• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چشم بددور ....وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لے کر صوبائی دارالحکومت لاہور تک گڈ گورننس بھنگڑے، دھمالیں اور لڈیاں ڈالتی پھر رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے صرف ایک کنٹینر نے اسے ’’کنٹینر بابا‘‘ بنا دیا تو کنٹینروں کا اتوار بازار لگا دینے والوں کو ’’کنٹینر برادران‘‘ کیوں نہ کہا جائے؟ طاہر القادری نے تو پھر کرایہ ادا کیا یا کنٹینر خریدا ہو گا جبکہ کنٹینر برادران نے تو سینکڑوں کنٹینر مع سامان زبردستی اغوا کر لئے تاکہ گڈ گورننس کی ایک نئی اور انوکھی تاریخ رقم کر سکیں۔
یہ عجیب لوگ ہیں جو خود مارچ کریں تو درست کوئی اور کرے تو بغاوت، طاہر القادری کی تقریروں کو بغاوت قرار دینے والے جب صدر مملکت کے گلے میں رسی ڈال کر اسے سڑکوں پر گھسیٹنے کی خوشخبریاں سنا رہے تھے تو کس تہذیب کا پرچار کر رہے تھے؟ ڈھٹائی کا لیول ملاحظہ ہو کہ 6ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا بدترین جھوٹ بولنے والے آج یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے جھوٹ بولنے کا ریکارڈ قائم کر دیا، جن کی اپنی منی لانڈرنگ کا اعتراف ان کے اپنے کر چکے اور وہ بھی لکھ کر....آج اوروں کی منی لانڈرنگ کے ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں تو یہی وہ بدکار اور نابکار جمہوریت ہے جس کا جنازہ اٹھانے کے لئے میرے کندھے کب سے منتظر ہیں کہ کوئی نیوٹرل پارٹی آئے اور نتارہ کر کے قوم کو بتائے کہ کون کون کتنا بڑا ڈکیت ہے۔
میں اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنا بڑا تماشہ لگانے کی ضرورت کیا تھی؟ منہاج القرآن والوں نے اپنے بے گناہ اور معصوم ساتھیوں کی شہادت پر قرآن خوانی کا اعلان کیا اور اسے ’’یوم شہدأ‘‘ کا نام دیا تو اسے اس طرح روکنے کی کیا ضرورت تھی؟ قرآن خوانی کے بعد واپس چلے جاتے اور بالفرض وہ ایسا نہ کرتے اور ’’یوم شہداء‘‘ کی آڑ میں کسی بھی قسم کی تخریب کاری کرتے تو حکومت کے پاس بے پناہ قسم کا اخلاقی جواز ہوتا تو دوسری طرف عوام بھی ان سے بدظن ہو جاتے اور جس لغت ملامت کا ہدف اس وقت حکومت ہے....عوامی تحریک ہوتی کیونکہ اس بیکار بھونڈی ایکسرسائز نے عوام کو مزید عذاب میں جھونک دیا ہے۔ ایک اور خبر جو اللہ کرے غلط ہو کہ منہاج القرآن کے باہر بعض کنٹینرز میں زہریلا کیمیکل موجود ہے جو قیامت برپا کر سکتا ہے۔ نتیجہ؟؟؟
گڈ گورننس نے پھلجھڑی کو ایٹم بم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس پر مجھے بانکے شاعر اظہار الحق کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ ایک آدھ لفظ بھی اوپر نیچے ہو گیا تو ناصر زیدی کبھی نہ چھوڑے گا اس لئے شعر کا مفہوم نثر میں عرض کئے دیتا ہوں کہ غلام مشعلیں اٹھائے سراسمیگی کے عالم میں اس طرح بھاگے پھر رہے ہیں جیسے محل پر آسمان ٹوٹ کر گرنے کے قریب ہو۔
دعا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کا ایکش ری پلے میکر و لیول پر دکھائی نہ دے۔ خدانخواستہ ایسا کچھ ہوا تو عوام کے رستے روکنے والوں کو فرار ہونے کا ہر رستہ بند ملے گا اور آج جن کے پُر غرور سروں پر پھندنے سجے ہیں، ان کی گردنوں کے گرد پھندے دکھائی دیں گے۔
حیرت ہے ان کی عقلوں پر جنہوں نے عوامی تحریک کے کارکنوں کو انڈر اسٹیمیٹ کیا اور جو رہی سہی کسر تھی وہ شائد ڈاکٹر طاہر القادری کی گرفتاری سے پوری کرنے کی کوشش کی جائے جو بدترین فیصلہ ہو گا کیونکہ یہ صرف سیاست نہیں عقیدت کا معاملہ ہے اور عقیدت کسی بھی قسم کے انجام کو رتی برابر اہمیت بھی نہیں دیا کرتی۔
طاہر القادری کی یہ ’’کال‘‘ بھی بہت معنی خیز ہے کہ ...میرے اور عمران خان میں سے جو بھی پیچھے ہٹے، کارکن اس کا ساتھ چھوڑ دیں۔ ادھر عمران بھی اپنے کفن پوشوں کے ساتھ پوری استقامت کے ساتھ ڈاٹا ہوا ہے حالانکہ اس کی خوشامد کرنے، گھیرنے اور ’’پرچانے‘‘ کی بھرپور کوششیں کی گئی ہیں۔ عمران کو اپنے سٹینڈ پہ ڈٹے رہنے کے لئے دوہری داد ملنی چاہئے کیونکہ اس کی صفوں میں ن لیگ کے نمک خوار بھی شامل ہیں جو اپنے اصلی آقائوں کی لائن پی ٹی آئی میں جلانے کا کام کرتے ہیں۔
جھڑپیں اور شہادتیں شروع ہیں، تھانوں پر حملوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں، کنٹینرز بھی الٹ رہے ہیں، پولیس اہلکار یرغمال بھی بنائے جا رہے ہیں، دو بدو جنگ بھی جاری ہے اور اب تک یہ سب کچھ مخصوص کارکنوں اور حکومت کے درمیان ہو رہا ہے۔ صورتحال کو بروقت نہ سنبھالا گیا تو معاملہ ’’مخصوص کارکنوں‘‘ سے نکل کر عوام تک بھی پھیل سکتا ہے اور اگر عوام بھی اس میں شریک ہو گئے تو پھر یہاں کا چپہ چپہ تحریر سکوائر سمجھو بلکہ شاید اس سے بھی کچھ آگے کیونکہ عوام کی رگوں میں نفرت اور زہر کا سمندر موجزن ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ طاقت پر انحصار سے گریز کرے کیونکہ تحریکی کارکنوں والا وائرس بڑی سطح پر عوام میں بھی سرائیت کر گیا تو قیامت سے کم نہ ہو گا۔
تازہ ترین