• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تو نہیں معلوم کہ ’’مائنس ون فارمولا‘‘ کی بات کب اور کہاں سے آئی ہے تاہم اخبارات میں اس کی بازگشت قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد سید خورشید شاہ کے حوالے سے سنی گئی جبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے عہدہ سے الگ ہوجائیں اس وقت ملک میں خصوصاً پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جو ’’دھما چوکڑی‘‘ مچی ہوئی ہے کہ جس کا جو جی چاہے تجزیہ پیش کر دیتا ہے ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو مائنس کر کے شہباز شریف یا چودھری نثار کو وزیراعظم بنا دیا جائے تو سیاسی طور پر موجود ہ تنائو پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ کیا ایسی کوئی تجویز ’’اہم کواٹرز‘‘ کی جانب دی گئی ہے یا کسی سطح پر زیر غور ہے ایک وجہ یہ کہ میاں نواز شریف جنہیں قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے کیوں وزارت اعظمیٰ سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہو جائیں اور یہ کہ اگر سیاسی طور پر حالات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں تو مخالفین صرف ایک شخص کے کہنے سے اپنے موقف اور مطالبات سے دستبردار ہو جائیں گے آزادی مارچ رک جائے گا اور انقلاب مارچ موخر کرانے میں کامیابی حاصل ہو سکے گی میرے خیال میں اس کا جواب نفی میں ہی ہے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تو اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا تاہم یہ ’’مائنس ون اور ٹو‘‘ کی بات نئی نہیں ہے۔
اپریل 1993ء میں جب ایوان صدر میں میاں نواز حکومت گرانے کے منصوبے مرتب ہو رہے تھے، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری سے بھی صدر اسحاق کی صلح و صفائی کے لئے محمود ہارون اور مرحوم غلام مصطفی جتوئی بڑے سرگرم تھے( واضح رہے کہ 1990ء کے الیکشن کے بعد جناب جتوئی وزارت عظمیٰ کے پکے امیدوار تھے۔ اس حوالے سے اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ سے بھی رابطے کئے گئے جناب جتوئی اس وقت نگران وزیراعظم تھے جنرل اسلم بیگ سے چار سینئر صحافیوں کی ملاقات کرائی گئی تاکہ جتوئی صاحب کی لابنگ کی جا سکے۔ اس ملاقات کا اہتمام حسین حقانی نے کرایا تھا جو نگران وزیراعظم کے معاون خصوصی تھے ایک اور صاحب ضیاء عباسی ہوا کرتے تھے وہ این پی پی کے لیڈر تھے اور بڑے سرگرم تھے جب بات نہ بنی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو جناب جتوئی ناامید ہو کر کچھ دور ہو گئے تھے۔) انہی دنوں اپریل کے دوسرے ہفتہ میں میاں شہباز شریف نے صدر اسحاق خان سے ملاقات کی میاں شہباز کے صدر اسحاق سے اچھے تعلقات تھے بعض امور پر صدر ان کو ہی بلا کر مشاورت کیا کرتے تھے۔ میاں شہباز شریف نے صدر اسحاق سے کہا کہ ’’ہمارا آپ کے لئے بڑا احترام ہے۔ آپ بھائی صاحب سے مل کر اختلافات دور کر لیں لوگ بڑی باتیں بنا رہے ہیں۔‘‘ صدر اسحاق خان نے وزیراعظم کے حوالے سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’میاں نواز شریف مجھے قبول نہیں ہے۔‘‘ میاں شہباز شریف نے اس بات کو سنی ان سنی کر دیا اور بات کرنے لگے۔ میں یہ بات وثوق اور دعوے سے کر رہا ہوں کہ صدر غلام اسحاق خان نے 25منٹ کی اس ملاقات میں تین بار شہباز میاں کو وزارت اعظمیٰ کی پیشکش کی جب آخری بار انہوں نے اس بات کا ذکر کیا تو میاں شہباز شریف نے ان سے کہا کہ ’’جناب صدر! آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف میرے بڑے بھائی ہیں جن کی میں بڑی عزت کرتا ہوں میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میں ان کی جگہ وزیراعظم بن جائوں اور آپ کو بھی ایسی چھوٹی باتیں زیب نہیں دیتی اور یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ میاں نواز شریف نے صدر کی جانب سے حکومت کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں جو رٹ درخواست دائر کی تھی اس میں اس بات کا حوالہ دیا گیا تھا ’’ان کے چھوٹے بھائی کو وزارت اعظمیٰ کی پیشکش کی گئی تھی۔‘‘ ایک بار جب جولائی 1993ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز حکومت کی بحالی کے بعد صدر اسحاق خان سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے 27؍ مئی کو اخبارات کے ایڈیٹروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میں استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور فارسی کا شعر کا حوالہ دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس خیال میں نہ رہنا کہ شراب خانے کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے ابھی تو انگوروں کی بیل کے ریشوں میں ایسی ہزار شرابیں موجود ہیں جن کو چکھا بھی نہیں گیا۔ ان کا جواب تھا کہ ’’میرے‘‘ ترکش میں ابھی اور تیر باقی ہیں۔ قاضی حسین احمد نے صدر وزیراعظم کے اختلافات ختم کرانے کی کوششیں کی لیکن ناراضگی نفرت اور پھر انتقام میں تبدیل ہو گی اور جب بات بہت دور نکل گئی تو ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب یہ افواہیں خبر تک آ پہنچیں کہ ملک میں فوج برسراقتدار آنے والی ہے یا اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا۔
ان دنوں یہ شہباز شریف ہی تھے جو مقتدر حلقوں سے مسلسل رابطے میں تھے تاکہ حالات کو کسی نہ کسی طرح سنبھالا جا سکے اس وقت فوج کے سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ نے بھی ایک بار میاں شہباز شریف کو ’’اقتدار‘‘ کی پیشکش کی۔ ان کی جانب سے کہا گیا کہ میاں شہباز شریف آپ میرے چیف ایڈوائزر بن جائیں۔ ملکی حالات کو بہتر بنا دیں گے۔ لیکن شہباز میاں کا وہی جواب تھا جو اس سے قبل وہ صدر اسحاق کو دے چکے تھے اور دوسرا یہ کہ وہ کسی صورت کسی فوجی حکومت کا حصہ بننے کو تیار نہیں تھے۔ یہ درست کہ ہر دور میں شہباز شریف سے کاموں اور کارکردگی کی مقتدر حلقوں کی جانب سے تعریف کی گئی ہے اور بہت سے اچھے کاموں میں فوج کی خدمات بھی حاصل کی ان میں گھوسٹ تعلیمی اداروں اور بجلی چوری پکڑنے کے کام خاص طور پر شامل ہیں لیکن جو لوگ شہباز شریف کے مزاج سے آشنا ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’مائنس ون فارمولا‘‘ کا نہ تو کوئی وجود ہے اور نہ ہی ایسی کوئی بات قابل قبول ہے!!
تازہ ترین