جب یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا ایک گاؤں بن رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں گندی نالیاں بہہ رہی ہیں اور ننگ دھڑنگ بچّے ایک لکڑی کی مدد سے پہیہ دوڑا رہے ہیں۔مغرب میں ،خصوصاً یورپ میں گاؤں سے مراد دنیا کے ہنگاموں سے پرے چھوٹے بڑے گھروندوں کی ایک بستی ہے جس کی اونچی نیچی گلیوں میں گھر گرہستی کا سامان خریدنے والی لڑکیاں ہنستی کھلکھلاتی چلی جاتی ہیں اور بڑی بوڑھیاں آنکھوں پر موٹا سا چشمہ لگائے یا تو کڑھائی کا کام کر رہی ہیں یا آنے والے جاڑوں کی تیاری کے خیال سے کچھ بن رہی ہیں۔ تو جب کہا جاتا ہے کہ دنیا سکڑکر ایک گاؤں بن رہی ہے تو مرادشاید ایسے ہی کسی ٹھکانے سے ہوتی ہے۔
جس مقام پر شہر کا دل ہو سکتا ہے ، لندن میں اس جگہ کا نام ٹریفل گر اسکوئر ہے۔ ایک بہت ہی کشادہ چوک جس میں کچھ تاریخی شخصیتوں کے مجسمے نصب ہیں ، کچھ فوارے شفاف پانی اگل رہے ہیں ، کچھ بڑے بڑے شیروں کے مجسمے ایستادہ ہیں اور سینکڑوں کبوتر جمع ہیں کیونکہ لوگ ان کو دانا ڈال رہے ہیں۔ اسی ٹریفل گر اسکوئر میں اس سال عید کا جشن منایا گیا۔ لندن شہر کے میئربورس جانسن اس معاملے میں ایک عجوبہ ہیں ۔ شہر اور شہریوں کے لئے بڑے بڑے کام تو کرتے ہی ہیں، مثلاً اپنا آنا جانا بائیسکل پر کرتے ہیں اور سارے شہرمیں کرائے کی سائیکلوں کے اڈّے قائم کردئیے ہیں ۔ لوگ کسی بھی اڈّے سے سائیکل لے کر اپنے کام کر کے وہی سائیکل کسی قریبی اڈّے پر چھوڑ سکتے ہیں۔ نہ کوئی نگراں، نہ چوکی دار اور نہ پارکنگ مافیا کے پرچی دینے والے اوباش لوگ۔ سارا نظام خود ہی چلتا رہتا ہے۔
ہم نے تو آج تک کوئی بائیسکل گم ہونے کی شکایت نہیں سنی۔ ان ہی بورس جانسن صاحب کو ایک اور نرالا شوق ہے اور ان کی خواہش ہے کہ لندن برطانیہ کا نہیں دنیا کا شہر کہلائے۔ ان کی دوڑ دھوپ کے نتیجے میں اس شہر کے قلب میں ہولی ، دیوالی ، عالمی موسیقی اور رقص و سرود کے جشن ہوتے ہیں اور ایک خلقت گھروں سے نکل کے وہاں پہنچ جاتی ہے۔ وہی ٹریفل گر اسکوئر جہاں لاکھوں لڑکے لڑکیاں نئے سال کا جشن مناتے ہیںا وربگ بین کا بڑا گھنٹہ گھر جوں ہی رات کے بارہ بجاتا ہے اور نئے سال کا پیغام دیتا ہے ، شدید سردی کے باوجود یہ مجمع یخ پانی کی حوضوں میں کود پڑتا ہے اور اپنی عمر کے اس موڑ پر جشن کا سماں پیدا کر کے ہر جانب خوشیاں بکھیرتا ہے۔
