• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ ایک ایسا نوجوان تھا جو لگتا تھا ابھی ابھی انقلابی ناولوں سے نکل کر ملک کی مزدور بستیوں، کسانوں کی جھونپڑیوں اور طلبہ کے ہوسٹلوں میں انقلاب کا پرچار کرنے آیا ہو۔ ایک ایسی شکل جو فرانسیسی مصور پیبلو پکا سوکے بنے پوسٹروں پر ہوتی تھی۔ گھنگھریالے بال، گہری آنکھیں جن میں فکر اور شرارت ایک ساتھ رہتے، گھنی مونچھیں ، ایک ہاتھ میں ہر وقت سلگتا سگریٹ اور دوسرے ہاتھ کی انگشت شہادت تخاطب کے دوران سامنے والے کی سیدھ میں اٹھی ہوئی۔ انیس سو ستر کی دہائی والے پاکستان میں بائیں بازو کا طالب علم رہنما نذیر عباسی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے انقلاب کیلئے اپنی زندگیاں تیاگی ہوئی تھیں۔ اپنے آدرشوں کو وقف کی ہوئی تھیں۔ نذیر عباسی غریب گھر کا چشم و چراغ تھا وہ ملک میں اپنے تئیں واقعی غریبوں کا مقدر بدلنا چاہتا تھا ، ہاریوں کا مزدوروں کا۔ اور پھر وہ تاریک راہوں میں مارا گیا۔
وہ ضیاء الحق کے دور کا پہلا قیدی تھا جو بذریعہ تشدد قتل کردیا گیا اور ۔ نذیر عباسی کی بیوہ حمیدہ گھانگھرو اور اس کے ساتھیوں نے اس کی ہلاکت پر اس کے قتل کا الزام براہ راست اسوقت سندھ میں ایک ایجنسی کے انچـارج افسرپر لگایا ۔ شاید انیس سو چورانوے میں بینظیر بھٹو کے پچـھلے دور حکومت میں وزیر داخلہ کے حکم پر نذیر عباسی کے قتل کی ایف آئی آر درج کر کے ’’سربمہر‘‘ بھی کردی گئی تھی بلکہ کچھ اہلکاروں کے بطور گواہ بیانات بھی لئے گئے تھے ۔ بینظیر بھٹو کی خواہش پر ان کے تحت آئی بی یا انٹیلی جینس بیورو نے نذیر عباسی کے قتل کی تفتیش بھی شروع کی تھی لیکن ظاہر ہے کہ حکومت کے اپنے سیاسی مفادات و مصلحتوں کے تحت پھر بات آگے نہ بڑھی۔ یہ وہ بینظیر تھیں جو قومی مصالحت کے نام پر منافقت سے زیادہ واقف نہیں ہوئی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب انہوں نے آمر سے قومی مصالحت کے نام پر سمجھوتہ کیا تو پھر اسی قومی مصالحت میں قتل کردی گئیں۔ قومی مصالحت کے تحت ان کےقاتلوں کی اکیس توپوں کی سلامی دیکر رخصتی بھی کردی گئی۔ اس کی گواہی تو اس وقت کے آئی بی کے سربراہ بھی دیں کہ بینظیر بھٹو نذیر عباسی کے قتل کے کیس کھولے جانے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔شاید اس لئے کہ نذیر عباسی اور بینظیر کے والد اور بھائیوں کے قاتلوں کے کھرے ایک ہی گھر جگہ تک جاتے تھے۔ یقیناً بینظیر کے اپنے قاتلوں کے بھی، کس نے جانا تھا! اسی لئے تو بیگم نصرت بھٹو اس وقت کی حزب مخالف رہنما ملک کی واحد سیاستدان تھی جس نے نذیر عباسی کے قتل کی شدید مذمت کی تھی اور ملک میں سنسر کی وجہ سے بیگم بھٹو کا ایسا بیان صرف بی بی سی پر نشر ہو سکا ۔ جبکہ اپنے ملک کے اخبارات میں اسے غیر ملکی ایجنٹ اور غداروں کے گروہ کی گرفتاری اور ہلاکت میں شمار کیا گیا۔
نذیر عباسی کوئی ایلیٹ کلاس کا انقلابی نہ تھا جو سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوا تھا ۔ اور نہ ہی وہ آج کا امپورٹیڈ انقلابی تھا۔ وہ سکہ بند انقلابی تو ہوگا لیکن کنٹینر بند انقلابی ہر گز نہیں تھا۔ وہ جمہوریت پر یقین رکھنے والا تھا نہ کہ جمہوریت جو کہ جیسی بھی ہو کو روندنے میں شریک ہونے کو اپنے بوریا بستر باندہ کر آنے والا۔ انقلاب نہ نذیر عباسی کی عیاشی تھا ، نہ ذریعہ معاش اور نہ ہی اسے یا اس کے خاندان کو ترکے یا کلیم میں ملا تھا۔
