• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کنٹینر ڈیموکریسی کے طفیل میں اپنے عزیز دوست کے صاحبزادے بیرسٹر وقاص فاروق اور میرے اہل خانہ قریبی رشتہ دار عمر جاوید کی دعوت ولیمہ میں شرکت کے لئے گوجرانوالہ اور ملتان نہ جا سکے جس کا دکھ ہے مگر دوسروں کی طرح ہم پر بھی اس نام نہاد بلکہ بدنہاد جمہوریت کی اصلیت واضح ہو گئی۔
میری دولہا میاں کے والد سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ بیرسٹر وقاص کے جو دوست لندن، کراچی اور ملتان سے بائی ایئر پہنچے وہ لاہور میں نہیں گئے کہ خوفزدہ جمہوریت نے ہر راستہ بند کر دیا تھا اور پٹرول مفقود،جو عورت، مرد، بچے، جوان، بوڑھے کیڑوں مکوڑوں کی طرح رینگ کر کنٹینروں کے نیچے سے گزرے وہ اس ذلت و رسوائی کے بعد پولیس اہلکاروں کی مارکٹائی کا نشانہ بن گئے کہ کار سرکار میں مداخلت جرم ہے اور پولیس کی لاٹھیوں، گولیوں، شیلنگ اور گالیوں کے سامنے سربسجود ہونا عین قانون پسندی رعایا کی کیا مجال کہ کوئی پُر امن اور قانون پسند شہری اپنے دفاع میں کچھ کہے یا کرے۔ یہ ریاست سےبغاوت، دہشت گردی اور شر پسندی ہے۔
پنجابی کی کہاوت ہے ’’ڈگی کھوتی توں تے غصہ کمہار تے‘‘ کنٹینرز ڈیموکریسیبد حال اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ تکبر نہ سہی اس کی لاپروائی اور بے نیازی کے سبب حالات خراب ہوئے تو اپنے گریباں میں جھانکنے کے بجائے الزام ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو دیا اور اب غصہ عوام پر نکال رہی ہے جو بے چارے تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ ڈاکٹر اور کپتان کو الگ الگ ڈیل کرنے کی احمقانہ پالیسی کی ناکامی میں جن کا ہاتھ ہے نہ دونوں کی مفاہمت کا قبل از وقت ادراک نہ کرنے کی اہلیت و صلاحیت سے محرومی کے وہ ذمہ دار۔
ماضی میں احتجاجی تحریکوں کو سب سے زیادہ زور پہیہ جام ہڑتالوں اور شٹر ڈائون پر لگانا پڑتا تھا تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کی منت سماجت، ہر چوک اور سڑک پر ڈنڈا بردار کارکنوں کی ڈیوٹی اور عوام کے منفی ردعمل کا سامنا عوامی تحریک اور تحریک انصاف کو مسلم لیگ کے گڑھ پنجاب، لاہور اور ماڈل ٹائون میں پہیہ جام اور رکاوٹوں کے لئے ہزاروں جتن کرنے پڑتے مگر ہیوی مینڈیٹ کی حماقتوں کے طفیل یہ کام سرکاری خرچ پر ہو گیا طاہر القادری اور عمران خان کا فرض ہے وہ پنجاب کی بیورو کریسی، بالخصوص پولیس کا شکریہ ادا کرے جس نے ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے کے محاورے کی افادیت ثابت کی۔
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کی مشہور کافی کا ایک بند ہے؎
جے ڈیہنہ بھلڑے، متر دی بھلڑے
قسمت جوڑیئے جوڑ کللڑے
یار شدید تے بخت عنید
یہی حال ان دنوں حکمرانوں کا ہے ایک زمانے میں ہاتھ پارس تھے تو مٹی سونا بن جاتی اب ہر چال الٹی پڑ رہی ہے دوست نادان اور بخت (قسمت) آمادۂ عناد ؎ .... وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔
سیاستدانوں کی قومی کانفرنس عمران خان سے مفاہمت کے پردے میں ساکھ تباہ کرنے کی شاطرانہ چال تھی۔ سکیورٹی کانفرنس کا لیبل لگا کر آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کو لا بٹھانے کا مقصد سیاسی مخالفین اور عوام کو مرعوب کرنا تھا مگر عمران خان کے انکار نے بساط الٹ دی۔ رہی سہی کسر بقول شخصے وزیر دفاع کی طرف سے اپنے ماتحت آرمی چیف کے استقبال دونوں ہاتھوں سے مصافحہ اور دوران اجلاس جرنیلوں کی باڈی لینگویج نے پوری کر دی نہ صرف سول بالادستی کے دعوئوں کی قلعی کھلی بلکہ جرنیلوں کے سامنے سول حکمرانوں کی کم مائیگی اور بے چارگی کا تاثر ابھرا ؎
