• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہیں معلوم کیا ہونے جارہا ہے۔ ایک طرف تبدیلی متوقع ہے۔ دوسری طرف انقلاب کاشور ہے۔ اس کے ساتھ فتور و فساد کے مناظر بھی نظر آنے لگے ہیں۔پاکستان کے شہروں میں عجب کہانیاں بیان ہونے جارہی ہیں۔ یورپ میں ہمارے الطاف بھائی نے مواصلاتی رابطے پر کیا خوبصورت بات کی ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ حکومت ’’ٹھنڈا پانی پیئے اور دہی کھائے‘‘ اصل یہ نسخہ ہے جو عموماً درویش فقیروں کو دیتے ہیں جس میں سب کا بھلا اور سب کی خیر ہوتی ہے۔ مگر آج کے زمانہ میں کون خیر سناتا ہے اور کر بھلا ہو بھلا والاجملہ متروک ہے۔ سب کے سب تبدیلی اور انقلاب کی تنی رسی پر چل رہے ہیں۔ یہ تبدیلی کا راستہ تو ہوسکتا ہے مگر انقلاب کاشور و غل انقلابی نظر نہیں آتا۔
ابھی تک موسم گرما اور ماحول حبس زدہ ہے۔ فلسطین خون خون ہے۔ ہماری طرف کی ایک بی بی نے جو نعرہ مستانہ بلند کیا ہے وہ پاکستانیوں کے لئے قابل فخر ہی نہیں بلکہ عوامی لیڈروں کے لئے قابل غور بھی ہے۔ پاکستان میں غزہ کی صورتحال پر ہر دل پرملال ہے۔ برطانیہ میں حکمران جماعت کی وزیر محترمہ سعیدہ وارثی نے غزہ کی صورتحال پر برطانیہ کی پالیسی سے لاتعلقی کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ اپنا استعفیٰ وزیراعظم کیمرون کو دیا اور باور کرایا کہ برطانیہ کی پالیسی امن اورعلاقائی صورتحال کے لئے قابل برداشت نہیں۔ یہ فیصلہ ایک جمہوری معاشرہ میں ہی کیا جاسکتا تھا۔ سعیدہ وارثی ایک پرجوش مسلمان خاتون ہیں۔ وہ برطانیہ میں ہم پاکستانیوں کے مفادات کا خیال رکھتی ہیں۔ ان کے نظریات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ وہ اپنے حلقہ میں مقبول ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی نہ صرف علمبردار ہیں بلکہ انہوں نے اپنا موقف اس خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے کہ برطانیہ کی سرکار کو بھی سعیدہ وارثی پر فخر ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم نے ان کے اس اقدام کو پسند کیاہے اور ان کو ریاست اور سیاست کا سرمایہ بتایا ہے۔
ہمارامہربان دوست امریکہ غزہ کی دہشت گردی میں بنیادی انسانی حقوق کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے۔ امریکی عوام حیران ہیں مگر عوام کو کون خاطر میں لاتا ہے۔ مگراب حالات بدل رہے ہیں۔ سعیدہ وارثی جیسے آزادخیال دانشور حق اور سچ کیلئے کبھی بھی سودے بازی نہیں کرتے۔ ان کی آواز اب دنیا بھر میں گونج رہی ہے جو ظالموں اور دہشت گردوں کیلئے پہلی معتبر آواز مانی جارہی ہے۔ برطانیہ کی سیاسی اشرافیہ حیران ہے کہ وہ غزہ کے خون پرکیاجواز پیش کریں۔ جوشمع سعیدہ وارثی نے روشن کی ہے اس سے کتنے اور چراغ روشن ہوںگے۔ ہمارے ہاں کے اعلیٰ سرکاری ہرکارے اقوام متحدہ کو کوستے نظر آتے ہیں۔ غزہ اور فلسطین کیلئے ان کےپاس وقت نہیں ہے۔ ہمارے نیتا امریکہ، برطانیہ اور چین کادورہ توکرسکتے ہیں وہ غزہ کے بچوں کو تسلی بھی نہیں دےسکتے۔ ان کو اپنے اقتدار کی پڑی ہے۔ تبدیلی اور انقلاب کی چاپ نے ان کو پریشان کر رکھا ہے۔ حلیفوں سے سرگوشیاں جاری ہیں۔ کیا صاحب ِ اقتدار لوگ عوام کے لئے تبدیلی نہیں چاہتے؟ ان کی طرز ِ زندگی، ان کی باتیں عوام کے دکھوں کا مداوا کرتی نظر نہیں آتی۔ کاش وہ خود ہی تبدیلی کے لئے اپنی صفوں میں تبدیلی کا سوچیں۔ ہمارے وزیراعظم ترقی کی راہ کے ہم سفر ہیں مگر ان کے ساتھی ان کے ہم قدم نہیں۔ پنجاب کے صوبیدار بے چین اور بے کل نظر آتے ہیں۔ ان کو اپنے سرکاری مشیروں پر بہت بھروسہ ہے۔ یہ سرکاری لوگ کسی کے نہیں ہوتے۔ جو سرکار میں ہو بس اس کے ساتھ۔ وقت رکتانہیں۔ تبدیلی کا اورانقلاب کا نعرہ لگانے والوں کا کون ساتھ دے رہا ہے۔ میاں صاحب آپ کو معلوم ہے تو ڈر کس بات کا۔ریاست ا ور سیاست میں اقتدار اور اختیار کی بساط پر کھیل کا آغاز ہوچکا ہے، کچھ چال چل چکے ہیں۔ کچھ اگلی چال کا سوچ رہے ہیں۔ ہراول دستے کے پیارے پریشان ہیں۔ کون کون مرتا ہےکون مارتاہے۔ ہر طرف شور سامچاہے۔ جمہوری نظام اتنا وزنی ہو گیا ہے کہ ہر شخص پریشان ہے کہ کیاہوگا، کیسے ہوگا اور کب ہوگا۔ جب میں صاحب اقتداراشرافیہ کو دیکھتاہوں تو نہ جانے کیوں مجھے ان سے ہمدردی ہونے لگتی ہے۔
ان کشتیوں کا کیا ہے اکثر یہی ہوا ہے
طوفان سے نکل کر ساحل پر ڈوب جائیں!