نذیر عباسی سندھ کےشہر ٹنڈو اللہ یار کے ایک نچلے متوسط طبقے کے عرضی نویس جان محمد عباسی کے گھر پیدا ہوا تھا۔ نذیر عباسی جو اپنی تعلیم جاری رکھنے کیلئے بسوں میں چیزیں فروخت کرتا، چنگی منشی بھی بنا اور کالج کی تعلیم جاری رکھنے کو جب بڑے شہر حیدرآباد آیا تو رات کی شفٹ میں مل مزدوری کرتا اور صبح کو کالج جاتا۔ وہ پہلے سندھ اسٹوڈنٹس کلچرل آرگنائزیشن (ایس ایس کو) اور پھر جام ساقی کی سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا سرگرم رکن بنا۔نذیرعباسی اس دورکی پیدوارتھاجب طلبہ یونینوں پر پابندی بہرحال عائد نہیں ہوئی تھی، نہ ہی طالب علم رہنما کسی وڈیرے کے بیٹے یا ڈاکو کی طرح لگتے تھے۔ وہ ڈبل گھوڑا بوسکی اور کاٹن کلاس نہیں تھا۔ نہ ہی وہ ایسے طالب علم رہنمائوں کی طرح تھا جن کے فوٹو بعد میں سی پی ایل سی میں اغوا برائے تاوان کے ملزمان کی طور پر لگے نظر آئے۔
نذیر عباسی نے اپنی تنظیم سے ایک کامریڈ غلام رسول زرداری کو مبینہ طور پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پرتنظیم سے خارج کردیا تھا۔ غلام رسول زرداری اپنی نوجوانی میں نواب شاہ ہ میں آج کی ایک اہم سیاسی شخصیت کا بھی باس کہلاتا تھا۔ نذیر عباسی کی بطور طالب علم تمام جدوجہد کا زیادہ تر محور طلبہ مسائل ہی ہوا کرتے جنھیںوہ ملک کے کسانوں اور مزدوروں کی جدوجہد سے جوڑنا چاہتا تھا۔ وہ صحیح طور سندھ دھرتی کا بیٹا تھا جسے راتوں رات تین سو بےگناہ افراد کا لسانی و نسلی بنیاد پر قتل عام کر اکر سندھ کا چی گوئیرا کہلانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ نذیر عباسی پر امن جدوجہد میں یقین رکھتا تھا جسکا نعرہ تھا :تعلیم سب کا حق ہے نہ کہ رعایت۔ نذیر عباسی ذو الفقار علی بھٹو کے دور میں جب سندھ این ایس ایف کا جنرل سیکرٹری اور پھر صدر منتخب ہوا توزیادہ تر یا تو بھٹو کی جیلوں یا ریلوں یعنی روپوش رہا۔ بھٹو کے بدنام زمانہ قانون ڈی پی آر کا اس کی حکومت کے آخری دنوں تک قیدی رہا۔ جب سندھ یونیورسٹی کے سورمائوں نے سپر ہائی وے پر جاتے ہوئے اس وقت کے صوبائی وزیر بدیع الحسن زیدی کو اغوا کیا تو تمام سندھ میں قوم پرست و دیگر تنظیموں کے خلاف زبردست آپریشن ہوا جس میں قوم پرست و دیگر بھٹو مخالف سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں ہوئيں۔ مطلوبہ لوگ نہ ملنے پر پولیس نے ان کے والدین اور اہل خانہ یہاںتک کہ عورتوں اور شیر خوار بچوں کو بھی گرفتار کرلیا۔ جن میں نذیر عباسی کے والد اور شاہ محمد شاہ اور ابوبکر زرداری کی حاملہ اہلیہ بھی شامل تھیں۔
لیکن جب بھٹو کے خلاف یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ(یو ڈی ایف) بنا تو اس کے بنیادی اجلاس میں لاہورمیںجمہوریت مخالف قراردادپراعتراض کرنے پر نذیرعباسی کا سر خاکسار تحریک کے کارکنوں نے بیلچوں سے پھاڑ ڈالا۔ نذیر عباسی ایسا گاموں سچار تھا جو حق بات کہنے کے لئے موقع اور محل نہیں دیکھتا تھا ۔ جئے سندھ کے جلسے میں ایک شعلہ بیان مقررکو ٹوکنے پر جئے سندھ کے جیالوں نے نذیر پر تشدد کیا ۔ نذیر عباسی نہ قوم پرست تھا نہ کمیونسٹ تھا نذیر عباسی نذیر عباسی تھا اپنی مثل آپ جو سرزمین سندھ صدیوں کے بعد پیدا کرتی ہے۔ اسی لئے تو اسکی موت بھٹو کے بعد سب سے بڑی ’’شہادت‘‘ مانی جاتی ہے۔
