• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر کے مسلمانوں نے (سوائے غزہ کے ) سب نے عید پوری جوش وخروش اور ’’اسلامی ‘‘ جذبے سے منائی بلکہ چاند رات سے جو جشن عید شروع ہوا وہ عید کے تین روز بعد تک بھی جاری رہا مسلمانوں کو خوشیاں ضرور منانی چاہئیں کیونکہ آج پوری دنیا پر مسلمان ’’حکمرانی‘‘ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی 56ریاستوں میں ’’سکون‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کا عمل جاری ہے اور ’’شہزادوں‘‘ کا حق بنتا ہے کہ وہ عید سوئٹزر لینڈ اور ہالینڈ وغیرہ میں پورے پورے ہوٹل بک کرکے منائیں یا ریگستانوں میں قائم تفریح گاہوں میں کیونکہ یہی تو ’’عید‘‘کا مقصد ہے۔ ہم چونکہ ڈی ایچ اے میں رہتے ہیں وہاں پر ہر عید سے ایک ہفتہ قبل ڈی ایچ اے آفس میں پلاٹوں کی خریداری اور ٹرانسفر کا اتنا رش رہتا ہے جیسے زمین مفت اور جنت کے پلاٹ مل رہے ہوں دس دس پلاٹوں والے کو بھی سوا چھ فٹ میں جانا ہے اور جھونپڑی والے کو بھی مگر دل بھرتا نہیں ۔
اسلام عیدین پر اور دنیا کے دیگر مذاہب بھی اپنے مذہبی تہواروں کا احترام کرتے ہیں اور جنگ بندی کر دیتے ہیں لیکن اسرائیل کی ظالم حکومت نےعید پر بھی بچے اور جوان شہید کر دیئے اور عید پر بھی فلسطین کے لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہے۔جہاں فائرنگ سے فلسطین کے لوگ شہید ہوتے رہے ایک طرف اپنے ملک میں وزیرستان کے آپریشن میں فوجی شہید ہو رہے ہیں دوسری طرف سے مہاجرین کی کثیر تعداد آ چکی ہے مگرکس کے دل میں درد ہے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ ’’حقیقی درد وہ ہے جو دوسروں کو درد میں دیکھ کر ملے ورنہ اپنا درد تو جانور کو بھی محسوس ہوتا ہے ‘‘۔ فلسطین کے مظلوم عوام کو اسرائیل کے ظالم حکمرانوں نے ہر طرح سے ڈرایا دھمکایا حتی کہ ایک مدت سے انہیں شہیدکر رہی ہے مگر خراج تحسین ہے فلسطین کے ان لوگوں پر جو آج بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کر رہے ہیں بقول آغا شورش کاشمیری کہ
ڈرا رہے ہیں مجھے سرکشوں کے ہنگامے
مگر ہے میری نوا لاالہ الا اللہ
میں اس چمن میں غریب الدیار ہوں شورش
مری دعائے رسا لاالہ الااللہ
اسرائیل کے ظلم وستم پر اگرچہ بعض عرب ممالک میں اجتماعی جلوس نکلے اور مظاہرے بھی کئے مگر افسوس کہ ان مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد بہت کم تھی اس کے مقابلے میں امریکہ، یو کے ،جرمنی اور یورپ میں جو مظاہرے ہوئے ان میں لاکھوں افراد تھے ۔
ایک فلسطینی تبصرہ نگار علی حبلہ نے بالکل درست کہا کہ عرب کے حکمرانوں کو جاگ اس وقت آئی جب اسرائیل کو غزہ پر خونی کھیل کھیلتے ہوئے سات روز ہو چکے تھے ان کے شہزاد ے تو ورلڈ فٹ بال کے مزے لے رہے تھے انہیں کیا لگے کہ کون مر رہا ہے کس کے چھوٹے اور معصوم بچے بموں اور گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ غزہ کے وہ بچوں نے جنہوں نے ابھی تو زندگی کی چند روزہ بہاریں ہی دیکھی تھی انہیں بھی بھون ڈالا۔آج یقیناً ہر کوئی اس بات سے آگاہ ہے کہ غزہ ایک ایسا علاقہ ہے جس کے عقب میں بحیرہ روم اور سامنے مصر اور اسرائیل ہے مصر ایک اسلامی ملک ہے اس نے بھی ان لوگوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے یہودیوں نے تو ناکہ بندی کرنی ہی ہے اپنا برادر اسلامی ملک مصرنے بھی ان بے چاروں کا راستہ بند کیا ہوا ہے ۔کیسے مسلمان ہیں ؟کیسے دعوے ہیں ؟ ان 56اسلامی ریاستوں کے کانوں میں معصوم فلسطینی اور کشمیری بچوں کی آوازیں نہیں آتیں عورتوں کی چیخ و پکار نہیں آتی ، انہیں ان مظلوموں کا بہتا ہوا خون نظر نہیں آتا اور ان کے منہ سے کوئی آواز نہیں برآمد ہوتی ، تو اس کا مطلب یہ ہوا اگر یہ 56اسلامی ریاستیں بہری اندھی اور گونگی ہو چکی ہیں دنیا کا ہر مذہب احترام انسانیت کا درس دیتا ہے اور یہودی جو ظلم وستم کر رہے ہیں کیا یہ ان کے مذہب کی تعلیمات کی نفی نہیں ۔
