• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوری نظام میں جلسے جلوس اس کی روح کی حیثیت رکھتے ہیں اوراسے لہو گرم رکھنے کی ایک بہانہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔جنرل یحییٰ کے دو ر میں جب ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی خصوصاً مشرقی پاکستان ایک بڑے سیاسی بحران سے دو چار تھا۔ ان دنوں متحدہ پاکستان کے ایک معروف مورخ، سیاسیات کے ا ستاد ڈاکٹر غلام واجد چوہدری وفاقی وزیر ہوا کرتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے سالانہ کانوکیشن میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ملک اس وقت تاریخ کے دلچسپ دور سے گزررہا ہے۔ اس پر مضطرب ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس سے لطف اندوز ہوئیے کہ تاریخ کا سیل اپناراستہ خود بنالیتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان دو لخت ہونے کے بعد ڈاکٹر واجد آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے اور سقوط ڈھاکہ پر ایک انتہائی مستند کتاب لکھی ہے۔
پاکستان میں بہت جلوس نکالے گئے جن میں خان عبدالقیوم خان کا 1958ء میں ایک چودہ میل لمبا جلوس بڑی شہرت رکھتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن جو بعد میں بنگلہ دیش کے بانی اور ’’بنگلہ بدھو‘‘ کہلائے انہی دنوں انہوں نے ’’خونی انقلاب‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ کئی ٹرین مارچ، پیدل مارچ ہوئے ۔ماضی قریب میں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کا عدلیہ کی بحالی کیلئے اسلام آباد لانگ مارچ قابل ذکر ہے۔ ابھی یہ جلوس راستہ میں تھا کہ وزیر اعظم گیلانی نے ججوں کی بحالی کا اعلان کردیا۔ کہتے ہیں کہ اس کار خیر میں مقتدر حلقوں کا اہم کردار تھا۔ چوہدری نثار اور شہباز میاں راولپنڈی میں’’اہم ملاقاتیں‘‘ کرتے رہے، تاہم میاں نواز شریف دور کا وہ لانگ مارچ تاریخی حیثیت رکھتا ہے جس کا اعلان حزب اختلاف کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو نے کیا جس کا اہتمام پی ڈی اے میں شامل جماعتوں اور ایک آل پارٹیز کانفرنس میں کیا گیا جس کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان تھے اور اس لانگ مارچ کے تمام تر انتظامات کی ذمہ داری بھی ا ن کے ہی سپرد تھی۔ اس وقت تین صوبوں میں پی ڈی اے نامی اتحاد کی مخلوط حکومتیں تھیں۔ سندھ میں سید مظفر شاہ، سرحد میں میر افضل خان اور پنجاب میں منظور وٹو وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے جبکہ مرحوم صدر غلام اسحاق خان کے معتمد خاص چوہدری الطاف کو خاص طور پر صوبہ کا گورنر بنایا گیا تھا تاکہ شریف برادران اور ان کے ساتھیوں کو ’’نفرت و انتقام‘‘ کا نشانہ بنایا جاسکے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک میں اسمبلی، اسمبلی کا کھیل اپنے عروج پر تھا۔ پہلے پنجاب اسمبلی کو توڑا گیا جب لاہور ہائی کورٹ نے اسمبلی بحال کردی تو صرف سات منٹ بعد صدر کے حکم پر گورنر الطاف نے دوبارہ اسمبلی توڑ کر منظوروٹو کی حکمرانی کو برقرار رکھا۔ قومی اسمبلی نے پنجاب کا نظم و نسق سنبھالنے کیلئے قرار داد منظور کی تو اسکے نوٹیفکیشن کو جبراً روک دیا گیا۔ صدر غلام اسحاق خان نے نواز حکومت ختم کرکے قومی اسمبلی توڑ دی تو میاں نواز شریف نے صدارتی حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ چیف جسٹس سید نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں فل بنیچ نے جب نواز حکومت بحال کردی تو فیصلہ کو تسلیم کرنے کے بجائے ایوان صدر کو سازشوں کے گڑھ میں تبدیل کردیاگیا ۔اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے از سر نو انتخابات کا مطالبہ سامنے آیا۔ آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں کہا گیا کہ اگر وزیر اعظم نے ان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ ہوگا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا جائے گا۔ حزب اختلاف کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو نے 4 جولائی 1993ء کو وزیر اعظم کو ایک طویل مراسلہ ارسال کیا جس میں قومی حکومت قائم کرنے،عام انتخابات کرانے اور آئینی اصلاحات کرنے کا مطالبہ کیا گیاتھا اور اس حوالے سے مذاکرات کی پیش کش کی گئی جبکہ وزیر اعظم نے 8ولائی کو ملاقات کرنے کی دعوت دی۔ مگر ایسا سب کچھ اتمام حجت کے سوا کچھ نہ تھا۔8 جولائی 1993ء کو لاہور میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی صدارت میں اے پی سی کے لانگ مارچ کی حکمت عملی اور اخراجات کا تخمینہ مرتب کیا گیا یہ طے کیا گیا کہ لانگ مارچ کا دورانیہ تین یا چار دن ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور اس کی ساتھی جماعتوں کی جانب سے 16 جولائی کو لانگ مارچ کرنے کااعلان کردیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو لاہور پہنچ گئیں جہاں انہوں نے گورنر الطاف حسین،وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو سے طویل مذاکرات کئے اور لانگ مارچ کے لئے لائحہ عمل کو حتمی شکل دی گئی۔ اے پی سی کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان نے پریس کانفرنس کی کہ اسلام آباد کا تین روز تک گھیرائو کیا جائے گا۔
اس موقع پر بری فوج کے سربراہ جنرل عبدالوحید کاکٹر نے مصالحت کرانے اور حالات پر قابو پانے کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے رابطہ قائم کرکے انہیں اسلام آباد لے جانے کے لئے فوجی طیارہ بھیجا گیا اور ان سے کہا گیا کہ لانگ مارچ ملتوی کردیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے روانگی سے قبل ایسا ہی کیا۔ اس وقت صدر ،وزیر اعظم کو سمجھوتہ کرنے پر راضی کرلیا گیا اور اصولی طور پر عام انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوگیا۔ نوابزادہ صاحب اسلام آباد پہنچے اور کہا کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم پر دبائو ڈالا گیا کہ استعفیٰ دے کراسمبلی توڑ دیں۔ میاں نواز شریف نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تاہم یہ شرط عائد کی کہ صدر غلام اسحاق خان استعفیٰ دے دیں تو وہ اس کے لئے تیار ہیں اور ایسا ہی ہوا کہ 18 جولائی کو سربراہ مملکت یعنی صدر سربراہ حکومت یعنی وزیر اعظم، چاروں صوبوں کے گورنر ،وزرائے اعلیٰ کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور اس کا فیصلہ ’’ٹرائیکا‘‘ کے اجلاس میں کیا گیا ۔ایوان صدر کے دربار ہال میں نصف شب کے قریب ایک ساتھ دو حلف برداری کی تقاریب منعقد ہوئیں ،دو بڑوں نے استعفے دئیے ،صدارتی فرمان جاری ہوا ،قومی و صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئیں۔ سب سے پہلے معین قریشی نے نگران وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف لیا جو طویل سفر کرکے خصوصی پرواز سے سنگا پور سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ ان کا انتخاب’’ٹرائیکا‘‘ نے کیا تھا۔ اس کے بعد صدر اسحاق خان نے استعفیٰ کی تحریر پڑھی جو پیشگی جنرل کاکٹر کے حوالے کرچکے تھے جبکہ 78 سالہ بیوروکریٹ کے استعفیٰ سے ایک گھنٹہ قبل وزیر اعظم نواز شریف نے ریڈیو، ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ’’میں نے کرسی چھوڑ دی‘‘ کا اعلان کیا۔ سینٹ کے چیئرمین وسیم سجاد نے قائمقام صدر کا حلف لیا۔ اس طرح محترمہ بینظیر بھٹو کا لانگ مارچ اپنے منطقی نتیجہ تک جا پہنچا۔ اس کے ملک اور جمہوری نظام پر کیا اثرات مرتب ہوئے یہ تاریخ کا حصہ ہیں!!۔
تازہ ترین