نذیر عباسی ملک میں طلبہ مزدور کسان رابطہ کمیٹی میں انتہائی سرگرم رہا جسکے تحت ملک بھر کے بڑے شہروں میں ’’جمہوری قوتوں کی کانفرنس‘‘ کے نام پر جلسے منعقد کیے گئے۔ بھٹو دور میں سب سے بڑی حزب مخالف پارٹی خان عبد الولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی یا نیپ پر سپریم کورٹ میں ریفرنس کے ذریعے پابندی ڈالی گئی تھی ۔ نیپ اور بلوچ لیڈروں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔اورکراچی جیسے شہر میں جمہوری قوتوں کی کانفرنس کو روکنے کیلئےکٹر ک ہال پر بھٹو کی بدنام زمانہ فیڈرل سیکورٹی فورس کے دستوں کو تعینات کردیا گیا تھا لیکن رابطہ کمیٹی والے اپنا جلسہ مہاجر کیمپ میں کرنے میں کامیاب گئے تھے۔ اس جلسے میں نذیر عباسی نے روپوشی میں شرکت کی تھی۔
دوسرے شرکاء میں بیگم نسیم ولی خان، شیر باز مزاری، بیگم جنیفر عیسی (خیر بخش مری کی خوشدامن اور جسٹس فائز عیسی کی والدہ)، غلام احمد بلور، سینیٹر ہاشم غلزئی اور سینیٹر زمرد حسین، حبیب جالب بلوچ ، نفیس صدیقی ،اعزاز نذیر، حسن فیروز، زاہد مخدوم، شہنشاہ حسین، غلام محمد ہاشمی، رائو مہروز اختر، امداد چانڈیو، جیسے مقررین و مہمان مجھے آج بھی یاد ہیں۔ واپسی پر ہر چوک پر پولیس اور ایف ایس ایف نذیر عباسی کا پوچھتے رہے تھے جو کہ سینیٹر ہاشم غلزئی کی کار میں وہاں سے نکل گئے تھے۔ جلسہ باوجود علاقے کا پانی اور بجلی کاٹ دینے کے منعقد و جاری رہنے میں کامیاب گیا تھا۔ یہ تھا وہ بھٹو دور جسے جمہوری کہا جاتا ہے۔ایسی ایک جمہوری قوتوں کی کانفرنس حیدرآباد کے بسنت ہال میں ہوئی تھی۔نذیر عباسی کو آخر کار بھٹو حکومت میں گرفتار کرلیا گیا جو اس حکومت کے ضیاء الحق کے ہاتھوں ڈی پی آر قوانین ختم ہونے کے نتیجے میں باقی قیدیوں کے ساتھ رہا کردئیے گئے۔لیکن ملک میں ضیاء الحق کے مارشل لا ، بھٹو کی سزا کے خلاف نذیر عباسی ملک میں باقی جمہوریت پسندوں کے شانہ بشانہ انتہائی سرگرم رہے۔کلی کیمپ کوئٹہ میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ گرفتاری اور سخت تشدد سے گزرے۔ ہشت نگر (صوبہ پختونخوا) اور پٹ فیڈر کے کسانوں کی بھوک ہڑتال و جدوجہد میں اپنی ساتھیوں آصفہ رضوی اور حمیدہ گھانگھرو ( جو کہ نذیر عباسی کی اہلیہ بنیں) کے ساتھ شریک رہے۔ سندھ این ایس ایف کو ملک گیر طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف میں بدلنے کی کوششوں کے دوران اپنےساتھیوں پروفیسر جمال نقوی، شبیر شر، احمد کمال وارثی، سہیل سانگی، بدر ابڑو کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ دوران تحویل 9 اگست کو تشدد میں ان کی ہلاکت ہوئی۔مجھےیقین ہے کہ نذیر عباسی کے قاتل ایک دن ضرور انصاف کے کٹہرے تک پہنچیں گے۔ ایک ایسا ملک جہاں نظریہ ضرورت کے تحت غدار محب الوطن اور محب الوطن غدار کہلائے جاتے ہوں تاریخ میں دیر ہے اندھیر ہرگز نہیں۔ نذیر عباسی کی موت پر فہیمدہ ریاض نے لکھا تھا:
فریاد کٹہرے میں
رو رو کے تڑپتی تھی
قانون کے رکھوالے
کل لے کے گئے جس کو
اب اس کو یہاں لائیں
وہ نعش تو دکھلائیں۔
تازہ ترین