• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوں جوں 14اگست کا دن قریب آ رہا ہے سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ عمران خان دس لاکھ افراد کیساتھ لانگ مارچ کے فیصلے پر تاحال قائم ہیں۔ چار حلقوں میں انگو ٹھوں کے نشانات کی تصدیق سے آغاز ہونے والا مطالبہ اب ری الیکشن کے تقاضے میں ڈھل چکا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت متواتر اس تاثر کی تشہیر میں مصروف ہے کہ اسے کسی لانگ مارچ کی پروا ہے نہ خوف ۔ مگر در حقیقت حکومت اس متوقع لانگ مارچ کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہے۔ امن و عامہ کی صورتحال کے تناظرمیں یہ فکر مندی قابل تائید بھی ہے۔
ایک طرف پاکستان تحریک انصاف لانگ مارچ کے ذریعے ملک میں تبدیلی کی دعویدارہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ انقلاب کے علمبرداروں میں گجرات کے چوہدری برادران اور فرزند لال حویلی شیخ رشید احمد پیش پیش ہیں ۔ ماضی میں جنرل مشرف کے دست راست رہنے والوں کے منہ سے انقلاب ، احتساب اور شفاف انتخابی نظام کے ملفوظات انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا معاملہ بہر حال ایک سنجیدہ امر ہے۔ آغاز میں انتخابی اصلاحات کا تقا ضا تحریک انصاف کی جانب سے سامنے آیا۔ مگر یہ تقا ضہ محض سیاسی نعرہ بازی تک محدود رہا۔ پی ٹی آئی اسمبلی میںبل پیش کرنے جیسے عملی اقدام سے گریزاں رہی۔ اگر انتخابی اصلاحات کمیٹی کا قیام پی ٹی آئی کے دبائو کا شاخسانہ قرار دیا جائے تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ اس پیش رفت کا تمام تر کریڈٹ حکومت ہی کو جاتا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ تحریک انصاف بھی اس کمیٹی کا حصہ ہے۔ تاہم لانگ مارچ کا ارادہ ہنوزبر قرار ہے اور ماضی قریب میں غیر جمہوری اقدامات سے گریز کرنے کے تمام تر اعلانات کے بر عکس اب عمران خان کھلے بندوں اعلان کر چکے ہیں کہ دھاندلی کا فیصلہ پارلیمنٹ کے بجائے ڈی چوک میں ہو گا اور وہ اس حکومت کو چلتا کریں گے۔یعنی جس جمہوری نظام کا وہ گزشتہ چودہ ماہ سے حصہ ہیں اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔ اسی نظام کے تحت ان سمیت پی ٹی آئی کے دیگر منتخب اراکین نے اسمبلی میںحلف اٹھایا۔ اسی نظام کے تحت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اسی نظام کے تحت عمران خان نے بطور اپوزیشن رہنما ،وزیر اعظم کیجانب سے بلائی گئی اے پی سی میں شرکت کی اور انہیں اپنے گھر مدعو بھی کیا۔ یہ امر سمجھ سے بالا تر ہے کہ عمران خان یکدم اس نظام کو تلپٹ کرنے پر کیوں مصر ہیں ۔ غالباً انہیں باور کروا دیا گیا ہے کہ موجود ہ حکومت کے خاتمہ کی صورت میں ہی وہ بر سر اقتدار آ سکتے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں ایسی سیاسی محاذ آرائی اور تصادم بسا اوقات جمہوری نظام کے خاتمے پر منتج ہوا۔حیران کن امر ہے کہ چار حلقوں کا معاملہ اسقدر اہم تھا تو بنی گالہ ملاقا ت میں وزیر اعظم سے اس کا ذکر کیوں نہ کیا گیا۔مزید برآں گذشتہ ایک برس میں الیکشن ٹریبنلوں میں اس معاملہ کو انجام تک پہنچانے میں تغافل کیوں برتا گیا۔ٹھوس شواہد کی فراہمی ممکن بنائی گئی اور نہ ہی متواتر عدالتی سماعت۔ بجا کہ دھاندلی ہمارے انتخابی نظام کا حصہ رہی ہے۔ حتی کہ سیاسی جماعتوں کے جماعتی انتخابات بھی اس سے مبرا نہیں ہوتے۔ خود تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات میں دھاندلی کے واقعات رونما ہوئے۔ سو حالیہ انتخابات کو بھی سو فیصد شفاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مگر یہ نکتہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ 2013کے انتخابات ماضی کی بہ نسبت قدرے شفاف تھے۔ جن میں بد انتظامی کے قابل ذکر واقعات سامنے آئے۔ اکا دکا دھاندلی کے واقعات بھی، جو قابل گرفت ٹھہرے ۔تاہم جس قدر وسیع پیمانے پر دھاندلی کا ذکر تحریک انصاف کی جانب سے کیا جاتا ہے وہ درست نہیں۔
