• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل ایک دفعہ پھر اس رقم کا تذکرہ ہو رہا ہے جو اس وقت سوئس بنکوں میں پڑی ہوئی ہے۔ وہ کل کتنی رقم ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ نے چند دن پہلے اس رقم کے بارے میںتذکرہ کرتےہوئے بتایاتھا کہ یہ رقم تقریباً 200ارب ڈالرتک ہوسکتی ہے۔ یہ خاصی بڑی رقم ہے۔ اگر آج کل کے حالات میں یہ رقم پاکستان کو مل جائے تو معاشی صورتحال یکسر بدل سکتی ہے مگرایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ گزشتہ چند سال سے سوئس کھاتوں کا شور امیر اور غریب ملکوں میں ایک سارہا۔ ہمارے مہربان دوست امریکہ نے عالمی قوانین کے تناظر میں ان کھاتوں تک رسائی کیلئے کافی پیشرفت کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس سرمایہ کا بہائو دنیا بھر میںزیادہ محفوظ طریقہ سے ہونے لگا ہے۔ آف شور کمپنیاں زیادہ محفوظ طریقہ سے آپکے سرمایہ کو استعمال کرتی ہیں اور آپ کو قانونی تحفظ بھی مقامی قوانین سے دلواتی ہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کے محفوظ کھاتے اس وقت برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمنی، برازیل، امریکہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب تقریباً ہر جگہ ان کی سرمایہ کاری محفوظ اور قانونی ہے۔ بین الاقوامی نگرانی کے باوجود اب ایسے کھاتوں کے لئے قانونی کارروائی کرنا مشکل بلکہ ناممکن سی لگتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی موثر قانون نہیں ہے جو لوگوں سے پوچھ سکے کہ ان کی آمدن کاذریعہ کیا ہے۔ اگر آپ ٹیکس دیتے ہیں توآپ کا سرمایہ مزید محفو ظ ہو جاتا ہے اور آپ کو قانونی طور پر معتبر مانا جاتاہے۔اس وقت عرب امارات میں بہت سارے پاکستانی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ان کو وہاں پر قانونی مراعات کے بعد تحفظ دیا جائے گا۔ اس قسم کی صورتحال میں سرمایہ مسلسل باہر منتقل ہو رہا ہے۔ ہم لوگ قانون کا بڑا پرچار کرتے ہیں مگر قانون صرف کتابوں میں رہتا ہے۔ ہماری عملی زندگی کسی قانون اور قاعدے کو نہیں مانتی۔ اشرافیہ تو ویسے ہی خصوصی حیثیت کی حامل ہے۔ ان پر سرکار کی خاص نظر کرم رہتی ہے۔ پورے ملک میں شہری زمینوں کا کاروبارعروج پر ہے۔اس میں شریک کاروباری لوگ کیا ٹیکس دیتے ہیں؟ اس کے بارے میں متضاد دعوے کئے جاسکتے ہیں۔ مگر حقیقت کےبارے میں معلوم کرنا ازحد مشکل ہے۔ جولوگ اسٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگاتے ہیں وہ کتنا پیسہ ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں؟ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ہمارا کاروباری طبقہ ٹیکس کے محکمہ کی کبھی بھی شکایت کرتا نظر نہیں آتا۔ اس عید کےموقع پر کراچی میں خصوصاً اور پورے ملک میں عموماً جوخریداری ہوئی ہے اس نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ غریب ملک کے امیر لوگوں نےتو کمال ہی کردیاہے۔ اس کے باوجود ملکی ترقی کاگراف الٹا سیدھا نظرآتا ہے۔ مگر یہ گراف بناتا کون ہے؟ پھر ہمارے مشہور زمانہ جناب ڈارصاحب کے دعوے ملکی ترقی کے تناظر میں درست ہی لگتے ہیں۔ ملک میں جنتا نے جو خریداری کی ہے اس کے بعد ٹیکس کا ہدف حاصل کرنا آسان نظر آتا ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے،ترقی ہو رہی ہے، سو رام بھلی کرے۔ سب اچھا لگ رہاہے۔ مسلمان بڑھ رہے ہیں یہی بڑی ترقی ہے۔اس وقت پاکستان کے معلوم قرضے 60ارب ڈالر کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں ان قرضوں کے حصول کے لئے ہماری نوکرشاہی نے بڑے پاپڑ بیلے۔ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا سجایا۔ پھر بھاری سود پر مقررہ مدت میں واپسی کی شرائط طے ہونے کے بعد قرض پاکستان کو ملا کیونکہ یہ معاملات نوکرشاہی طے کرتی ہے اس لئے پاکستان کے مفادات کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ان قرضوں کے ساتھ ان کے خرچ کرنے کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے اور ایسے قوانین کا نفاذ ضروری ہوتاہے جو ملکی مفاد میں کارآمد بھی نہ ہو۔ ہم اپنی مرضی کے منصوبوں پر وہ قرضے استعمال نہیں کرسکتے۔ ان قرضوں کے استعمال کی نگرانی کے لئے ان اداروں کے دفاتربھی قرضےکی رقم سے چلتے ہیں۔ ایک طرف دنیا میں اب آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سے قرضے لینے سے اجتناب کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ہماری بیمار معیشت کی زندگی کا د ارو مدار ان قرضوں سے جڑا ہے۔ جس کے نتیجہ میں عوام کی زندگی مزید مشکل ہوتی جارہی ہے ۔یہ بین الاقوامی ادارے قرضوں کے لئے تو مشاورت کرتے ہیں اور ٹیکس کی وصولی پر مزید زور دیتے ہیں مگر ٹیکس کے نظام کو بدلنے کے لئے کوئی راہ نہیں دکھاتے۔ پھر ہماری سیاسی اشرافیہ اور نوکرشاہی ان قرضوں کو اپنے آرام و آسائش کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ شاندار دفاتر، اعلیٰ قیمتی گاڑیاں، بیرون ملک دورے، ایسے میں ملک کتنی ترقی کرسکتا ہے۔ اس کا اندازہ تو گزشتہ کئی سالوں کےمالیتی گوشواروں سے لگایا جاسکتا ہے۔
کیا پاکستان ان بھاری بیرونی قرضوں کے بغیر چل سکتا ہے؟ ہاں ایسا ممکن ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم نقطہ نوکرشاہی کے اخراجات کی کمی لازمی ہے۔ ٹیکس کے نظام کو یکسر بدلنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس کی مد میں مناسب اخراجات کے تناظر میں ٹیکس کی واپسی کا انتظام ہو۔ اندرون ملک سرکاری قرضوں کے استعمال کے لئے مربوط منصوبہ بندی لازمی ہے۔ ترقیاتی اخراجات ان علاقوں میں کئے جائیں جہاں ٹیکس گزار زیادہ ہوں۔ دوہرے ٹیکس کا نظام ختم کیا جائے۔ ٹیکس کی وصولی کے معاملات کاروباری اداروں کے سپردنہ کئے جائیں بلکہ آمدنی کی مدکا اندازہ لگا کر ٹیکس کا ہدف دیا جائے۔ سرکاری اداروں پر اخراجات کی تفصیل دینی لازمی ہو۔ صوبے ٹیکس وصول کرنے میں خودمختار ہوں۔ ٹیکس کے قانونی مسائل کے لئے عدالتی کارروائی تیزرفتار ہو اور سزا کے سلسلہ میں کارروائی لازمی ہو۔ دوسری طرف بیرون ملک سرمایہ کی منتقلی کو آسان اور قانونی بنایا جائے اگر آپ بیرون ملک سرمایہ لگاتے ہیں تو آپ ٹیکس ادا کرکے اپنا کاروبار اور سرمایہ محفوظ بنا سکتے ہیں۔ اس کے لئے سرکار کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہوگا۔ اس وقت سرکار جس طریقہ سے معاملات چلا رہی ہے وہ بالکل شفاف نہیں ہے۔ اس پر عوام میں تشویش بھی ہے اور جو لوگ سرکار کا حصہ ہوں وہ کسی قسم کے کاروبار سے منسلک نہ ہوں اس کو اصولی طور پر لاگو کیا جائے۔
اس وقت اندرون ملک قرضے تقریباً 112ارب ڈالر بنتے ہیں اس طرح کل قرضوں کی رقم کا اندازہ 172ارب ڈالر بنتی ہے اور جو رقوم سوئس کھاتوں میں اندازاً ہیں وہ 200ارب ڈالر ہیں یعنی کہ 200ارب ڈالر کی وصولی سے ہم قرضوں سے آزاد ہوسکتے ہیں اور اپنی مرضی سے ملک چلا سکتے ہیں مگرایساممکن نہیں دو سو ارب کو حاصل کرناممکن ہے مگر ہماری سیاسی اشرافیہ اور نوکرشاہی ان امور کے لئے ہمت نہیں رکھتی۔ اندرون ملک خلفشار، دہشت گردی نے ملک کا مستقبل دائو پر لگارکھا ہے۔ فوجی اخراجات نے معاشی معاملات کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ ایسے میں یہ کام کون کرے؟ یہ آ ج کا سوال ہے۔ ہمارے تمام سیاسی نیتا ان معاملات پر شفاف کردار کے حامل نہیں۔
اگر نوازشریف کی جماعت پاکستان کے مستقبل کے لئے سنجیدہ ہے تو سوئس کھاتوں سے 200ارب ڈالر کی واپسی کے لئے وقت کا تعین کرے اور اس کے لئے روڈ میپ کا اعلان کرے۔ اپنے اخراجات میں کٹوتی کا اعلان کرے۔ نوکرشاہی اور پولیس کو قانون اور اصول کا پابندکرنے کا جتن کرے۔ سرکاری اخراجات کے سلسلہ میں جواب دہی کاقانون موثرطور پر لاگو کیا جائے۔ ملکی قانون کو وقار دیا جائے۔ عدالتوںکوفیصلے کرنے کے لئے مناسب ماحول اورآزادی کا تصور باعمل بنایا جائے۔ عدالتی فیصلوں کے سلسلہ میں اصول اور قانون کو نظرانداز کرنے کے معاملات پر نظرثانی ضروری ہے۔ فوری طور پر مردم شماری شروع کی جائے۔ ملک میں معاشی معاملات کے تناظر میں ہنگامی حالات کااعلان کیا جائے۔ اپنے وسائل کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کی جائے۔ بیرون ملک معاہدوں کےبارے میں لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈبنک کے ساتھ معاملات نئے سرے سے طے کئے جائیں۔ فوج کے ساتھ بات چیت کرکے ان کے کردار کا تعین کیا جائے۔ ملکی ترقی اور مفاد کے لئے تمام سیاسی حریفوں سے بات چیت کا آغاز کیا جائے۔ اگرچہ مسلم لیگ سرکار کو ایک سال کی تاخیر ہوچکی ہے مگر وقت بہت اہم ہے۔ این آر او کے بارے میں اپنا نقطہ نظر واضح کرے اور جو بیرون ملک اثاثہ جات کے معاملات کو قانونی طور پر کارروائی کے ذریعے طے کرے اور اگر کسی پر الزام ہے، اس کو گرفت کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ عوام میں آ کر یہ سب کچھ کرنے کا سوچیں۔ یہ معاملہ بہت ہی مشکل ہے۔ اب جان اور حکومت سچ بول کر ہی بچ سکتی ہے۔ وقت کم ہے۔ سچ بول کر پاکستان کا مستقبل بچایا جاسکتا ہے۔ بقول شاعر انقلاب؎
اے ستمگر تونے سوچا ہے کبھی
تجھ سے ہے ساری خدائی تنگ کیوں
تازہ ترین