2010ء میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے غزہ کو اوپن ایئرجیل قرار دیا تھا جس پر اسرائیل نے ان کے اس بیان پر بھرپور مذمت کی تھی۔ بین الاقوامی معلومات کے مطابق غزہ کی آبادی 18 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور یہاں پر پانچ ہزار افراد فی سکوائر کلو میٹر پر رہتے ہیں یقیناً بہت گنجان آباد علاقہ ہے جس طرح کوئی میزائل یا توپ کا گولہ آپ بھاٹی ، لوہاری دروازہ پر ماریں تو ایک وقت میں بیسیوں افراد موت کے منہ میں چلے جائیں گے سو یہی حالات غزہ کے ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ صرف 18 لاکھ افراد کو 56 اسلامی ممالک جن میں بعض ممالک انتہائی امیر ہیں ان کو اپنے ہاں جگہ اور آباد نہیں کر سکتے ویسے ہر مسلمان ایک دوسرے کا بھائی ہے کیا پوری امت مسلمہ اس بات کے انتظار میں ہے کہ ان 18 لاکھ افراد کو یہودی جب تک تشدد، گولہ باری، ٹینکوں کے نیچے روند کر مار نہیں دیتے یہ ان کا تماشا دیکھتے رہیں گے کیا یہ 56ممالک اندھے، بہرے اور گونگے ہو چکے ہیں۔ او آئی سی بالکل خاموش ہے عیسائی ممالک اور مغربی ممالک تک احتجاج کر رہے ہیں مگر او آئی سی کی طرف سے ایک بیان تک جاری نہیں ہوا ۔ اب تک یعنی پچھلے چند روز میں اسرائیل نے 2000 سے زیادہ فلسطینی شہیدکر دیئے ہیں سینکڑوں زخمی پڑے ہیں کوئی مسلمان ملک بھی طبی وفد بھیجنے کو تیار نہیں کوئی ان زخمیوں کو اپنے ممالک میں علاج کی پیشکش نہیں کر رہا۔
اسرائیل اور وہ قوتیں جو مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں ان کے لئے یہ صورت حال اس وقت خطرناک بن گئی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرا ڈالی اور اس وقت کے تمام نامور اسلامی لیڈر اس میں شریک ہوئے مثلاً شاہ فیصل، کرنل قذافی، بومدین، انور سادات یہ تمام افراد کو غیر طبعی طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مگر 56 اسلامی ممالک کو عقل نہ آئی اس اجلاس میں مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر اور تمام آزادی کی تحریکوں کی حمایت اور ان کے لئے آواز اٹھانے کا اعلان ہوا تھا ۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ حماس کی طرف سے جو حملے ہوتے ہیں ان کا دفاع کرنا اسرائیل کا حق ہے تو جناب فلسطین کو آزاد ریاست کا بنانا کس کا فرض ہے؟ اور کیوں نہیں فلسطینیوں کو ان کا یہ حق دیا جاتا تمام حقوق تو اسرائیل کیلئے ہیں اور مسلمانوں کیلئے صرف زیادتیاں اور جانوں کا نذرانہ دینا رہ گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 1947ء سے بھارت ظلم وستم کر رہا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو شہید جا رہا ہے اس پر کبھی امریکہ نے آواز نہیں اٹھائی پھر دوستو اپنے اسلامی ممالک بھی تو کون ساساتھ دے رہے ہیں۔ امریکہ ’’بہادر‘‘ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ان کی حفاظت کر رہا ہے افسوس در افسوس
بقول اکبر الہ آبادی
بتوں سے میل خدا پر نظر یہ خوب کہی
شب گناہ و نماز سحر یہ خوب کہی
فلسطین کے 18 لاکھ افراد آج غذا اور ادویات کی کمی کا شکار ہیں بچے، نوجوان اور خواتین زخمی اور بیمار پڑے ہیں عرب ممالک جو ہرسال امریکہ سے لاکھوں اور کروڑوں ڈالرز کا اسلحہ خریدتے ہیں وہ آخر کس لئے کیا آپس میں لڑنے کے لئے یا اسرائیل کو تباہ کرنے کے لئے۔
اگر اسرائیل کو تباہ کرنا ہے تو پھر دیر کس بات کی؟ کہیں امریکہ اور اسرائیل پورے مشرق وسطی کا جغرافیہ تبدیل کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی تو نہیں کر چکے۔ امت ِ مسلمہ ہوش کے ناخن لو، تم 56اسلامی ممالک ہو ایک بالٹی پانی ہی بھر کر اسرائیل پر پھینک دو تو وہ اس میں بہہ جائے گا۔
ایک فلسطینی کارٹونسٹ امید حجا نے اپنے ایک کارٹون میں دکھایا ہے کہ غزہ میں ایک عورت کے سینے میں سامنے سے اسرائیلی خنجر پیوست ہے اور پشت سے مسلمان عرب ہاتھ کا مارا ہوا خنجر سینے سے پار نظر آتا ہے ہمارا خیال ہے کہ اس کارٹون کے بعد کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ
بتوں سے تم کو امید خدا سے ناامیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
تازہ ترین