• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد سے منزل مقصود کی مسافت تو محض 70کلومیٹر کی تھی‘ وہاں پہنچنے تک عام طور پر وقت زیادہ بھی لگ جاتا ہے‘ لیکن پروٹوکول کی گاڑیوں اور سکیورٹی کے انتظامات نے تقریباً ایک گھنٹے کے اس سفر کو 30منٹ کے دورانئے تک ہی محدود کر دیا. گوجر خان عبور کرکے قافلہ بیول پہنچا تو استقبال کے کچھ مناظر نظر آئے اور پھر متعینہ منزل پر پہنچے تو دیہات کا روایتی منظر مہمانوں کا منتظر تھا۔ میزبان جن میں زیادہ تعداد سروں پر دوپٹے اور چادروں میں لپٹی ہوئی بچیوں اور بزرگ خواتین کی تھی۔ وہ پوٹھوہاری زبان اوردیہی انداز میں اپنی مہمان کا استقبال کرنے کیلئے خیرمقدمی گیتوں سے خوشی کا اظہارکر رہی تھیں‘ پھول نچھاور کر رہی تھیں اور تالیاں بجا کر اُن کا استقبال کر رہی تھیں۔ اُن کی مہمان اسی گائوں‘ اِسی محلے اور اسی گھر سے تعلق رکھنے والی ’’سعیدہ‘‘ تھی جس کی پیدائش تو برطانیہ میں ہوئی لیکن اُنہوں نے اپنی سرزمین سے اپنا تعلق نہیں چھوڑا اور اُن کی آمد پر ہونے والی تقریب کا اہتمام بھی اُن کے آبائی گھر۔ جہاں برطانیہ نقل مکانی کرنے سے پہلے اُن کے والدین رہائش پذیر تھے میں کیا گیا تھا۔ اُن کے والد صفدر حسین 1960ء میں بیول (گوجر خان) سے برطانیہ منتقل ہوئے تھے جہاں اُنہوں نے ایک مل مزدور کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا اور پھر چھوٹے سے ذاتی کاروبار سے ترقی کرتے ہوئے متمول پاکستانی قرار دیئے گئے. برطانیہ کے شہر ڈیوزبری میں پیدا ہونے والی سعیدہ اپنی پانچ بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ اُنہوں نے مقامی کالج سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لیڈز یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی اور پروفیشنل تعلیم کے مختلف مراحل کامیابی سے طے کرتی ہوئیں 2010ء میں برطانیہ میں کنزوریٹو پارٹی کی چیئرمین بن گئیں۔ ان کا یہ عہدہ برطانیہ کے وفاقی وزیر کے برابر تھا اور برطانیہ میں وزارت کے منصب تک پہنچنے والی وہ پہلی مسلمان خاتون تھیں... وہ اسی حیثیت سے پاکستان کے دورے پر آئیں تو اپنے گائوں بیول بھی گئیں۔
سعیدہ وارثی نے اپنے گائوں میں متعدد دستکاری کےا سکول بھی کھولے ہوئے ہیں جہاں گائوں کی بچیاں کشیدہ کاری اور سینے پرونے کا ہنر سیکھتی ہیں‘ سگھڑ بھی بنتی ہیں اور ہنرمندی سے روزگار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کا تحفظ بھی حاصل کرتی ہیں۔ دستکاری کے یہ ا اسکول بڑے نظم و ضبط کے ساتھ چلتے ہیں جن کیلئے باقاعدہ خواتین استاد اور منتظم موجود ہیں۔ غیرمعمولی مہارت اور ذہانت کی حامل تعلیم یافتہ بچیوں کے روزگار کا بندوبست سعیدہ وارثی برطانیہ بلا کر بھی کرتی ہیں۔ اُنہوں نے اسکول میں زیرتعلیم بچیوں سے اُنہیں درپیش مسائل پر بھی بات کی‘ اُن کے خاندان کے افراد کے بارے میں بھی دریافت کیا اور یہ تمام گفتگو وہ خالصتاً پوٹھوہاری زبان میں کررہی تھیں۔اُنکے طرز عمل، لب و لہجے اور رویوں سے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ برطانیہ جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک کی وزیر ہیں۔ اگر کوئی تبدیلی آئی تھی تو صرف اتنی کہ وہ سعیدہ سے ’’بیرونس سعیدہ وارثی‘‘ بن گئی تھیں۔ اُن کے گائوں کے وہ لوگ جو اُن سے پہلی مرتبہ ملنے اور دیکھنے کے خواہشمند تھے اور اپنی دانست میں ’’ولایت سے آنے والی میم کے منتظر تھے‘‘ وہ اپنی زبان میں گفتگو کرنے والی سعیدہ کو دیکھ کر شاداں اور نازاں تھے۔ اُنہوں نے گائوں کی ایک بچی کی کاپی پر آٹوگراف دیتے ہوئے لکھا تھا
"Work, Work And Hard Work"۔
یہ کم و بیش چار سال پرانی بات ہے‘ یقیناً اُس بچی نے یہ تحریر سنبھال کر رکھی ہو گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’اتنی سنبھال کر رکھی ہو کہ وہ گم ہی ہو گئی ہو‘‘ لیکن سعیدہ وارثی کی یہ تحریر ہمیشہ کیلئے اَمر ہو گئی ہےجو اُنہوں نے غزہ میں فلسطینی عوام پر ہونیوالے اسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے استعفے میں لکھی تھی۔
With Deep Regret, I have this morning written to the Prime minister Tender my Resignation. I can no longer support govt policy on Gazza
