• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانوی وزیر اور پارٹی کی سربراہ سعیدہ وارثی نے استعفیٰ دے کر انسانیت کی لاج رکھ لی۔محترمہ سلام۔کیا ایک سعیدہ کا ستعفیٰ کافی ہے ۔نہیں،میں اپنے الفاط پر قائم ہوں جب انسانیت گونگی بہری ہو چکی ہو،ضمیر مر چکے ہوں، انسانیت کے نام پر شیطانیت پھیلائی جا رہی ہو ،سچ کے نام پر جھوٹ بولا جا رہاہو،ضمیر کی خریدو فروخت کا دھندہ عروج پر ہو اور دنیا نے گوئبلز کو اپنا استاد مان لیا ہوجس کا یہ قول مشہورہے کہ جھوٹ اتنے تواتر سے بولو کہ وہ سچ نظر آنے لگے ۔ لگتا ہے کہ انسانی جذبات بالکل سرد پڑچکے ہیںاوردیانت کرپشن سے مغلوب ہو چکی ہے۔کل کا کالادھندا آج کا کاروباربن چکا ہے ،کل کا جھوٹا آج کا مدبراور ہوشیارسیاستدان کہلاتا ہے ۔ہندسے جگہ بدل چکے ہیں ،الفاظ معنی کھوتے جا رہے ہیں۔ طاقتوار ملکوں کے حکمراں اپنے عوام کوتوپھول پیش کرتے ہیںمگرتھرڈ ورلڈکے کمزورعوام کے گلے کٹوا رہے ہیں ،ان کے حکمرانوں کو انعام واکرام سے نوازرہے ہیں ۔میں پھر کہونگا ضمیر کی خریدو فروخت کا دھندہ عروج پرہے ۔ایک ارب مسلمان،56ممالک پرمشتمل عالمِ اسلام پچاس لاکھ یہودیوںکے ایک ملک سے مغلوب صرف فلسطینی آزاد۔ آزادی کے یہ متوالے سالوں سے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔کبھی ہم ان کے لئے آواز اٹھاتے تھے مگریہ آواز بھی اب دبتی جا رہی ہے ۔زہریلا پروپیگنڈہ ،حماس وجہ تنازع ہے ہماری رگوں کو سُن کر چکاہے ۔میں نے ایک دھیمی سی آواز اٹھانے کی کوشش کی ،ایک پٹیشن فائل کی میرا گمان تھا کروڑوں نہیں تو لاکھوں اس پر تائیدی دستخط ثبت کریں گے مگر بڑی محنت سے پانچ دنوں میں92 کمزور سے مجاہد پیدا کر سکا ۔گو جہاد جاری ہے مگر مایوسی طاری ہے ۔فلسطینی قیادت کی کمزوریاں،انتشاراور جذباتی انتشار اپنی جگہ مگر وہ بچے جو صیہونیوں کے بارود کا نشانہ بنے وہ تو صرف بچے تھے پوری انسانیت کے بچے۔ وہ تو کسی تنازع کا حصہ نہ تھے پھر ان سے بے حسی کیوں۔ یورپ اورامریکہ میں عوام سراپا احتجاج اور حکمران صہیونی ریاست کو اسلحہ اور ڈالر سپلائی کر رہے ہیں اور جارحیت کو دفاع قرار دے رہے ہیں ،جوچاہے آپکی نگاہِ کرشمہ ساز کرے ۔دہشت گردوں کے حملے سے اقوام متحدہ کے اسکول جو فلسطینیوں کیلئے پناہ گاہیں قرار دی گئی تھیں ان پر وحشیانہ بمباری کی گئی عمارتیں گر گئیں، بمباری سے عمارتوںکے ملبے تلے بہت سے فلسطینی زندہ دفن ہو گئے ۔اسپتالوں کی بجلی کے وسائل ختم کردئیے گئے۔ زیرعلاج مریضوں زخمیوں کا علاج مشکل ہو گیا ۔بہت سے نومولود بچے اسپتالوں میں آنکھ کھولنے سے پہلے ہی دم توڑگئے ۔قیامت صغریٰ کا سماں ہر سُو،مگر انسانیت خاموش۔بول کے لب آزاد ،کیسے بولیں فیض صاحب کسی کے لب آزاد نہیںسب نے مصلحتوں کی سوئی سے لبوں کو سی رکھا ہے ۔ اقوام متحدہ کی پناہ گاہوںپہ حملے ،حیف اقوام متحدہ خاموش۔ فلسطین لہو لہو اقوام متحدہ خاموش ۔اے اقوام عالم کی نمائندہ تنظیم تو خاموش کیوں تُو تو سب کی نمائندہ ہے ۔کیا فلسطینی بچوں کا خون کسی اور رنگ کا ہے۔ کہاں فاختہ امن کی ہے کہاں زیتون کی ڈالی ہے،،آ میرے فلسطین میں دیکھ یہ کیسی خون کی لالی ہے۔
اقوام متحدہ ،تو لیگ آف نیشنز بن کرتاریخ کےکا قصہِ پارینہ نہ بن جانا۔ لیگ آف نیشنز برطانیہ فرانس کی خادمہ تھی اور لگتا ہے کہ تیرا بھی امریکہ کے حوالے سے وہی کردار ہے تو پھر مختلف انجام کی توقع کیونکر ۔ عراق کے صدام حسین نے تیری دو قرار دادوں کی خلاف ورزی کی تھی وہ اس کی سزا بھگت کردنیا سے جا چکا مگر عراقی بچے 24سال سے یہ سزا بھگت رہے ہیںاور نہ جانے کب تک بھگتیں گے۔طالبان نے ایک قراداد کو درخود اعتنا ء نہ جانا امریکہ 46ممالک کالائو لشکر لے کر یو این او کی مہر والی قراردادکی آڑ میں افغانستان آدھمکا ۔یہودی ریاست 64قرار دادوں کو پھاڑ چکی کسی نے اس کا بال بیکا نہیں کیا ۔یہ دہرا معیار کیوں ،پھر تو ہی بتا تیری بقا کا جواز کیا ہے۔
