• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومتیں جب سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہونے لگتی ہیں، تو غیر سیاسی طاقتیں سر اُٹھاتی اور طوفان کھڑا کرتی رہتی ہیں۔ آج یہی کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ الاسلام طاہر القادری کا لہجہ روز بروز خونخوار ہوتا جا رہا ہے۔ وہ ’’مژدہ‘‘ سنا رہے ہیں کہ نواز شریف کی حکومت 31اگست سے پہلے ختم ہو جائے گی۔ اُنہوں نے اپنے جاں نثاروں کے نام ’’فرمان‘‘ جاری کر دیا ہے کہ اگر پولیس اُن کے گھروں پر چھاپے مارے ، تو جھتے اُن پر حملہ آور ہو جائیں اور تھانوں کا گھیراؤ کر لیا جائے اور پولیس افسروں کو گلیوں میں اور سڑکوں پر گھسیٹا جائے۔ قادری صاحب جنہوں نے پاکستان آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ شمالی وزیرستان کے متاثرین کے لئے خوراک اور ادویات کے تیس ہزار پیکٹ بجھوائیں گے اور شہروں اور قصبوں میں اُن کی امداد کے لئے عوامی تحریک چلائی جائے گی ، وہ سیاسی ہنگامہ آرائیوں میں یہ تمام باتیں فراموش کر بیٹھے اور ایک دوسرے ہی راستے پر چل نکلے ہیں ، حالانکہ اِس وقت سب سے بڑی قومی ضرورت متاثرین کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لینے اور اُن کی بے مثال قربانیوں کا صلہ دینے کی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کی جنگ لڑی جا رہی ہے اور ہماری مسلح افواج دہشت گردی کا مکمل صفایا کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ ہمارے بہادر افسر اور جوان انتہائی مشکل حالات میں سینہ سپر ہیں اور وطن کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ اربابِ دانش یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی متاثرین کے دل جیت کر حاصل کی جا سکتی ہے ، اِس لئے پوری قوم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مہاجرین کی عمدہ دیکھ بھال اور اُن کی واپسی کے لئے بہترین منصوبہ بندی کو اوّلین اہمیت دے اور عوام یومِ آزادی پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں کہ اُس نے ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا اور اُسے قائم رکھنے کی توفیق عطا کی ہے۔ اِس مبارک دن ہمیں اُن مجاہدین اور شہداء کے لئے ’’یومِ دعا‘‘ بھی منانا چاہیے جو پاکستان کا مستقبل محفوظ رکھنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ طاہر القادری کا ہدف وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف ہیں۔ اُن کا بنیادی مقصد احتجاج کی طاقت سے اُن کے خلاف سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کروانا اور اُسے آگے چل کر زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ اِس محاذ پر جناب احمد رضا قصوری بڑے سرگرم نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے والد کی بہیمانہ ہلاکت کا ذمہ دار وزیراعظم بھٹو کو قرار دیا تھا اور وہ اُن کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہی ایف آئی آر اُن کی سزائے موت کی بنیاد بنی تھی۔ اِس تناظر میں وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج نہایت خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ اِس وقت چوہدری شجاعت حسین شیخ الاسلام طاہر القادری کی پشت پر کھڑے ہیں جو بہت زیرک ہونے کے علاوہ تعلقات کا ایک وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ قادری صاحب کے محاذ پر درجۂ حرارت کم کرنے کے لئے جناب وزیر اعظم کو چوہدری شجاعت حسین سے رابطہ قائم کر کے اُنہیں اِس ضرورت کا احساس دلانا چاہیے کہ آپریشن ضربِ عضب میں فوج کی بھرپور کامیابی کے لئے قومی یک جہتی کا مظاہرہ ازبس ضروری ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ناسور ختم ہو جانے کے بعد پورے سسٹم کے اندر ایک تازہ روح بھی پھونکی جا سکتی ہے اور سیاست سے بدعنوان عناصر کی بیخ کنی کے ایجنڈے پر عمل درآمد بھی بڑی حد تک یقینی ہو جائے گا۔
عمران خاں کا مئی 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے اضطراب کسی قدر قابلِ فہم ہے۔ اُنہوں نے عام انتخابات میں 75 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے ، مگر اُن کے حصے میں قومی اسمبلی کی صرف 35نشستیں آئیں جبکہ مسلم لیگ نون نے ایک کروڑ پچاس لاکھ کے لگ بھگ ووٹوں سے 166نشستیں جیت لیں۔ پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے مقابلے میں ستر لاکھ سے بھی کم ووٹ لئے ، مگر 45نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اِس تفاوت سے پتہ چلتا ہے کہ انتخابی نظام کے اندر بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں۔ اِس مقصد کے لئے 33ارکان پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے انتہائی سمجھ دار اور تجربے کار لیڈر جناب قمر زماں کائرہ نے تجویز دی ہے کہ اِس کمیٹی کی سربراہی جناب عمران خاں کو سونپ دی جائے تاکہ وہ بہترین انتخابی اصلاحات نافذ کروانے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے قوم کو نہایت شفاف اور منصفانہ انتخابات کی ضمانت دے سکیں۔ دراصل حکومت نے اُن کے اِس ابتدائی مطالبے پر غور کرنے میں سنجیدگی سے کام نہیں لیا کہ چار نشستوں کی دوبارہ گنتی کرا لی جائے اور جو غلطیاں اور بے اعتدالیاں سامنے آئیں ، اُن کی بنیاد پر آئندہ کے لئے نظامِ انتخابات میں اصلاح کر لی جائے۔
ہمارے وزیر داخلہ نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چالیس نشستوں کا ریکارڈ کھول دینے کی پیشکش کر دی۔ اِس مقصد کے لئے کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ، لیکن نادرا کے چیئرمین کی برطرفی سے معاملہ ایک نیا رُخ اختیار کر گیا اور قانونی موشگافیوں کے اندر گم ہو گیا۔ سیاسی تنازعات حل کرنے میں اکثر اوقات وقت کی اہمیت سب سے زیادہ اور فیصلہ کن ہوتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ مسلم لیگ نون کی قیادت نے معاملہ فہمی اور دوراندیشی کا ثبوت نہیں دیا اور حالات پیچیدہ اور آتش بداماں ہوتے گئے۔
عمران خاں اِس وقت جلالی کیفیت میں ہیں اور حقائق شناسی کی روشنی اور استدلالی طاقت سے کٹتے جا رہے ہیں۔ وہ لمحہ بہت خطرناک ہوتا ہے جب لیڈر پر اشتعال غالب آ جائے اور ہر معقول بات کو مسترد کرنے کا جنون سوار ہو جائے۔ اگر آپ ایک بار اسٹریٹ پاور سے حکومت کو گرانے کا اعلان کرتے ہیں ، تو آپ آئین اور ریاستی اداروں کے وجود سے انکار کرتے اور افراتفری پھیلاتے ہیں۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے بادشاہت ختم کرنا چاہتے ہیں ، مگر یہ واضح نہیں کرتے کہ نئی حکومت کیسے قائم ہو گی۔ اگر انتخابات مروجہ نظام کے تحت منعقد ہوں گے ، تو نتائج کس طرح مختلف ہوں گے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہوسِ اقتدار نے اُنہیں صراطِ مستقیم سے کوسوں دور کر دیا ہے اور وہ بند گلی میں قید ہوتے جا رہے ہیں۔ اُن کے بیانات میں تضاد بڑھتا جا رہا ہے اور اُن کے ہم قدم ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمیں یومِ آزادی بڑے وقار اور جواں عزم کے ساتھ منانا چاہیے اور شمالی وزیرستان کے متاثرین کی دست گیری کا حق ادا کرنا چاہیے ، ہم شورشوں کے خوف سے سراسیمہ ہیں اور عجب عجب وحشت ناک آوازیں سننے میں آ رہی ہیں۔ عمران خاں فرما رہے ہیں کہ گولی چلانے والے پولیس افسروں کو میں اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا۔ ہم جس عمران خاں کو جانتے ہیں ، وہ تو بڑے مہذب انسان تھے اور علامہ اقبال کے فلسفۂ حیات پر ہمیں لیکچر دیا کرتے تھے۔
حکومت نے بڑی تاخیر سے درست حکمت ِعملی اپنائی ہے۔ اُس کی اصل قوت پارلیمنٹ ، اُس کی جماعت اور اُس کے مخلص کارکن ہیں۔ اُسے احساس ہو گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں غیر فعال ہو جانے سے جمہوری اور سیاسی عمل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور وزیراعظم اور اُن کے رفقاء بیوروکریسی پر زیادہ انحصار کرنے لگے ہیںجو اُنہیں غیر سیاسی ہتھکنڈوں کی طرف مائل کرتے اور انجانے خوف سے ڈراتے رہتے ہیں۔ آرٹیکل 245کے تحت فوج کو اسلام آباد میں بلانا ، یہ اُنہی کے ’’زرخیز دماغ‘‘ کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔ حکومت کو یہ نوٹیفیکیشن واپس لے کر زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کرنے کی حکمتِ عملی اپنانی چاہیے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے احتجاج کی سیاست سے الگ تھلگ رہ کر اپنے لئے اچھا مقام بھی حاصل کیا ہے اور جمہوری قوتوں کو بروقت کمک بھی فراہم کی ہے ۔ نظم و ضبط اور اعلیٰ اخلاقی اقدار ہی سیاست دانوں کی اصل طاقت ہے اور اِسی کے ذریعے بڑے بڑے تنازعات طے کیے جا سکتے ہیں۔ اب سیاسی جماعتوں کو خاندانی وراثت کے دہکتے حصار سے باہر آنا ہو گا۔
تازہ ترین