• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے آقا و مولیٰﷺ کا فرمان ہے کہ ’’حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ‘‘ چنانچہ جہاں سے بھی ملے، لے لو۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ حکمت و دانش کا ہم سے بڑا دشمن ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔گفتار کے بادشاہ اور عمل میں فقیروں کے فقیر۔ زبانی کلامی جمہوریت کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے اور عالم یہ ہے کہ ہم سے بڑا جمہوریت کش روئے زمین پر نہ ہو گا بے صبری قوم، بے صبرے لیڈر ۔ ہر کوئی جلدی میں، ہر کوئی ہتھیلی پر سرسوں اگانے کے درپے، باری کا انتظار ،نامنظور اور قطار میں لگنا سراسر توہین، اپنی ذات میں عقل کل اور باقی زمانہ جاہل و جامد ،سو ہر کوئی اپنے آپ کو پرائم منسٹر سٹف سمجھتا ہے۔کم تر پوزیشن نوکروں چاکروں کو البتہ دی جا سکتی ہے۔ تبدیلی اور انقلاب کے ایسے ایسے داعی کہ دنیا بھر کے سوشل سائنٹسٹ محو حیرت کہ وہ تو آج تک گھاس ہی کھودتے رہے۔ کوئی ان سے ہوم ورک کا پوچھ بیٹھے تو مخاطب کو خالی نظروں سے گھورتے ہیں کہ وہ کس بلا کا نام ہے ؟ حالانکہ موجودہ حکومت راندہ درگا ہ اور اس کی سب پالیسیاں بھی غلط۔ تو یقیناً ان شاہ سواروں نے اپنے طور پر کچھ کام کیا ہو گا،ہر ہر پالیسی کے متبادل خدوخال مرتب کئے ہونگے۔ اگر یہ حکومت قوم کو ڈبو رہی ہے تو ان کے پاس راہ نجات کا بلیو پرنٹ تو ضرور ہو گا دنیا بھر میں جہاں بھی جمہوریت نے نام کمایا ہے، گورنمنٹ ان ویٹنگ کا چلن ہوتا ہے جس کے پاس متبادل پروگرام، منصوبے اور پالیسی ہی نہیں شیڈوکیبنٹ کے نام سے متبادل کابینہ بھی موجود ہوتی ہے۔ متعلقہ ماہرین اور تھنک ٹینک ہمہ وقت سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ قارئین بخوبی جانتے ہیں۔
نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بار پھر بھارت کی مثال دینا پڑتی ہے کیونکہ ہماری ان کے ساتھ جنم جنم کی سانجھ ہے۔ صدیوں اکٹھے رہے۔ اکٹھے ہی غلامی سے نکلے اور آزادی کے سفر کا آغاز بھی ایک ساتھ کیا۔ اور مطلوبہ متاع(حکمت) اگر پڑوس میں ہی مل جائے تو کیا لازم ہے کہ اس کی تلاش میں امریکہ اور یورپ کی خاک چھانی جائے۔ وہ بھارت جس کی قیادت کٹر ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کر رہی ہے اور وزارت عظمیٰ کے سنگھا سن پر بعض لوگوں کی دانست میں، ایک متنازعہ شخصیت نریندر مودی براجمان ہیں، جن کے بارے میں اتر پردیش کے ایک کانگریسی مسلمان رکن لوک سبھا کہا کرتے تھے ’’میاں، کس کی بات کرتے ہو؟ گجرات کا کندہ نا تراش ؟ جو اپنے کنبے کو نہ سنبھال سکا۔ وہ اتنے بڑے دیش کو بھلا کیا سنبھال پائے گا ؟ مگر حقائق کھل رہے ہیں کہ گجرات کے اس اجڈِ،نیم خواندہ اورخانگی تربیت سے محروم نریندر مودی نے زیادہ محاذ نہیں کھولے۔ کام سے کام رکھا۔سیاست کو مشن اور ریاضت کے طور پر لیا،جس کیلئے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا۔ گجرات کی طویل وزارت اعلیٰ کے آخری پانچ برسوں میں تو گویا اس نے اپنے مختصر سے چیف منسٹر سیکرٹریٹ میں پہلو بہ پہلو مرکزی حکومت کا سیکرٹریٹ بھی کھول رکھا تھا۔جہاں سے دہلی سرکار کو پوری طرح سے مانیٹر کیا جاتا رہا کہ وہاں کیا صحیح ہو رہا ہے اور کیا غلط ؟ اور خصوصی توجہ اس امر پر تھی کہ اگر ہمیںموقع ملا تو غلطی کی اصلاح کیو نکر کی جائے گی۔ نریندر مودی کی اس گورنمنٹ ان ویٹنگ نے جملہ حکومتی شعبوں کے حوالے سے نہایت جامع قسم کے پالیسی پیپر تیار کئے، جن میں سے صرف ایک جھلک قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