ان انتخابات میں ملکی و بین الاقوامی مبصرین کی بڑی تعداد مانیٹرنگ کے لئے مو جود تھی۔ یورپین یو نین ، دولت مشترکہ، نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس، اقوام متحدہ، انٹر نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن، ایشین نیٹ ورک فار فری الیکشن ، جنڈر کنسرن انٹر نیشنل کے علاوہ حکومت جاپان کے مبصرین نے بھی انتخابات مانیٹر کیے۔ مزید برآں آئی آر آئی،گیلپ، فافن نے سروے اور جائز ے کنڈکٹ کئے۔ مگر کسی نے بھی عمران خان کے خدشات اور الزامات کی تصدیق نہیں کی۔ پلڈاٹ نے 2008 , 2002 اور2013 کے انتخابات کے انتظامات ، ساکھ اور شفافیت کو سائنسی طور پر وضع کردہ پیمانے پر پرکھا ۔ نتیجہ یہ رہا کہ 2013کے انتخابات گزشتہ دو انتخابات سے کہیں زیادہ شفاف قرار دئیے گئے۔اس کے باوجود عمران خان دوبارہ انتخابات پر بضدہیں۔ بفرض محال یہ مطالبہ مان لیا جاتا ہے تو نوے روز کے اندر یہ انتخابات کس نظام کے تحت ہوں گے؟ْ اسی الیکشن کمیشن کے تحت جسے عمران خان جانبدار قرار دے چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی صورت میں بھی آئینی طور پر عمران خان کا اس میں کوئی کردار نہیں بنتا۔ نگران حکومتوں کا قیام بھی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کا مرہون منت ہے ۔ اس نظام اور طرز مشاورت میں تبدیلی کے لئے آئینی ترمیم کرنا پڑے گی۔ جو صرف پارلیمنٹ میں ہی کی جا سکتی ہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ انتخابی نظام کی درستی کیساتھ ساتھ حکومت کی اصلاح احوال کے لئے بھی پارلیمنٹ میںکردار ادا کریں۔
وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ عمران خان کو راضی کرنے کا اہتمام کرے۔ اگر مثبت جمہوری طرز سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں حکومت سازی سے دستبرداری اختیار کی جا سکتی ہے تو چار حلقوں کا معاملہ تو بہر حال معمولی نوعیت کا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ تصادم سے گریز کی خاطرہر حد تک جائے۔ عمران خان سے رابطہ کر کے کوئی مشترکہ طور پر قابل قبول حل نکالا جائے ۔ عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ شہباز شریف ان سے رابطے کر رہے ہیں ۔ شنیدہے کہ چوہدری نثار علی خان کو بھی یہ ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ عمران خان کو بھی سیاسی بلوغت اور پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان روابط کا مثبت جواب دینا چاہئے۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم سیاست کو کونسا رخ دینا چاہتے ہیں ۔ ایک طریقہ تو یہی ہے کہ معاملات کو مہذب جمہوری معاشروں کی طرح آئینی اداروں کے ذریعے حل کیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ غیر مہذب معاشروں کی طرح نہ عدالتی نظام کو اہمیت دی جائے نہ پارلیمانی بندوبست کو اور مسائل اسٹریٹ پاور کے زور پر حل کیے جائیں۔ پہلا طریقہ مسائل کے پائیدار اور جمہوری حل کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ہمارے سامنے امریکی انتخابات کی بڑی مثال موجود ہے جب الگور، بش کے مقابلے میں کہیں زیادہ پاپولر ووٹ لے کر اس لئے ناکام قرار دئیے گئے کہ ایک عدالتی فارم نے صرف ایک ووٹ کی بر تری سے جارج بش کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔ اس وقت الگور نے کہا تھا کہ میں ان انتخابات کو عوام میں بھی چیلنج کر سکتا ہوں اور مختلف عدالتی فارمز پر بھی لیکن میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور اس کے منصب صدارت کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتا۔ کاش یہ اسپرٹ ہمارے ہاں بھی ہوتی۔
خان صاحب سمیت ہر جماعت کے لئے آئینی راستہ کھلا ہے کہ وہ اپنی شکایات لے کر الیکشن ٹر بیونل کے پاس جائے۔ ایسا ہوا بھی۔ مختلف جماعتوں کی 413پٹیشنز ٹر بیونلز کے پاس گئیں جن میں سے صرف 70کے قریب فیصلہ طلب رہ گئیں ۔ اگر ان ٹربیونلز کے فیصلے پر بھی کسی کو اطمینان نہ ہو تو وہ ہائی کورٹ جا سکتا ہے۔ وہاں بھی مطمئن نہ ہو تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ اس میکنزم کے ہوتے ہوئے ا سٹریٹ پاور کو استعمال کرنا اور جلسے جلسوں کے ذریعے اپنی پسند کا فیصلہ مسلط کرنا جمہوری نظام کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے۔ اس سے صدیوں پرانا جنگل کا قا نون بھی واپس آسکتا ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اگر عمران خان ایک منتخب سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کل اسی لاٹھی کے زور پر مسلم لیگ (ن) انکی حکومت کا تختہ کیوں نہ الٹے گی۔ لہٰذا بہت اچھا ہو کہ تحریک انصاف تبدیلی کا سفر بیس پچیس سال پہلے کی فسادی سیاست کی طرف نہ موڑے بلکہ اسے مستقبل کی روشن جمہوری روایات کی طرف لے کر جائے۔ اس سے یقیناً کچھ دیر تو لگے گی لیکن عمران خان صحیح معنوں میں ایک مد بر سیاستدان اور مضبوط متبادل قیادت کے طور پر ابھریں گے۔
تازہ ترین