔ وہ تو نہیں ڈرتے مگر ہماری اسلامی حکومتیں نہ جانے کس سے ڈرتی ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ پاکستان کے عوام اور حکومت نے اور پاکستانی میڈیا نے اس سلسلے میں اچھا رول ادا کیا ہے۔ ظلم اور بربریت کے خلاف آواز بلند کی ہے خاص طور پر تعلیم یافتہ لوگوں نے انٹرنیٹ اور ٹوئٹر پر اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا ہے اور رائے عامہ کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیارکیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے اور اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہاں منیر نیازی کا ایک شعر قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
ہمارے ملک کی سیاست میں 14اگست کو ہونے والا لانگ مارچ اور انقلاب میں اگست کے اتے ہی گرمائش پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے عمران خان کے ٹی وی پر حالیہ انٹرویو اور گفتگو یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ کچھ کرکے ہی دم لیں گے۔ خاص طور پر گزشتہ روز انہوں نے بیان دیا کہ شہباز شریف پیغام بھیج رہے ہیں مگر عمران خان اپنی بات پر قائم ہیں۔ میرے علم میں یہ بات آئی تھی کہ لاہور میں جناب شہباز شریف نے عمران خان کے کسی قریبی دوست سے طویل ملاقات کرکے یہ پیغام دیا کہ اس طرح جمہوریت ڈی ریل ہوجائیگی اور ملک کو نقصان ہوگا۔ بہرحال عمران خان نے میڈیا کے ذریعے یہ جواب دیا ہے کہ جمہوریت تو گیارہ مئی کو ڈی ریل ہوگئی تھی اور اب اُسے پٹری پر چڑھانا ہے ایک انگریزی اخبار کے کالم نویس سیریل المیڈا نے اپنے کالم میں عمران خان کے لاہور سے اسلام آباد والے لانگ مارچ کا موزانہ ماضی میں میاں نواز شریف کے لاہور سے اسلام آباد والے لانگ مارچ سے کیا ہے جوکہ گوجرانوالہ میں کیانی صاحب کی ٹیلیفون کال پر ختم ہوگیا تھا اور مقصد حل ہوگیا تھا آپ یقین کیجئے یہی بات میر ے ذہن میں بھی آئی تھی مگر المیڈا نے پہلے لکھ دیا۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ لانگ مارچ جو 14اگست کو لاہور سے شروع ہوگا وہ پندرہ اگست تک گجرات تک پہنچے گا اس دوران ہوسکتا ہے کہ کوئی کال آجائے اور نئے انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جائے۔ آپ کو یاد ہوگا 4جولائی 1977ء کو پی این اے کی بھٹو صاحب کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں بھی انتخابی شیڈول طے پا گیا تھا پھر 5جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے 90دن میں الیکشن کروانے کی بات کی تھی اور پھر 90دن گیارہ سال میں بدل گئے۔ اس دوران نئی سیاسی پارٹیاں معرضِ وجود میں آئیں جن میں سے ایک مسلم لیگ نواز ہے جو گزشتہ 30سالوں سے پنجاب میں اور تین مرتبہ پورے پاکستان میں حکمرانی کے فرائض دے چکی ہے۔ ماضی کی باتیں اس لئے کرتا ہوں کہ اس میں مستقبل نظر آتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگلے انتخابات سے پہلے کوئی نئی سیاسی جماعت وجود میں آجائے اور پھر وہ پی ایم ایل این کی طرح اگلے تیس سال راج کرے۔ آخر میں فیض صاحب کے حسب موقع اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
جو ہم پر گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضورِ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گِرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
تازہ ترین