سعیدہ وارثی نے استعفیٰ دینے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ’’میں نے آج بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ وزیراعظم کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے کیونکہ میں غزہ کی صورتحال پر حکومتی پالیسی کی مزید حمایت نہیں کر سکتی‘‘۔ سعیدہ وارثی نے یہ استعفیٰ سینئر وزیر کی حیثیت سے دیا ہے اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اُن کے اس فیصلے کو جرأتمندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے اُن کی ستائش کر رہے ہیں۔ سعیدہ وارثی کے استعفے نے کیمرون انتظامیہ میں خاصی ہلچل مچا دی ہے اور قدرے اضطراب بھی پیدا کیا ہے اور برطانوی حکومت میں اُن کے حق میں آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں اور تائیدی موقف بھی سامنے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف عالم اسلام کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس حوالے سے اسرائیلی جارحیت پر مذمت کے اور فلسطینی عوام پر مظالم کے ردعمل میں ہمدردانہ بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔ وزارت خارجہ کا روایتی سا ردعمل‘ پارلیمنٹ میں ایک قرارداد اور چند تقاریر‘ حکومتی ایوانوں میں اسرائیل کیخلاف جارحانہ انداز اختیار کرنا اور پھر اس کی قیمت ادا کرنے کے خدشات کے پیش نظر ایک ’’ہومیوپیتھک ردعمل‘‘ ظاہر کرنا تو خیر سمجھ میں آتا ہے لیکن عوام کے منتخب نمائندوں کی جانب سے اُن کی غیرموثر نمائندگی کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ 4اگست کو جب قومی اسمبلی میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے اور معصوم فلسطینیوں کی ہلاکتوں پر قرارداد مذمت پیش کی گئی تو ایوان ایک افسوسناک منظر پیش کر رہا تھا۔ مختلف جماعتوں کے ارکان اپنی تقاریر کرنے کے بعد ایوان سے رخصت ہو چکے تھے۔ حکومتی وزراء کی تعداد پانچ سے زیادہ نہیں تھی‘ ایوان میں ارکان کی مجموعی تعداد جو 342ہے اُن میںسے بمشکل 80 ارکان ایوان میں موجود تھے جو اس اہم موضوع پر ہونے والی کارروائی سے لاتعلق ہو کر گپ شپ میں مصروف تھے۔ اس طرح ارکان کی ’’لاتعلقی‘‘ کے عالم میں یہ قرارداد ایوان میں کورم پورا نہ ہونے کی صورتحال میں اتفاق رائے سے منظور ہوئی۔
خطہ پوٹھوہار کی زرخیز زمین کے حوالے سے عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہاں کے جفاکش اور سخت جان لوگ ابتداء سے ہی کھیتی باڑی کو اپنا روزگار بناتے رہے ہیں اور ناہموار زمینوں میں اپنی مشقت کا بیج بو کر اسکے ثمرات سے آسودگی پر انحصار، یہاں کے لوگوں کی پہچان اور شناخت رہی ہے‘ اس خوبی کے باعث برطانوی راج میں انگریز نے برطانوی فوج میں زیادہ بھرتی پوٹھوہار کے علاقے سے ہی کی۔ پھر یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہا تاہم بعد میں یہاں کے لوگوں کی بڑی تعداد محنت مزدوری کیلئے بیرون ملک جاتی رہی اور آج بھی بالخصوص پوٹھوہار کے لوگ بسلسلہ روزگار بیرون ممالک مقیم ہیں۔ اس خطے کے جری جوانوں کی بڑی تعداد اپنی سرزمین کے تحفظ کیلئے سرگرم عمل ہے... جس کی ایک واضح مثال پاک فوج کے اُن دو قابل فخر سپوتوں کی ہے جنھیں اُن کی اعلیٰ ترین عسکری خدمات اور شجاعت پر نشان حیدر عطاء کیا گیا اور یہ پوٹھوہار دھرتی کا ہی اعزاز ہے جو اپنے سینے پر دو نشان حیدر کا فخر لئے عسکری شان سے بھی پہچانی جاتی ہے۔لیکن جس طرح خطہ پوٹھوہار کے دل گوجر خان کے سر انور پرویز برطانیہ میں اپنی کاروباری ذہانت سے وہاں کی کامیاب کاروباری شخصیات کی فہرست میں نمایاں طور پر شامل ہو کر اپنے علاقے کا اعزاز بنے‘ وہیں بیول کی سعیدہ وارثی نے اپنے اس فیصلے سے نہ صرف خود کو بلکہ... پورے پوٹھوہار اور پورے پاکستان کو۔ بالخصوص تمام عالم اسلام کی نظر میں معتبر اور محترم کر دیا ہے‘ اب سعیدہ وارثی صرف پوٹھوہار کی ہی نہیں بلکہ اپنے اس عظیم فیصلے سے ظلم و بربریت‘ جارحیت اور طاقت کے بل بوتے پر بالادست قوتوں کیخلاف آواز اٹھانیوالی علامت‘ آواز اور پہچان بن گئی ہیں۔ اب بیول گوجرخان اور پوٹھوہار کے لوگ ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے بھی ایک فخر کا حوالہ ہیں۔
سعیدہ وارثی‘ شاد رہو... آباد رہو۔تمہارے استعفےٰ کی چند سطریں اسرائیلی جارحیت کی مذمت اورفلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کےلئے دنیابھر کے 57 اسلامی ملکوں پربھاری ہیں۔بے حسی،لاتعلقی اورخود غرضی کی اس ظالمانہ صورتحال میں یہ سارے ممالک خاموش بھی رہیں لیکن’’پوٹھوہارنی سعیدہ‘‘ کے استعفےٰ کی چند سطریں بہت سے ذہنوں اورضمیروں کوجھنجوڑتی رہیں گی۔
تازہ ترین