’’افواج ہند کی مکمل اوور ہالنگ اور ان کے زیراستعمال سامان حرب کو جدید بنانے کے حوالے سے بحثیں ایک مدت سے چلتی آرہی ہیں۔ جس میں انڈین ائیرفورس کا ہوائی بیڑہ بھی شامل ہے۔ کانگریس سرکار جب سے اقتدار میں آئی ہے، اس مسئلہ پر سر جوڑ کے بیٹھی ہے۔ جو ایک وسیع اور پیچیدہ سبجیکٹ ہے، اور جس پر زیادہ سے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اس سمت ہمیں دھیرج سے آگے بڑھنا ہوگا، اور جلدی میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم الٹا پڑ سکتا ہے۔ آزادی کے بعد سے ملکی دفاعی ضروریات کا زیادہ تر دارومدار درآمدات پر رہا ہے۔ جسے بھارت جیسے سائز اور وسائل والے کسی بھی ملک کے لئے نرم سے نرم الفاظ میں باعث شرم ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس سارے عرصے میں دفاعی بجٹ کی بندر بانٹ ہوتی رہی ہے۔ رشوت اور کمیشن کے قصے زبان زدعام ہیں۔ ایک لوٹ کا سماں رہا ہے۔ بھوکے ننگے ہندوستانیوں کی قیمت پر دساور کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی تجوریاں بھری جاتی رہی ہیں۔ مگر اب اس ہڑبونگ کی راہ بند کرنا ہوگی۔ ہم وہی اسلحہ خریدیں گے، جس کی پروڈکشن بھارت کی سرزمین پر ہوگی۔ ہماری سپاہ کے استعمال میں زیادہ تر اسلحہ روسی ساخت کا ہے، جو ازکار رفتہ ہوچکا۔ آنے والے برسوں میں اپنی بری، بحری اور فضائی افواج کی تشکیل نو کے لئے ہمیں مختلف النوع اسلحہ اور سامان حرب کی ضرورت ڈھیروں کے حساب سے ہوگی۔ جسے ہم اپنے طور پر پورا کرنے کے اہل نہیں۔ ظاہر ہے باہر کے لوگ آئیں گے۔ وہ بڑی خوشی سے آئیں۔ ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے اور ہر ممکن سہولت بھی فراہم کریں گے۔ وہ آئیں، بھارت دیش میں سرمایہ کاری کریں۔ سامان حرب کی فیکٹریاں لگائیں، ہماری ضرورت کا ہمیں دیں اور جو باقی بچے، بخوشی دساور بھجوا دیں۔ جس کے لئے انہیں سرکار کی جانب سے مکمل تعاون حاصل رہے گا۔ مگر یہ سب کسی قاعدہ، کلیہ کے تحت ہوگا اور متعلقہ تکنیکی مہارت بتدریج بھارت کو منتقل کرنا ہوگی۔ بی۔جے۔پی انڈین ائیرفورس کے ہوائی بیڑے کی اوورہالنگ اور متعلقہ مسائل کا دلچسپی سے جائزہ لیتی آئی ہے۔ فائٹر جیٹ طیاروں کی مکمل رپلیسمنٹ یقیناً وقت کا اہم تقاضا ہے۔ مگر فیصلہ خوب ٹھونک بجاکر کیا جانا چاہئے۔ اس حوالے سے معمولی سی چوک بھی مستقبل میں بےپناہ مشکلات پیدا کرسکتی ہے‘‘۔
اس معاملہ میں مودی سرکارکی دلچسپی ملاحظہ ہو کہ اس کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی بھارتی ماہرین متعدد امریکی اور یورپی طیاروں کی تفصیلی جانچ پرکھ کے بعد دو طیاروں کو شارٹ لسٹ کرچکے تھے۔ فرانسیسی فرم ڈیسالٹ ایوی ایشن کی تخلیق رافیل (Rafale) اور برطانوی کمپنی کا یورو فائٹر ٹایفون۔اگرچہ انڈین ائیرفورس کا جھکائو فرانسیسی رافیل کی طرف ہے، مگر مودی سرکار نے معاملہ ہنوز اوپن رکھا ہے۔ آرڈر126 طیاروں کا ہے۔ رافیل کی صورت میں کل خرچہ پندرہ بلین ڈالر ہوگا، جبکہ برطانوی فرم اسی صلاحیت کا طیارہ اس سے کہیں کم قیمت پر سپلائی کرنے پر آمادہ ہے۔ برطانوی اور فرانسیسی ماہرین اور وزرائے خارجہ اس حوالے سے بھارت یاترا کرچکے ہیں۔
پیسے مودی صاحب کی جیب سے نہیں جائیں گے، مگر دیش بھگتی کا تقاضا کہ برسوں سے معاملہ پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور اب موقع ملا ہے تو پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں معاملہ کچھ اور طرح کا ہے۔ لکھت پڑہت میں ہم ماٹھے اور پیش بینی و پیش بندی میں صفر۔ ’’جب ہوگا، دیکھا جائے گا‘‘۔ من حیث القوم ہمارا ماٹو ٹھہرا۔ ہم نے اپنی تمام تر نالائقیوںں کو سول، ملٹری ریلیشن شپ کے پہاڑ پیچھے چھپا رکھا ہے اور مظلومیت کی بکل ماری ہوئی ہے۔ ایک لایعنی قسم کا بیانیہ سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ ’’فوج کام کرنے نہیں دیتی، سول حکومتوں کو چلنے نہیں دیتی، جب چاہتی ہے اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اچھی بھلی تکڑی و توانا منتخب حکومت حلف بھی نہیں اٹھا پاتی کہ سیاسی یتیموں اور بے روزگاروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتا ہے۔ پانچ برس کا انتظار ان کے لئے سوہان روح بن جاتا ہےاور پھر یہ مٹھی بھر راندہ جمہور مخلوق اپنا کیس کچھ اس طور بلڈاپ کرتی ہے کہ سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ جاتا ہے۔ وقفے وقفے سے یہی کچھ ہوتا آیا ہے، اور آج بھی بعض عناصر اسی کے لئے بائولے ہوئے جارہے ہیں۔ کیا اس ملک کی خاطر، اپنی آئندہ نسلوں کی خاطر، ہم اپنے جمہوریت کش رویوں سے دستبردار نہیں ہوسکتے؟
تازہ ترین