• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
10 اگست اور 14 اگست 2014ء کو یا اس کے بعد جو کچھ ہو گا ، اس کے بارے میں ہم سب اپنے حقیقی یا فکری مشاہدے سے بڑھ کر اندازے قائم نہیں کر سکتے ۔ اس کے علاوہ ہمیں ایسے معاملات میں الجھا دیا گیا ہے کہ ہمارا دھیان ایسے معاملات کی طرف نہ جائے ، جو طاقت کے اعلیٰ ترین مراکز میں طے ہو رہے ہیں لیکن ہماری اجتماعی دانش میں غیر محسوس طریقے سے پیدا ہونے والے سوالات پر ہم غور کریں تو ایسے بہت سے حقائق سامنے آ جاتے ہیں ، جنہیں جاننے کی ہم نے کبھی کوشش نہیں کی ہوتی ۔
ایک صحافی کی حیثیت سے میں انسانیت کی خدمت کرنے والے ممتاز سماجی رہنما مولاناعبدالستار ایدھی کی 1996ء کی پریس کانفرنس کو نہیں بھولا ، جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ کچھ لوگ ان کے پاس آئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے کے لیے ان کا ساتھ دیں ۔ اگر انہوں نے ( ایدھی صاحب نے ) ان کا ساتھ نہیں دیا تو انہیں جان سے مار دیا جائے گا ۔ ایدھی صاحب نے کہا کہ میں اس لیے ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔ جان کے خوف سے ایدھی صاحب واقعتاً ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی تھی ۔ بیرون ملک جا کر انہوں نے دھمکی دینے والوں کا نام لیا تھا ، جن میں عمران خان کا نام بھی شامل تھاجو پاکستان کی سیاست میں سب سے زیادہ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔ ایدھی صاحب کی پریس کانفرنس کے بعد بہت سےحلقوں نے ان لوگوں کی ’’ ڈاکٹرائن ‘‘ ( Doctrine ) کو سمجھنا شروع کیا ۔ جوحلقے معاملات کو تسلسل میں دیکھ رہے ہیں ، وہ اس طرح کی الجھن کا شکار نہیں ہیں ، جس طرح کی الجھن عام طور پر پیدا کر دی گئی ہے ۔ مولانا ایدھی نے اصل ’’ Doctrinaires ‘‘ کا بھی نام لیا تھا ، جو آج کل پس پردہ بہت سرگرم ہیں ۔
موجودہ حالات میں پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں نے جمہوری نظام کو پٹڑی سے اتارنے یا جمہوری حکومت کو غیر آئینی طور پر ختم کرنے کی مخالفت کر دی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زیادہ سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کے لیے عمران خان کے مطالبے کی حامی ہیں ۔ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ عمران خان موجودہ پارلیمنٹ کے ذریعہ انتخابی اصلاحات کرا کر تاریخ میںایک بہت بڑے کارنامے کا کریڈٹ لے لیں کیونکہ بے شمار کوششوں کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو بھی یہ کام نہیں کرا سکی ہیں مگر عمران خان یہ کریڈٹ اپنے نام نہیں کرا سکیں گے کیونکہ وہ جس طرح کی سیاست کر رہے ہیں ، اس میں انتخابی اصلاحات کو روکنا مقصود ہے ۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران ہونے والے واقعات کا تذکرہ بھی یہاں ضروری ہے ۔ اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور ملک کی تمام قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعتیں انتخابی اصلاحات کا فیصلہ کر چکی تھیں لیکن ان قوتوں نے یہ کام نہیں کرنے دیا ، جو آج عمران خان کے منہ میں یہ بات ڈال رہی ہیں کہ 2013ء کے عام انتخابات میں بہت دھاندلی ہوئی تھی ۔حالانکہ عمران خان سے زیادہ پاکستان پیپلزپارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کی بات کر رہی ہیں لیکن ان کی بات کو اہمیت اس لیے نہیں دی جا رہی کہ وہ اس طرح کا کام نہیں کر سکتی ہیں ، جو عمران خان کر نے کے لیے تیار ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ موجودہ حکومت اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم ( فخرو بھائی ) کو پارلیمنٹ کی قائم کردہ انتخابی اصلاحات کی کمیٹی میںطلب کرے اور ان سے الیکشن کمیشن پر لگائے جانے والے دھاندلی کے الزامات کا جواب حاصل کرے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ فخرو بھائی اگرچہ بہت کچھ بولنا چاہتے ہیں لیکن وہ تھوڑی سی بھی بات کر لیں تو عمران خان کے احتجاج کی بنیادیں منہدم ہو جائیں گی ۔ پوری دنیا کو یاد ہو گا کہ الیکٹرونک ووٹر مشینیں منگوانے کا اعلان ہو گیا تھا اور حکومت پاکستان نے اس مد میں 14 ارب روپے بھی جاری کر دیئے تھے لیکن بعض قوتوں نے یہ کام نہیں ہونے دیا ۔ انتخابات کے لیے اور بھی بہت سے اقدامات پر اتفاق رائے ہو گیا تھا لیکن ان اقدامات کو سبوتاژ کیا گیا ۔ انتخابی اصلاحات اور شفاف انتخابات کرانے کا اس سے بہتر موقع کوئی اور نہیں تھا، جب حکومت ، اپوزیشن کی جماعتیں اور الیکشن کمیشن سب کا اتفاق تھا اور فخرو بھائی تاریخ میں کریڈٹ بھی لینا چاہتے تھے ۔ اس موقع کو نہ صرف ضائع کیا گیا بلکہ انتخابات میں ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ بعض غیر مرئی قوتوں کے ’’ ڈیزائن ‘‘ کے مطابق نتائج سامنے آئے ۔ کئی سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کے لیے خطے میں جو ’’ سیاسی انتظام ‘‘ کیا جائے ، اسے قبول کر لیا جائے ۔ اس پر بھی عمران خان خاموش رہے ۔ اب کیا وہ قوتیں پاکستان میں شفاف انتخابات کے لیے کوئی ایسا نظام وضع کریں گی ، جو 1947ء سے اب تک ان کی سیاست کے پورے ڈھانچے کو مسمار کر دے اور اس کے ملبے تلے تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بھی دب جائیں ۔ موجودہ الیکشن کمیشن کے ایک رکن 2013ء کے عام انتخابات کے بارے میں کتاب لکھ رہے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ کتاب ان کی موت کے بعد شائع کی جائے ۔ اس کتاب سے پتہ چل جائے گا کہ کون لوگ ملک میں شفاف انتخابی اصلاحات اور نظام وضع نہیں کرنے دیتے ۔ یہ کتاب تو آنے والی نسلوں کو بہت سی الجھنوں سے نجات دلا دے گی لیکن موجودہ نسلوں کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری جو کچھ کرنے جا رہے ہیں ، اس سے نہ تو ملک میں شفاف انتخابات کا نظام وضع ہو گا اور نہ ہی ’’ یوٹوپیائی ‘‘ جمہوریت قائم ہو گی ۔ 10 اور 14اگست کو عوامی تحریک اور تحریک انصاف کو بڑا سیاسی مظاہرہ کرنے سے حکومت روک دیتی ہے یا دونوں سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں یا کوئی نا خوشگوار صورت حال پیدا ہو جاتی ہے ، تینوں صورتوں میں بعض قوتوں کا مقصد حاصل ہوتا ہے ۔ ملک میں مجموعی طور پر کوئی تحریک نہیں ہے ۔ لاہور اور اسلام آباد کے شو مصنوعی ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے افسوس ناک واقعہ پر بھی پورے ملک میں حالات خراب نہیں ہوئے ۔ 10 اور 14 اگست کے حوالے سے جس اسکرین پر ہماری نظر ہے ، ہمیںاس کے پیچھے ہونے والے واقعات کے نتائج کا انتظار کرنا ہو گا ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ افغانستان میں کیا ہوا ہے ، وزیرستان میں ہونے والا آپریشن کیا رخ اختیار کرتا ہے ، خلیجی ممالک اور مشرق وسطیٰ کی سیاست میں پاکستان کو کتنا گھسیٹ لیا گیا ہے ۔ جمہوری عدم استحکام کے لیے کون سے مستقل عوامل پیدا ہو گئے ہیں ، 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے اور انتخابی اصلاحات کے عمل کو روکنے کے لیے کہاں کہاں سے دباؤ پیدا ہو گیا ہے اور سب سے بڑھ کر ان لوگوں کے لیے حیرت انگیز حقائق سامنے آ سکتے ہیں ، جو اس خطے کی تیل و گیس کی سیاست اور دنیا کی انتہائی طاقت ور ایجنسیوں اور افراد کی سیاست کے تناظر میں حالات کو بہت گہرائی سے دیکھتے ہیں ۔ عہد جدید کے سیاسی ڈراموں میں ظاہری کرداروں کے مبہم مکالمات کو سمجھنے کے لیے پس پردہ کرداروں کی کردار نگاری ہونی چاہئے اور اس کے لیے آج ایک اور شیکسپیئر کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین