• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت دنوں کے بعد اس کالم کے ذریعے میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں ۔ ایک ایسے وقت لوگوں کے ساتھ خیالات اور افکار کی ساجھے داری کا رشتہ استوار کرنے کے لئے دوبارہ اپنے قلم کو وسیلہ بنایا ہے ، جب ملک انتہائی مشکل حالات میں پھنسا ہوا ہے ۔ پاکستان کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اور جو کچھ سمجھ رہا ہوں ، وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم ایک ترقی یافتہ ، جمہوری اور لبرل پاکستان کی تشکیل کے لئے کوئی بہتر راستہ نکالیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امید نہ ٹوٹنے دیں کیونکہ بحیثیت قوم متعدد بار ہم ایسے حادثات کا شکار ہو چکے ہیں کہ امید کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور ہم بحرانوں کے سمندر کی تلاطم خیز موجوں کے رحم و کرم پر رہے ۔
پاکستان کے 68ویں یوم آزادی کے موقع پر 14اگست 2014 ء کو جو کچھ ہونے جا رہا ہے ، اسے میں پاکستان کی تاریخ ، اس کی ہم عصر عالمی تاریخ اور عہد نو کی ہر لمحہ بدلتی عالمی صورت حال کے تناظر میں دیکھ رہا ہوں اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان میں ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ ( Status Quo ) کی سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے ۔ پاکستان کے لوگ خصوصاً نوجوان کچھ اور سوچ رہے ہیں ۔ ان نوجوانوں کی سوچ کیا ہے ، اس کی وضاحت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے الفاظ میں کروں گا ، جو انہوںنے موت کی کال کوٹھڑی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو لکھے گئے خط میں بیان کئے ہیں ۔ ( یہ خط ’’ میری سب سے پیاری بیٹی ‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے ۔ ) بھٹو صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ ہر نسل کا اپنا مرکزی مسئلہ ہوا کرتا ہے ... آج کل کے نوجوانوں کو فرد کے وقار کی فکر ہے اور وہ ضرورت سے زائد اختیار اور طاقت کی حد بندی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ وہ ایک ایسی حکومت چاہتے ہیں ، جو اپنے شہریوں سے براہ راست اور دیانت داری کے ساتھ بات کرے ۔ ‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو صاحب نے 70 کے عشرے کے نوجوانوں کی جن امنگوں کا تذکرہ کیا ہے ، وہ امنگیں 21 ویں صدی کے پاکستانی نوجوانوں کے دلوں میں بہت زیادہ بھڑک چکی ہیں ۔ ان امنگوں اور سوچوں کی صورت گری کیسے کی جائے ، اس کے لئے بھی میں بھٹو صاحب کے الفاظ کا سہارا لوں گا کہ ’’ امکانات بھی بہت زیادہ ہیں اور داؤ پر بھی بہت کچھ لگا ہوا ہے‘‘ ہاں ! اگر قوموں میں امید ختم نہ ہو تو سب کچھ ممکن ہے ۔
بڑے لیڈروں کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو خواب دیتے ہیں اور ان میں امید پیدا کرتے ہیں ۔’’ آؤ کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے ‘‘ ان کا نعرہ مستانہ ہوتا ہے ۔ان کے پیرو کاروں کو بھی یقین ہوتا ہے کہ ان خوابوں کو تعبیر ملے گی اور امیدیں پوری ہوں گی ۔ ایک لیڈر قائداعظم محمد علی جناح تھے ، جنہوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک امید دی تھی اور ان کی ولولہ انگیز قیادت میں 14 اگست 1947ء کو ایک نیا ملک پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا ۔ یہ ایک سفر کا آغاز تھا ، منزل نہیں تھی ۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کی قیادت زیادہ تر جاگیرداروں ، سرداروں اور نوکر شاہی ٹولے پر مشتمل تھی ۔ قائد اعظم کے بعد انہوں نے جلد ہی پارٹی اور حکومت دونوں پر قبضہ کرلیا اور لوگوں سے امید چھین لی ۔ انہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ کسی کو یہ کہنا پڑا کہ ’’ یہ وہ سحر تو نہیں ، جس کا انتظار تھا ۔ ‘‘ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ قائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو امید دی ۔ انہوں نے شکستہ پاکستان کی ازسر نو تعمیر کی ۔ روٹی ، کپڑا، مکان اور طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ دے کر غریب لوگوں کو وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا خواب دیا ۔ انہوں نے پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کے لئے یہ بھی اعلان کیا کہ ’’ ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے ۔ ‘‘ اس اعلان نے پاکستانی قوم کو مایوسی سے نکال کر اس میں فخر کرنے کا احساس پیدا کیا ۔ اسی رو سیاہ ٹولے نے بھٹو کو بھی برداشت نہیں کیا اور پاکستانی قوم بھٹو کی پھانسی کے گناہ کا احساس نسل در نسل منتقل کر رہی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے قوم کو امید دی ۔ وہ مسلم دنیا اور مشرق کی واحد لیڈر تھیں ، جو مغربی دنیا اور ترقی یافتہ ممالک سے بات کر سکتی تھیں ۔ وہ علم اور تجربے کی طاقت سے لیس ، مشکلات کی آگ سے کندن بن کر نکلنے والی بلند حوصلہ شخصیت اور بصیرت افروز لیڈر تھیں ۔ساری دنیا میں ان کی پذیرائی تھی۔ وہ مشرق اور مغرب کے درمیان خلیج ختم کر سکتی تھیں ۔ اس مرتبہ وہ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی تھیں کہ ’’ اب ایک ایسا پر امن انقلاب آنا چاہئے ، جو نا انصافی ، غیر مساوی نظام ، غربت اور جہالت کا خاتمہ کر دے ۔ ‘‘ وہ پاکستان اور دنیا کی سخت ضرورت تھیں لیکن رو سیاہ ٹولے نے انہیں بھی برداشت نہ کیا ۔ ان کے بہیمانہ قتل نے پاکستانی قوم کو ایک ایسے صدمے سے دوچار کیا ہے ، جس کے مایوس کن اثرات بھی کئی نسلوں تک رہیں گے ۔ آج بے نظیر بھٹو جیسی سوچ اور قیادت کی بے حد ضرورت ہے ، جس کو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی صورت حال کا ادراک ہو۔
2007ء کے بعد پاکستان ایسی لیڈر شپ سے خالی ہو گیا ۔ صدور اور وزرائے اعظم آئے لیکن کسی نے عوام کے دلوں پر راج نہیں کیا ۔ کرپشن، لوٹ ماراور خراب حکمرانی کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ۔ آج میں آپ سے اس لئے مخاطب ہوں کہ پاکستان پر ایک کٹھن وقت ہے اور آئندہ چند ماہ فیصلہ کن ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن پارٹی عہدیداروں کا ، کارکنوں اور عوام سے پہلے جیسا رابطہ نہیں ہے۔ قیادت کا نہ ہی کوئی وژن ہے اور نہ ہی خطہ کی صورتحال کا ادراک۔مسلم لیگ (ن) کی بھی یہی صورت حال ہے ۔ دیگر علاقائی اور قومی پارٹیوں کو کام کرنے کا موقع نہیں ملا ہے ۔ ایم کیو ایم جو مڈل کلاس کی پارٹی ہے کا کارکنوں اور ہمدردان سے موثر رابطہ ہے اور ان کی قیادت کا مطالعہ بھی ہے اور بدلتی ہوئی تبدیلیوں کا ادراک بھی لیکن انہیں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ عمران خان آج کے نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں ۔ نوجوان پاکستان کی آبادی کا 50 فیصد حصہ ہیں ۔ انہیں عمران خان سے امیدیں وابستہ ہیں ۔ عمران خان کی آزمائش کا مرحلہ آ چکا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس ــ ـ ’’ا مید‘‘ کو قائم رکھ سکتے ہیں یا نہیں ۔ پاکستان میں ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی سیاست کا عہد ختم ہو چکا ہے ۔ تبدیلی کا لاوا پک چکا ہے اور فیصلہ کن مرحلہ آ چکا ہے ۔ ’’ نیا سفر ہے ، پرانے چراغ گل کر دو ‘‘ کے مصداق عوام خصوصاً نوجوانوں کی امنگوں اور سوچوں کا ادراک کرنا ہو گا ۔ ہمیں ناگزیر تبدیلی کے لئے اپنا ذہن بنانا ہو گا ۔ وقار اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے ، غربت اور استحصا ل کے خاتمے ، میرٹ ، انصاف اور قانون کی بالادستی اور اچھی اور دیانت دار حکمرانی کے لئے لوگ اپنا ذہن بنا چکے ہیں ۔ تبدیلی ترقی کی طرف لے جاتی ہے اور تبدیلی کا راستہ روکنے والے ’’ اسٹیٹس کو‘‘ کے حامی ہیں اور تاریخ کے مجرم وہ تاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے کی کوشش میں تاریخ کا حصہ بن جائیں گے ۔
گزشتہ صدی کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں تبدیلی پر اپنے یقین کو پختہ کرنا ہو گا ۔ 20 ویں صدی میں دنیا کا نقشہ تین بار تبدیل ہوا ۔ پہلے جنگ عظیم اول میں ، دوسری مرتبہ جنگ عظیم دوئم میں ، تیسری مرتبہ سرد جنگ میں اورسرد جنگ کے خاتمے کے بعد نام نہاد نیو ورلڈ آرڈر میں دنیا کی کایا پلٹ گئی۔ گزشتہ صدی میں تین بڑی تبدیلیاں دیکھنے کے بعد ہم کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری اس 21ویں صدی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو گی ۔ 21ویں صدی تو زیادہ تیز تر تبدیلیوں کی صدی ہے ۔ زندہ قومیں تبدیلی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتی ہیں 20ویں صدی اور 21ویں صدی میں بڑا فرق ہے اب تبدیلیاں جو پچھلے صدی دہائیوں میں ہوئیں اب وہ چند سالوں میں ہو رہی ہیں۔
آج ایک نئی دنیا تشکیل پا رہی ہے ، نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔ ہمارے ارد گرد کے حالات ایسے ہیں کہ امریکہ بھارت سے اپنے تعلقات بہتر بنا رہا ہے اور افغانستان سے فوج کا انخلاء کر رہا ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں زبردست بھونچال ہے ۔ میں اس بات کا حامی نہیں ہوں کہ ملک میں آمریت آئے لیکن پاکستان میں تبدیلی کے عوامل کو سمجھنا ہو گا اور ’’طرز کہن ‘‘ سے نجات حاصل کرنا ہو گی ۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی یہ بات انتہائی فکر انگیز ہے کہ تصادم سے ہر حال میں گریز کیا جائے اور اگر تصادم میں نقصان کا خدشہ ہو تو وزیر اعظم اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں ۔ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ الطاف حسین کی اس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن بہتر یہی ہو گا کہ تبدیلی کے اس عمل کو کسی بھی طرح پر امن طریقے سے مکمل ہونے کا راستہ دیا جائے ۔
تازہ ترین