• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ستمبر 2008ءکو اسلام آباد کے معروف ہوٹل میں خوفناک دھماکہ ہوا جس میں دہشت گردوں نے بارود سے بھرے ٹرک کو ہوٹل کے داخلی دروازے سے ٹکرا دیا تھا۔ دہشت گردی کے اس خوفناک واقعے کو میں درجنوں افراد جاں بحق اور اڑھائی سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ حساس اداروں نے اس حملے میں ملوث ملزمان کو حراست میں لیا،ان سے تفتیش کی اور اسکے بعد حسب روایت انہیں پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بعد،ملزمان کی گرفتاری ڈال کر انہیں مقدمے کی سماعت کے دوران متعلقہ عدالت میں پیش کیا تو ملزمان کے وکلاء اور جج نے جب سب انسپکٹر پر جرح کی تو اسے ان ملزمان کی گرفتاری سے تفتیش تک کچھ معلوم نہ تھا۔عدالتی عملے کی طرف سے ایس ایس پی اسلام آباد کو کہا گیا کہ مقدمے کی مدعیت کے لئے کسی سینئر پولیس افسر کو عدالت میں بھیجا جائے۔ایس ایس پی نے ایس پی کو لکھا،ایس پی نے ایس ایچ او کو اور ایس ایچ او نے پھر اسی سب انسپکٹر کو آئندہ پیشی پر عدالت میں بھیج دیا۔عدالت کی طرف سے تاسف کے اظہار کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک سے رابطہ کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ ملزمان کو سزا دلوانے کے لئے اس سینئر پولیس افسر کو بھیجا جائے جو عدالت کو پیش کی گئی شہادتوں اور ثبوتوں بارے میں مطمئن کر سکے۔متحرک وزیر داخلہ نے فوری آئی جی کو تحریری ہدایات دیں،آئی جی نے ایس ایس پی کی ڈیوٹی لگا دی اور ایک بار پھر یہ ہدایت نامہ ایس پی سے ہوتا ہوا ایس ایچ او تک جا پہنچا جس نے دوبارہ اسی سب انسپکٹر کو مقدمے کی پیروی کے لئے عدالت بھیج دیا اور یوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے روئیے پرجھنجلاہٹ کے شکار جج نے ناکافی شہادتوں اورعدم ثبوتوں کی وجہ سے بدترین دہشت گردی میں ملوث ملزمان کورہا کردیا۔ یہ واقعہ پاکستان میں انویسٹی گیشن سے پراسیکیوشن تک پورے نظام میںموجود خامیوں کی قلعی کھولنے کے لیے نہ صرف کافی ہے بلکہ وزیراعظم، وفاقی وزراء کے ہمراہ مسلح افواج کے ہیڈکوارٹرز دورے کے موقع پر اعلی عسکری حکام کی طرف سے ظاہر کئے گئے ان تحفظات اور تشویش کے پس منظر کو بھی بیان کرتا ہے کہ گرفتار کئے گئے دہشت گردوں کو مؤثر پراسیکیوشن نہ ہونے کے باعث عدالتوں سے رہائی مل جاتی ہے۔عسکری حکام کے مطابق حراست میں لئے گئے خطرناک دہشت گردوں کی رہائی سے مسلح افواج کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ وزیر نے عسکری حکام کو آگاہ کیا کہ گرفتار دہشت گردوں کو سزا دینے اور ملک دشمن عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کے لئے پارلیمنٹ نے تحفظ پاکستان بل 2014 منظور کر دیا ہے۔اس بل کی منظوری کے بعد حکومت متعلقہ مقدمات میں مسلح افواج کو بھرپور قانونی تعاون فراہم کرے گی اور اب دہشت گردوں کو سزائیں مل سکیں گی۔
اس قانون سے قبل انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 1997 میں سال 2013 اور سال 2014 میں ترامیم کی گئی تھیں۔ دہشت گردی کے ان قوانین کے تحت بھی گرفتار ملزمان کو 90 فیصد مقدمات میں ناکافی شہادتوں اور عدم ثبوتوں کی وجہ سے سزا نہیں مل سکی تھی اور ملزمان رہا ہو چکے ہیں جبکہ جن کو سزائے موت سنائی گئی اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ موجودہ نظام میں موجودہ خامیوں کی وجہ سے کراچی میں ایک ہوٹل میں دھماکے،یو ایس قونصلیٹ پر حملے،لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ پر خود کش حملے، جی ایچ کیو پر حملے اور کامرہ ائر بیس پر حملے سمیت دہشت گردی کے بڑے واقعات کے ملزمان بھی رہائی پا چکے ہیں جس کے بارے میں عسکری حکام نے اب دہائی دی ہے۔دوسری طرف حکومت دہشت گردوں کی رہائی کا ملبہ عدالتوں پر ڈال دیتی ہے لیکن یہ بھول جاتی ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے اور عدالتیں شہادتوں اور ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عسکری حکام نے سزائے موت پر عمل درآمد نہ کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے باعث دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں سال 2008 سے سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد کو معطل کر دیا تھا جو موجودہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں بھی جاری ہے۔ پاکستان میں آخری پھانسی نومبر 2011 میں ایک فوجی محمد حسین کو فوجی عدالت کے حکم پر دی گئی۔ دوسری طرف جی ایچ کیو حملے میں ملوث فیصل آباد کی سینٹرل جیل میں قید مرکزی مجرم ڈاکٹر عثمان سمیت خطرناک دہشت گردوں اور مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت پر تاحال عمل درآمد نہیں کیا گیا۔وزارت داخلہ سے حاصل کردہ اعداو شمار کے مطابق ملک بھر میں اس وقت 8 ہزار قیدی ایسے ہیں جن کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے جن میں سے سب سے زیادہ پنجاب میں 6 ہزار 355 ہیں،ان میں سے سینکڑوں ایسے ہیں جن کی اپیلیں بھی خارج ہو چکی ہیں لیکن یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کا درجہ حاصل کرکے خوشی کے شادیانے بجانے والی حکومت عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہے۔متعلقہ ماہرین سجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کو سزا دینے کے موجودہ نظام میں موجود خامیوں میں سے سب سے بنیادی مسئلہ تفتیش کے نظام میں ہے کیوں کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کے بعد دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یہ اختیار پولیس کے پاس ہوناہونا چاہئے کہ وہ ملزمان سے تفتیش کرے۔انٹیلی جنس اداروں کو پولیس کےساتھ انٹیلی جنس شئیر کرنی چا ہئے جس کی بنیاد پر پولیس ساری کارروائی کرے لیکن یہاں کسی بھی دہشت گرد کو پولیس کی بجائے انٹیلی جنس ایجنسیز حراست میں لیتی ہیں، اس کو اچھی طرح نچوڑنے کے بعد پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے جس کوجرم کی جزئیات سے لے کر اس کی گرفتاری تک کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا،وہ گواہ تک پیش نہیں کرسکتا۔ جس کے نتیجے میں دہشت گرد رہائی پا لیتے ہیں۔ پولیس کی بیچارگی کی وجہ مطلوبہ تربیت،ٹیکنا لوجی اور وسائل کا فقدان ہے جس کے باعث وہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ حال تو یہ ہے کہ گزشتہ چودہ سال سے دہشت گردی کی جنگ لڑنے والے ملک کی پولیس کو موبائل کالز کو ٹریس کرنے کے لئے ڈائریکشن فائنڈرز تک اب دئیے گئے ہیں لیکن متعلقہ سسٹم کو کنٹرول کرنے کا اختیار تاحال حساس اداروں کے پاس ہی ہے۔چوری چکاری جیسے جرائم کے لئے بھرتی پولیس اہلکاروں اور تھانیداروں کی دہشت گردی کے واقعات کےبعد جائے وقعہ سے شواہد اکھٹا کر نے جیسی بنیادی تربیت بھی نہیں ہے۔کرائم سین کو کیسے محفوظ بنانا ہے پروٹوکول ڈیوٹی کےلئے کسی صاحب کے دفتر کے باہر دس گھنٹے تک کھڑے رہنے والے تفتیش پر مامور اے ایس آئی کو کیا معلوم۔ ان حالات میں ہم ان سے توقع کریں کہ وہ خطرناک دہشت گردوں کو سزائیں دلوا سکتے ہیں خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت یا تو موجودہ پولیس کو جدید تریبت دے یا موجودہ تقاضوں کے مطابق اسپیشل پولیس فورس قائم کی جائے۔انٹیلی جنس ایجنسیز اور پولیس کے درمیان اطلاعات کے تبادلے کا مربوط نظام وضع کیا جائے۔انٹیلی جنس ادارے اگر کسی دہشت گرد کو حراست میں بھی لیں تو وہ چوبیس گھنٹے میں اس کو تفتیش کے لئے پولیس کے حوالے کریں تاہم تفتیش کرنے والا پولیس اہلکار یا افسر جب عدالت میں پیش ہو تو وہ جرح کے دوران مقدمے کا بھرپوردفاع کر کے ملزم کو سزا دلوا سکے۔ملک بھر میں موجود جیلوں کی تعداد صرف 89ہے ان کو بڑھایا جائے،خطرناک قیدیوں کے لئے خصوصی جیلیں قائم کی جائیں تاکہ بنوں جیل پر حملے جیسے واقعات میں بھی دہشت گرد فرار نہ ہو سکیں۔جیلوں کا کنٹرول بھی مکمل طور پر پولیس کے حوالے کیا جائے اور اس میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کا کردار ختم کیا جائے۔دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججز،پراسیکیوٹرز اور گواہان کے تحفظ کے خصوصی انتطامات کئے جائیں تاکہ شہید بے نظیر بھٹو،شہباز بھٹی کے مقدمے کے پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کی ہلاکت اور ولی بابر قتل کے گواہان کو ٹارگٹ کرنے جیسے واقعات کو روکا جا سکے۔دہشت گردی کے واقعات کے گواہان سے ویڈیو لنک کے ذریعے شناخت چھپا کر گواہی لی جائے اور ان تمام مجرمان کی سزائے موت پر فوری عمل درآمد شروع کیا جائے جن کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں۔ان تمام اقدامات کے ذریعے عسکری حکام اور متاثرین دہشت گردی کی تشویش اور تحفظات کو دور کیا جا سکتا ہے ورنہ اگر دہشت گردی کے ملزمان ناکا فی شہادتوں پر ایسے ہی عدالتوں سے بری ہوتے رہے تو ماضی کے انسداد دہشت گردی قوانین کی طرح تحفظ پاکستان ایکٹ بھی غیر مؤثر رہے گا۔
تازہ ترین