• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک طرف کوئٹہ کے سول اسپتال میں دل دہلادینے والے خود کش حملے نے ہلا کے رکھ دیا ہے، 73شہادتوں پر ہر آنکھ اشک بار ہے تو دوسری طرف طوفانی بارشوں نے پورے ملک میں تباہی مچادی ہے، درجنوںافراد مرچکے ہیں، سینکڑوںبے گھر ہیں اور لاکھوں افراد کا مالی نقصان ہوچکا ہے، جبکہ مزیدطوفانی بارشوں کا خطرہ ہے۔ قارئین! وطن عزیز پچھلے کچھ عرصے سے شدید مشکلات سے دوچار ہے، ناگہانی آفات اور بیرونی سازشوں میں گھرا ہوا ہے۔ امریکی، یورپی اور بھارتی میڈیا پاکستان کو مسلسل بدنام کرنے میں مصروف ہے۔ یہ کبھی دہشت گرد ملک، کبھی کرپٹ ترین ملک اور کبھی ہمیں دنیا کا بدامن ترین ملک گرداننے لگتا ہے۔ اور ہمارے خفیہ اداروں کے تانے افغان طالبان اور دہشت گرد تنظیموں سے جوڑنے لگتا ہے۔ یہ ہمارے خلاف بیرونی سازشیں ہیں جبکہ ہم کبھی خود کش حملوں کا شکار ہوجاتے ہیں، کبھی ہم آٹے، چینی اور گھی کے بحران میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کبھی بسوںکے حادثوں، کبھی بجلی بحران، کبھی گیس کی کمی، کبھی جعلی ڈگریوں، کبھی مسافر طیاروں کے حادثوں اور کبھی دھرنوں کا شکار ہونے لگتے ہیں، جبکہ آج کل ہم بارش کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں۔ مون سون کی بارشیں اس ملک پر قدرتی آفات کا روپ دھار کر برس رہی ہیں جس سے زندگی کے چراغ گل ہورہے ہیں۔ ہزاروں گھر اور دکانیںبہہ گئی ہیں۔ دیہات زیر آب ہیں، فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے پڑے کسی مسیحا، کسی ہمدرد اور کسی مددگارکی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ہر خود کش دھماکے، ہر بم حملے، ہر ٹرین حادثے اور ہر تباہی کے بعد پالیسی ترتیب دیتے ہیں، ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اجلاس بلاتی ہیں، ٹیمیں تشکیل دیتی ہیں، کمیشن بنائے جاتے ہیں، متاثرین کیلئے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ آئین اور قانون میں ترامیم کی جاتی ہیں۔ دنیا سے امداد کی اپیلیں کی جاتی ہیں لیکن ہم لوگ یہ سب اس وقت کرتے ہیں جب 73افراد سول اسپتال کوئٹہ میں ناحق مارے جاتے ہیں۔ جب ڈیڑھ سو افراد مارگلہ کی پہاڑیوں پر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ جب دو، دو سو لوگ ٹرین کی بوگیوں میں بوٹی بوٹی ہوجاتے ہیں۔ جب ریلوے پھاٹک درجنوںننھے طالب علموں کا خون پی جاتے ہیں۔ جب جی ایچ کیو، میریٹ، نشتر پارک، بولٹن مارکیٹ، صفورا گوٹھ، آرمی پبلک اسکول، مون مارکیٹ ،داتا دربار،محرم کے جلوسوں، اسلامی یونیورسٹیوں اور اسکولوں اور کالجوں میں سینکڑوں افراد بارود کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ جب سیلاب ملک کے سینکڑوں لوگوں کی سانسیں کھینچ لیتا ہے۔ جب گلگت سے لے کر کراچی تک موت رقص کرنے لگتی ہے تب ہماری آنکھیں کھلتی ہیں۔ تب حکومت اور اس کے اداروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔ انہیں اس وقت ناقص پلوںاور خستہ حال پلازوںکی تعمیر، ایمرجنسی میں ریسکیو آپریشن ، ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے طریقوں اورقیمتی جانوں کے ضیاع کے بچائو کے اقدامات جیسے فرائض یاد آنے لگتے ہیں۔ جب تک ڈیزاسٹر سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اتنی دیر میں سینکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھوچکے ہوتے ہیں۔ آج جب ملک کے طول وعرض میںلاکھوں لوگوں کوبے یارومددگار دیکھتا ہوں۔ سیکڑوں خاندانوں کو اپنے پیاروں کے بچھڑنے پر تڑپتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ان ناگہانی آفات نے ہمارے وطن کو ہی گھیرے میں کیوں لیا ہوا ہے؟ تو ہمارا وجدان کہتا ہے اس لئے کہ ہم سب مفاد پرست لوگ ہیں۔ ہمیںصرف اپنا مفاد اور اپنا فائدہ عزیز ہے۔ ہمیں دوسروں کے دکھوں، دوسرے کے غموں ،دوسروں کی آہوں اور دوسروں کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں۔ اے کاش! ہم دوسروں کے دکھوں ، غموں اور مشکلات کو بھی سمجھ سکیں۔ ہم ان لوگوں کیلئے بھی کچھ کرسکیں جوبے یارو مدد گار پڑے ہیں۔ جو چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس صورتِ حال میں حکومت سے درخواست ہے خدارا! وہ 21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق اقدامات اٹھائے تاکہ ہر سال سینکڑوں لوگ بے گناہ موت سے بچ سکیں۔ یہ پہاڑوں کی کھائیوں اور سیلاب کی موجوں میں لڑھک لڑھک کر مرنے سے بچ سکیں۔ ہم سیکھنا چاہیں تو جاپان سے ہی سیکھ سکتے ہیں۔ جاپان میں 11 مارچ 2011ء کوتاریخ کا خوفناک ترین سونامی آیا۔ اس طوفان سے جاپان کا ہرشعبہ ہائے زندگی متاثر ہوا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح جاپان کا نظام تعلیم بھی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ 7000 اسکول طوفان کی نذر ہوگئے۔ تعلیمی نظام بیٹھ گیا اور لاکھوں طالب علموں کا مستقبل دائو پر لگ گیا لیکن جاپان اپنی نوجوان نسل کے مستقبل سے آگاہ ہے۔ اس نے ان کا مستقبل بچانے کیلئے تعلیمی سلسلے کو سب سے پہلے بحال کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دیں۔ جاپانی حکومت نے اس سلسلے میں انتہائی سستا اور زبردست حل تلاش کیا۔ حکومت نے مختلف علاقوں میں طوفان سے بچ جانے والے بڑے بڑے ہالز کرائے پر لئے۔ ان ہالز میں درجنوں چھوٹے چھوٹے کیبن بنائے اور ان کیبنز میں کلاسز کا آغاز کردیا۔ ہالز کے کچھ حصوں میں اسٹوڈنٹس کی رہائش گاہیں بنائیں اور اس کے بعد تعلیمی سلسلہ شروع کردیا۔ اس اقدام کا یہ نتیجہ نکلا کہ لاکھوں طالب علموں کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ گیا۔ انہوں نے وقت پر امتحان بھی دیااور انکی تعلیم پچھلے 5 سال سے جاری ہے۔ یہ جاپان کی ایک چھوٹی سی مثال ہے لیکن اس میں ہم جیسے ملکوں اور قوموں کیلئے ایک بڑا سبق ہے۔ ہمارے لئے ’’اسٹیو بیشئر‘‘ کی مثال بھی کافی ہونی چاہئے۔ اسٹیو بیشئر کینٹکی کا 2007ء سے گورنر ہے۔ کینٹکی امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست ہے۔ اپریل 2011ء میں کینٹکی سمیت امریکہ کی سات ریاستوں میں طوفان آیا۔ ہوا کے بگولوں نے ان ریاستوں میں تباہی مچادی۔ اس طوفان سے میسی سیپی کے دریا میں سیلاب آیا اور اس سیلاب سے کینٹکی میں 400 افراد ہلاک اور 3200 گھر تباہ ہوگئے۔ گورنر سٹیو بیشئر نے ریاست میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ انہوں نے 28 اپریل کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ یہ متاثرہ علاقوں میں پہنچے۔ انہوں نے متاثرین کی حالت کا مشاہدہ کیا اور ان سے ان کی حالت دیکھی نہ گئی، لہٰذا انہوں نے بیلچہ اٹھایا اور خود اپنے ہاتھوں سے کام شروع کردیا۔ یہ فوج اور عام آدمیوں کے ساتھ دن بھر بیگز میںمٹی بھرتے رہے اور سیلاب کے آگے بند باندھتے رہے۔ اسی ریاست کے ایک سینیٹر ریڈلے ہیں۔ یہ بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور یہ بھی دن بھر مٹی سے بھرے بیگ اٹھا اٹھاکر سیلاب کے آگے رکھتے رہے۔ یہ بات صرف گورنر سٹیو اور سینیٹر ریڈلے تک ہی محدود نہیں، آپ امریکی صدر باراک اوباما کی مثال بھی لے لیجئے۔ اوباما صدر بننے سے پہلے جون 2008ء میں سیلاب سے متاثرہ علاقے کے دورے پر گئے۔ انہوں نے بھی وہاں اپنے ہاتھوں سے کام کیا تھا۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جس کی وجہ سے امریکہ آج سپرپاورہے اور ہم ہر بڑے حادثے میں متاثرین کی امداد کیلئے عالمی برادری کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ دنیا کا کوئی ملک ہماری مدد کیلئے تیار نہیں۔جبکہ صورتحال یہ ہے کہ غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومتی بد انتظامی اپنی انتہاؤں کا چھو رہی ہے۔ کوئی بھی ادارہ تباہی و بربادی کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی اپنے مفاد کے خول میں بند اپنے عیش میں مست ہے۔اندریں حالات خلقِ خدازبان ِحال کہہ رہی ہے خدا کیلئے اب تو تم ہی آجاؤ!!


.
تازہ ترین