پاکستان کے سیاسی سمندر میں جو جوار بھاٹا ہے وہ ایک بڑے طوفان میں بدل رہا ہے۔ یہ اصل میں اعصاب کی جنگ لگتی ہے کس میں کتنا دم ہے اب جب جوڑ پڑے گا تو معلوم ہوگا۔انقلاب برپاکرنے کی اصل ذمہ داری حاکمیت کرنے والوں کی بنتی ہے مگر یہ عمل شعوری طور پر نہیں ہوسکتا۔ ان کا پنا طرز ِزندگی، طرزِ سیاست، طر زِ اقتدار، طرزِ اختیار لوگوں کے لئے باعث اشتعال بن جاتا ہے اور یہ اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب وہ انجام سے بے پرواہ ہو کر من مانی اور خودسری پر اتر آئیں۔ وہ یہ سوچ کر حکومت کریں کہ ہم سب کچھ کرسکتے ہیں اور ہم ہی صاحب ِ اختیار ہیں۔ اس کے لئے وہ عقلی مفروضے گھڑ لیتے ہیں۔ یہ خودفریبی کی منزل ان کی راہ کو کھوٹی کردیتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ سرکار کو عوام کی مشکلات کااندازہ کیوں نہیں ہے۔ دنیا بھر میں عوام کی خدمت کرکے ان کو آسانیاں فراہم کرکے اپنی حیثیت مضبوط اورمربوط بناتے ہیں۔ ادھر اپنے ہمسایہ میں دیکھ لیںکہ ان کے وزیراعظم الیکشن سے پہلے کتنا دھاڑتے تھے۔ مگر جب سے ان کو گدی ملی۔ کرسی پر ان کا نام لکھا گیا۔ ان کی دھاڑ خاموشی میں بدل گئی۔ بڑا پن اور حکمت میں خاموشی اوربرداشت ہی آپ کو باعمل بناتی ہے۔
وقت کیسے کروٹ بدل رہاہے۔ گمان ہے قیاس ہے الجھن ہے سوال ہے۔ اپنے لشکر کے لوگ نئی تاویلات پیش کر رہے ہیں۔ لشکر کو جتھے میں بدلنے کی باتیں تو نہ کرو۔ وہ لوگ جو آپ کو جنگ کے لئے آمادہ کر رہے ہیں۔ آپ کی اور ان کی چالوں اور گھاتوں میں فرق تو ہونا چاہئے۔ اگر آپ کے نعرے انقلابی تھے تو دیر کس بات کی ہے۔ عوام کے لئے، وطن کے لئے کچھ کرکے دکھائو۔ کسی کو تو دبوچو۔ کسی کو تو سزادو کسی ملکی ادارے کاقبلہ درست کردو۔ کچھ کرنے کے لئے اگرچہ وقت کم ہی لگتا ہے مگر کچھ کرنااورکرکے دکھانا مشکل نہیں ۔جو کہتے تھے اس پر عمل کرو۔ اگر کوئی بھاری ہے تو اس کو ہلکا کرو۔ ماضی میں جو لوٹ مار ہوئی کسی کاتو احتساب کرو۔ حج کیس، بنکوں کے قرضوں کے معاملات، قرضوں کی معافی اتنے بڑے بڑے معاملات ہنوز حل طلب ہیں۔اشرافیہ کاکلچر ہی ختم کردو۔ کسی جگہ سے شروع تو کرو۔ حلیفوں کے مشورے اور حریفو ں کے دعوے دونوں ہی وقت کی ضرورت ہیں۔ اس وقت تبدیلی اور انقلاب بوتل کے جن میں دیکھیں کہ اس بوتل سے کون کون کیسے نکلتاہے۔میرے پسندیدہ شاعر شہریار کا ایک قطعہ کیا خوب ہے اور وقت کی آواز ہے اور زوال وقت کی حدود کا تعین کرتا ہے
بوتل کے اندر کا جن
نکلے تو اس سے پوچھیں
جینے کا کیا ڈھنگ کریں
کن سپنوں سے جنگ کریں
سب کے سپنوں کی جنگ جاری ہے۔ سب کو سونے ہی دو!
تازہ ترین