حماس کے نقادوں کا موقف ہے وہ اسرائیل پر راکٹ فائر کرکے یہودیوںکوجنگ کا جواز فراہم کرتی ہے جبکہ یہ راکٹ فضا ہی میں ڈی فیوز کر دئیے جاتے ہیں صرف کھڑاک ہونا جس سے یہودیوںکی نیند خراب ہوتی ہے اور وہ انہیں حملے کا جواز بنا کر بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ سر تسلیم خم مگر حقائق کے ساتھ۔ جاری جنگ کی وجہ تسمیہ تین یہودی نوجوانوں کا اغوا اور ہلاکت کا حماس پہ الزام ہے ۔ میں اپنے گزشتہ میں لکھ چکا ہوں یہ کارروائی موساد کی جنگی جواز کیلئے بھی ہو سکتی ہے ،اس امکان کو نظر انداز نہ کیا جائے ، صیہونی ریاست کے اپنے اداروں کی تحقیق اور انہی کے میڈیا میں چھپی دوران جنگ رپورٹوں کے مطابق ۔ یہ ریاست کے اندر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث گروہوں کی کاروائی تھی۔یہ اقبال جرم خودیہودی ریاست کا اپناہے ۔حماس نے الزام کی واضح تردید کی تھی۔ حماس کے بہی خواہوں نے دلیل دی تھی کہ الفتح اور حماس کے درمیان حکومت سازی پر مکمل معاہدہ ہوگیا ہے وہ کوئی ایسی کارروائی کرکے اپنے معاہدہ کوکیوں سبوتاژ کریں گے ۔مگر صیہونیوں نے کسی جواز دلیل پر کان نہ دھرے اور کمزوروں پر حملہ کر دیا ۔ جنگ بندی ہوئی ۔ لیفٹینٹ ہاد گولڈن کے اغوا کے الزام سے جنگ بندی توڑ دی گئی ،حماس نے لیفٹیننٹ کے اغوا کی تردید کی مگر کسی نے نہ سُنی ۔فلسطینیوں اور اقوام متحدہ کی پناہ گاہوں اسپتالوں کو دوبارہ نشانہ بنایا گیا لیفٹیننٹ کی موت ٖغزہ کی جنگ میں ہوئی لاش یہودی فوج کے پاس موجود تھی جنگ بندی توڑنے کے لئے اغوا کا جواز گھڑا گیا۔ لیفٹیننٹ ہاد کی ماں نے میڈیا پر شور مچایا جب تک میرا بیٹا واپس نہ آئے جنگ بندی نہ کی جائے ،لیفٹیننٹ کے اہل خانہ کو خاموشی سے لاش حوالے کرنے کیلئے صیہونی وزیر دفاع شمعون پریز، آرمی چیف گئے بین الاقوامی میڈیا نے لاش سمیت وزیر دفاع کی لیفٹیننٹ کے اہل خانہ کے ساتھ تصویریں جاری کر دیں ۔ صیہونی ریاست نے بغیر کسی تردید تائید کے خاموشی اختیار کر لی مگر حملے جاری رکھے۔بولو کہاں ہے حما س ذمہ دار۔حماس کیلئے ایک دوست ایک بہی خواہ کامشورہ۔کیا آپ ان راکٹوں جن کا بارود صیہونیوں نے بھوسہ بنا رکھاہے کے ساتھ طاقتور معیشت کی حامل ایک ایٹمی پاور کو صٖفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں ،جواب نفی میں، تو پھر کیوں نہ الفتح اور دیگر فلسطینی نمائندہ جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھیں۔فلسطینی ریاست کیلئے اگر اسرائیل کو تسلیم بھی کرنا پڑے تو کر لیں ۔اپنی سرحدوں کے اندر علم پھیلائیں ریسرچ کریں ۔بُک اینڈ پن سوسائٹی بنائیں ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے محنت کریں۔ایجادات اور دریافتوںمیں نام پیدا کریںممکن ہے یہ آج کی کمزور فلسطینی ریاست کل سُپر پاور بن جائے ۔ ریاستیں بنتی ٹوٹتی رہتی ہیں7000 سال قبل مصر کو تقسیم کرکے انہی لوگوںنے یہودی اور اسرائیلی ریاست میںبدل لیا تھا۔ کہاں ہیںوہ ریاستیں، مصر آج بھی اُسی نام کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ 1946سے پہلے کون جانتا تھا یہودیوں کی ایک طاقتور ریاست ہو گی۔میرے ایک یونانی عیسائی فیس بک فرینڈ کے مطابق جویہودیوں کی قربت کا دعویدارہے، دروغ برگردنِ راوی ، یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ مسجد عمر ہیکلِ سلیمانی والی جگہ پر ہے۔ یہودی مسجد عمرگراکر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔انہوں نے شیشے کے ٹکڑوں پر مشتمل پورا ڈھانچہ مکمل کرکے چھپا رکھا ہے ۔ مسجدعمر کو ڈائنامائیٹ سے اڑا کر ہفتوںمیں شیشے کا ڈھانچہ کھڑا کردیا جائیگا جس کی حفاظت افواج یہود کریں گی۔ را اور موساد کے رابطے بھی پرانے ہیں۔ گمان ہے انتہا پسند ہندوئوں نے بھی اسی سوچ سے متاثر ہوکر بابری مسجد اور رام مندر کا شاخسانہ گھڑا تھا۔
تازہ ترین