ہاں تو بات یہ ہورہی تھی لندن شہر کے قلب میں ہر ملک ہر علاقے کے لوگوں نے عید کا جشن منایا۔ لوگ اپنے اپنے علاقے کے رنگا رنگ لباس پہن کر آئے۔ رہی سہی کثر ایک فیشن شو نے پوری کردی۔ اوپر سے کئی اسلامی ملکوں کا ناچ گانا بھی ہواجس پر کہیں ملائیشا کا رنگ چڑھا تھا اور کہیں مراکش کے صوفیاء کے رقص کا سماں تھا۔ اس منظر کو چشم تصور ہی دیکھ سکتی ہے کہ بھانت بھانت کے لوگ جن میں سے اکثر زندگی میں پہلی بار ملے تھے، کیسے گھل مل کر یکجا ہوئے تھے۔ اس طرح وہ انسانی رشتہ استوار ہوتا ہے جس کے بارے میں اکثر کہتا ہوں کہ اس دور میں اس رشتے کا کوئی بدل نہیں۔دنیا سکڑ کر گاؤں بنے یا بستی، گھر سے گھر کے فاصلے بڑھنے لگے ہیں ۔ لوگ تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایک ہی شہر، ایک ہی محلے اور سچ پوچھئے تو ایک ہی گھر میں دیواریں اٹھ گئی ہیں جو ہر چند کہ نظر نہیں آتیں مگر ہیں۔ ایسی فضا میں نئی دوستیاں قائم ہونا، ایک دوسرے سے گھر کے پتے اور ٹیلی فون کے نمبر کا تبادلہ کرنا، یہ رسم اٹھتی جا رہی ہے۔ اگر میرا یا اس کا تعارف نہیں کرایا گیا ہے تو میں اس سے نگاہیں نہیں ملاؤں گا اور وہ مجھ سے بات نہیں کرے گا، یہ مغرب کا رویہ ہے جو ہماری اس سکڑتی ہوئی دنیا میں فروغ پارہا ہے۔ ایسے میں عید کا جشن اگر یہ دیواریں گرا دیتا ہے تو جشن کو دعا دینی چاہئے۔
اس قصّے میں ایک ایسے کردار کا ذکر آ چکا ہے جس کا نام ہم نے بڑی عیاری سے مٹا دیا ہے اور وہ ہے شہر کا مئیر ۔ اچھے دنوں میں لاکھ برائیاں رہی ہوں گی مگر ایک لاجواب کام سرزد ہوا تھا جسے آج ہم بلدیاتی نظام کہہ کر ایک آہِ سرد بھرتے ہیں اور جس کسی نے بھی اس نظام کو ملیا میٹ کیا ہے ، جمہوریت کا اس سے بڑا دشمن کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر وفاق اور مرکز ہی کو سب کچھ بنا دیا جائے اور شہروں، قصبوں اور دیہات میں لوگ اپنے نظام میں حصہ دار نہیں ہیں تو اس کو جو نام جی چاہے دے دیجئے، جمہوریت نہ کہئے۔ میں جہاں رہتا ہوں، اس علاقے کا سارا نظام لوکل کونسل چلاتی ہے۔ مجھے ویسٹ منسٹر میں بیٹھے ہوئے وزیروں سے غرض نہیں جن کو یہاں وزیر بھی نہیں کہا جاتا۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ میری کونسل کے علاقے میں لبرل پارٹی کی سرگرم کارکن محترمہ شاث Shas نے میرے اور میری بیوی کے نام اپنے ہاتھ سے لکھ کر عید کارڈ بھیجا ہے اور ہمارے گھر کے دو ووٹ پکّے کر لئے ہیں۔ الیکشن قریب ہو تو ہماری گلی میں آ نکلتی ہے اور دروازے پر کھڑی ہوکر میری بیوی سے دیر تک باتیں کرتی ہے، باتیں بھی سڑک کی حالت اور بجلی کے کھمبوں کی نہیں بلکہ ،مثال کے طور پر علاقے کے سوئمنگ پول کی جس کے نگراں نے اعلان کردیا تھا کہ جن لوگوں کو تیراکی نہیں آتی انہیں تالاب میں اترنے کی اجازت نہیں جب کہ جن لوگوں کے جوڑوں میں تکلیف ہوتی ہے انہیں پانی میں اتر کر ورزش کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ محترمہ شاث نے یہاں سے وہاں تک شور مچا کر یہ پابندی ختم کرا کے چھوڑی۔ وہ جو ہم رات دن سنتے ہیں، جمہوریت کا حسن، جمہوریت کا حسن،سب کہنے کی باتیں ہیں، بلکہ اس کو کہتے ہیں جمہوریت کا اصل روپ اور جمہوریت کا حقیقی رنگ۔
برطانیہ تو مادر جمہوریت ہے، ہمارے لوگ تو آئے دن ادھر کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور ہر چکر میں دو چار پراپرٹیز کا ملکیت نامہ اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں، وہ اپنی آنکھیں کھلی کیوں نہیں رکھتے ۔ کیوں نہیں دیکھتے بلدیاتی ادارے ہی اصل نظام چلاتے ہیں، ایم پیز یعنی ارکان پارلیمان کا کام نہیں کہ و ہ قانون سازی چھوڑکر بجلی کے کھمبے لگوائیں اور گندے پانی کی نکاس کابندوبست کریںاور اس بہانے اپنے الیکشن پر آنے والے اخراجات وصول کریں اور اگلے الیکشن جیتنے کے لئے سرمایہ کے انبار لگائیں۔ کبھی کبھی یقین نہیں آتا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ مجھے گوتم بُدھ یاد آتے ہیں جو بستی بستی جاکر لوگوں کو دنیا اور زندگی کے بارے میں اپنے نظریات سمجھانے کی کوشش کرتے تھے اور بستی سے جاتے ہوئے اپنے ملازم سے کہا کرتے تھے کہ میں حیران ہوں، لوگوںکو سیدھی سادی بات بتاتا ہوں لیکن ان کی سمجھ ہی میں نہیں آتی۔
پاکستان میں ہم بلدیاتی نظام کے کرشمے اور میئر کی بے مثال کارکردگی دیکھ چکے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے نقشے بدل گئے، حلیے تبدیل ہو گئے، راستے آسان ہو گئے اور منزلیں سہل ہو گئیں۔ پھر اچانک یہ ہوا کہ شہر تو باقی رہے ، ان کے میئر فنا ہو گئے۔ چلتا چلاتا نظام سیاست کے ملبے تلے اس بری طرح دبا دیا گیا کہ دبے ہوؤں کو سونگھ کر ان کی نشان دہی کرنے والے کتّے بھی ہار مان گئے۔ چلئے ، باقی دنیا کی بات جاری رکھتے ہیں جو سکڑ کر ایک گاؤں بنتی جا رہی ہے۔ برطانیہ کے ایک اخبار میں یہ خبر پڑھ کر ہنسی آئی کہ کبڈّی کا کھیل برطانیہ آرہا ہے۔ انگریز بے چارے بھنگڑا تو ناچنے لگے تھے ، اب پالا پار کر کے مخالف پالے میں جاکر ’کبڈّی کبڈّی ‘ کی صدا لگائیں گے اور وہ بھی اس شان سے کہ سانس نہ ٹوٹنے پائے۔ ہنسی یوں آئی کہ دنیا تو واقعی گاؤں بنتی جارہی ہے اور گاؤں بھی کہاں کا؟ہندوستان کا۔بس اب راستے میں ڈھابے کھلنے کی دیر ہے۔ وہ دن بھی دور نہیں جب ہمار ے سفید فام دوست مکئی کی روٹی پر رکھ کر سرسوں کا ساگ کھائیں گے جس پرگاؤں کا اصلی گھی پڑا ہوگا، اور گھی بھی کہاں کا؟