• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے مشرقِ وسطیٰ کے دل میں ’’اسرائیل‘‘ کی صورت خنجر گھونپا گیا ہے اس وقت سے اس کے پُرامن حل کے لئے کئی قراردادیں پاس ہوئیں۔ کئی فارمولے طے کرلئے گئے، لیکن اسرائیل ہٹ دھرمی کے ساتھ ہر قرارداد کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اسرائیل نے 1967ء میں القدس پر قبضہ کیا۔ اس وقت سے اب تک فلسطین کے مسئلے کو سلجھانے کے لئے ایک درجن کے قریب اہم عالمی سطح پر قراردادیں منظور ہوئیں۔ ان میں سے اکثر کو امریکہ نے ویٹو کردیا۔ پہلا امن فارمولا ایک سوئیڈش سفارت کار ’’فاک برنادوت‘‘ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کیا جس میں اہم بات یہ تھی بیت المقدس کو عربوں کے حوالے کرنے، حیفہ کو فری بندرگاہ اور ’’لُد‘‘ کو فری ائیرپورٹ بنانے کی تجویز تھی لیکن اسرائیلیوں نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ اس کے بعد عرب اسرائیل جنگ کی شدت ختم کرنے کے لئے سلامتی کونسل کی وہ قرارداد جس میں کہا گیا تھا اسرائیل نے فلسطین کے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، وہ فوراً خالی کردے۔ اس کے بعد 1969ء میں ’’ولیم پی راجرز‘‘ کی طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا گیا جس میں کہا گیا اسرائیل، مصر اور اُردن باہم مل کر 1967ء کی جنگ کے مقبوضہ علاقوں سے جارح فوجوں کے انخلا کا پروگرام مرتب کریں۔ پھر 1993ء میں ناروے کے شہر ’’اوسلو‘‘ میں اسرائیلی اتھارٹی اور یاسر عرفات کے مابین ’’اوسلو معاہدہ‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد 2002ء بیروت میں منعقدہ عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں ’’شاہ عبداللہ کا منصوبہ‘‘ کے نام سے ایک حل پیش کیا گیا۔ اس کے بعد 2003ء میں ایک روڈ میپ پیش کیا گیا۔ 2006ء میں فرانس، اٹلی اور اسپین کی طرف سے ایک امن منصوبہ بنایا گیا جس میں اہم بات یہ تھی فوری طور پر سیز فائر ہو اور ایک دوسرے کے قیدی رہا کردئیے جائیں۔مارچ 2007ء ریاض میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں ایک امن منصوبہ پیش کیا گیا۔17 مئی 2007ء میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے ایک دن پہلے جنرل پرویز مشرف نے العربیہ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھا : ’’ہم فلسطین اسرائیل تنازع حل کرانے کے لئے ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔‘‘، مگر افسوس صد افسوس! اسرائیل نے اپنی اسی روایتی ہٹ دھرمی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے اسے بھی مسترد کردیا۔ گویا 1967ء سے اب تک مختلف ممالک اور اہم شخصیات کی طرف سے درجنوں امن منصوبے پیش کئے گئے لیکن کسی کو امریکہ نے ویٹو کردیا تو کسی کو اسرائیل نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ جب غیرجانبدار ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جو اسرائیل کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کو خاک وخون میں تڑپادیا جاتا ہے۔ عیسائی ریچل کوری کی مظلومانہ موت کسے یاد نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں اوسط سالانہ 285 فلسطینیوں کو اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے شہید کیا۔ 9 دسمبر 1987ء سے 28 ستمبر 2000ء تک 1378 فلسطینی شہری شہید کئے۔ 29 ستمبر 2000ء سے 31 اکتوبر 2007ء میں 4304 افراد کو شہید کیا گیا۔ ان سالوں کے دوران 1144 بچے بھی شہید کئےگئے۔ صرف گزشتہ 7 برسوں میں اسرائیل کے ہاتھوں 863 بچے شہید کئے گئے۔ خود اسرائیل میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے سینٹر (Tselemb) کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ 7 برسوں میں 367 فلسطینیوں کو براہِ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 2043 ایسے فلسطینی شہریوں کو بھی شہید کیا گیا جو کسی قسم کی سیاسی کارروائیوں اور جلوسوں میں شامل نہیں تھے۔ ادھر فلسطینی مرکزی ادارہ برائے شماریات کے اعدادو شمار کے مطابق فلسطین میں 2005ء تک 13 لاکھ افراد غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ تعداد 2006ء تک 21 لاکھ سے تجاوز کرگئی تھی۔ اکتوبر 2007ء تک 8596 افراد اسرائیلی جیلوں میں قید تھے۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی عوام کو سزا دینے کی غرض سے اکتوبر 2001ء سے جنوری 2005ء تک 668 گھر منہدم کردئیے جس سے 4182 افراد بے گھر ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے 15 لاکھ فلسطینی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 1995ء سے 2005ء تک 11 برسوں میں 63 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ ’’Save the Children‘‘ کے اعدادو شمار کے مطابق 2000ء سے 2006ء کے دوران 68 خواتین نے چیک پوسٹ پر بچوں کو جنم دیا جس سے 4 خواتین شہید بھی ہوگئیں۔ جون 2007ء کے اختتام تک 426 فلسطینی بچے فلسطینی جیلوں میں قید تھے۔‘‘ اس ہو شربا رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ امن کانفرنسوں، معاہدوں اور امن فارمولوں کے باوجود فلسطینی عوام کے دکھوں، غموں اور پریشانیوں میں آئے دن اضافہ ہی ہورہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کا مسئلہ گزشتہ 66 سال سے سلجھنے میں نہیں آرہا بلکہ ہرسال مزید اُلجھ جاتا ہے۔ چھ دہائیاں گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ بھی فلسطین میں قیام امن نہ کرسکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے عالمی طاقتیں اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں۔ کوئی ببانگِ دہل تو کوئی پسِ چلمن ۔ فلسطین میں قیام امن کے لئے لازمی ہے کہ پہلے تمام متنازعہ امور طے کئے جائیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پڑوسی ممالک میں لاکھوں فلسطینی مہاجرین کو باعزت واپسی کا حق دیا جائے جو ان کا پیدائشی حق ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں مہاجروں کی سب سے بڑی تعداد اس وقت فلسطینیوں کی ہے۔ یہ تعداد 45 لاکھ ہے۔ فلسطینیوں کے ہر 10 میں سے 8 باشندے مہاجر اور پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ’’بن گوریان‘‘ نے ایک دفعہ یہاں تک کہا تھا کہ فلسطینی عربوں کو یہاں رہنے کا حق ہی نہیں ہے لیکن دوسری طرف یہودیوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ فلسطین میں آباد ہونا یہودیوں کا بنیادی حق ہے۔ کیا ’’انصاف‘‘ ہے کہ جن فلسطینیوں کے پاس اپنے گھروں اور دکانوں کی ملکیت کے قانونی کاغذات موجود ہیں وہ تو حق دار نہیں لیکن جن کے پاس کچھ بھی نہیں اور جن کو دنیا کے چپے چپے سے اکٹھا کرکے لایا گیا ہے وہ اس کے حق دار ہیں؟ بلکہ ہم یہاں تک کہتے ہیں کہ مہاجر فلسطینیوں کی وطن واپسی پر ان کے نقصانات کا ازالہ بھی کیا جائے۔ اسی طرح مغربی کنارے پر جو 6 سو کلومیٹر طویل حفاظتی دیوار تعمیر کی جارہی ہے اسے فی الفور ختم کیا جائے کیونکہ اس کا واضح مطلب فلسطینیوں سے جینے کا حق چھیننا ہی ہے۔ حاصل یہ کہ جب تک ان بے دخل لاکھوں فلسطینیوں کو واپس نہ لایا جائے گا اس وقت تک امن کانفرنسیں محض ڈرامے کی حیثیت ہی رکھتی رہیں گی۔ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کب اور کیسے ہوگی؟ آزاد فلسطین کی حدود اور بیت المقدس کی حیثیت کیا ہوگی؟ اگر فرض کرلیا جائے کہ دو ریاستوں کا ہونا ضروری ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس طرح اسرائیل کو اپنی حدود کا پابند کیا جائے گا اور 1947ء کے بعد اس نے جارحیت کا راستہ اپناکر عربوں سے جتنی زمین ہتھیالی ہے وہ دوبارہ ان ذرائع کو استعمال نہیں کرے گا۔ جب تک یہ سب باتیں پہلے متعین نہیں کرلی جاتیں اس وقت تک کسی نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں، البتہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے یہ ’’علامتی جنگ بندیاں اور امن معاہدے‘‘ ہوتے رہیں گے ۔
تازہ ترین