پہلے بھی اپنی کون سی عزت تھی شہر میں
کل شب کی منتوں نے گنوا دی رہی سہی
سیاسی حکمران جب چاپلوس، جونیئر اور سیاسی شعور سے بالکل نابلد بیورو کریٹس اور تنخواہ دار مشیروں کی عقل و خرد اور رائے پر انحصار کرنے لگیں، عوام سے کٹ جائیں اور مخالفین کی معقول، ناقدین کی بے لاگ بات سننے کے روا دار نہ رہیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ دو ماہ قبل دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی ایک محفل میں اپنا یہ عاجزانہ تجزیہ پیش کیا کہ طاہر القادری و عمران خان بالآخر اکٹھے سڑکوں پر نکلیں گے اور چوہدری برادران کی سرگرمیاں شریف برادران کو مہنگی پڑیں گی تو شریف خاندان کے خیر خواہ، ہمدرد اور ہمنوا دوستوں نے میری بات کو بے وقت کی راگنی اور خوش فہمی پر مبنی خواہش قرار دیا مگر اب کھسیانی بلی کھمبا نوچ رہی ہے۔
تلخ نوائی معاف مگر یہ سارا کیا دھرا ’’کڑاکےکڈھ دیوو‘‘ ٹائپ نالائق مشیروں اور خوشامدی بیورو کریٹس کا نہیں۔ ساری عمر یس سر ، یس سر کی گردان کرنے والے شاہ کے مصاحب افلاطوں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کا بھی نہیں۔ زیادہ تر عمل دخل بادشاہ سلامت کی افتاد طبع کا ہے؎
کچھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
خلاف مزاج بات سن کر کٹی کرنے والے حکمرانوں کا گھیرائو خوشامدی آسانی سے کر لیتے ہیں اور یہ چاپلوس اپنی زندگی بھر کی محرومیوں کا بدلہ حکمرانوں کو ہٹلر، مسولینی اور نواب آف کالا باغ بنا کر چکاتے ہیں۔ خمیازہ تو بہرحال باس کو بھگتنا پڑتا ہے۔
1999ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی آمد پر احتجاج پر جمہوری حق استعمال کرنے والے جماعت اسلامی کے کارکنوں سے لٹن روڈ پر جو وحشیانہ سلوک ہوا وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکنوں سے ہونے والے سلوک سے قطعی مختلف نہ تھا آج پولیس گردی کا جواز پیش کرنے والے نابغے 1999ء میں بھی گورنمنٹ کی رٹ قائم کرنے کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے آج جن لوگوں کو ایک پولیس اہلکار کی افسوسناک موت (دوسرے اہلکار محمد اشرف کی ٹریفک حادثے میں ہلاکت کی قلعی میڈیا اور جنرل ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کھول دی ہے مگر حکمران اور پولیس چیف ڈھٹائی سے مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں) کا غم بتا رہا ہے ان میں سے کسی کو ماڈل ٹائون کے 14مقتول یاد ہیں جو کسی نہ کسی کی آنکھ کا نور دل کا سرور، بڑھاپے کا آسرا اور سر کا سہاگ تھے نہ پولیس گردی کا شکار ہونے والے ہزاروں سیاسی و مذہبی کارکن کیونکہ اصول یہ طے پایا ہے کہ طاہر القادری کی طرح اس کا ہر پیروکار گردن زدنی ہے کسی ہمدردی کا مستحق نہیں۔
ایک بات بہرحال طے ہے کہ مائنس ون فارمولا اب قصۂ ماضی ہے، طاہر القادری اور عمران خان کا سیاسی میدان میں مقابلہ موجودہ حکمرانوں کے بس کی بات نہیں اور نا اہل، خوشامدی اور سیاسی شعور سے عاری مشیروں نے میاں صاحب کو "Between the devilis and deep Sea"لا کھڑا کیا ہے سیاسی مخالفین سے مفاہمت اور ان کے مطالبات کی پذیرائی یا ایسٹیبلشمنٹ کی غیر مشروط اطاعت؟ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے خوش دلی سے کرے یا دیدہ و نادیدہ دبائو پر۔ کاش شادی بیاہ، علاج معالجے و تعزیت کاروبار اور ملازمت کے لئے جانے والے شہریوں کو اذیت سے دوچار کرنے کے بجائے حکومت اور بیورو کریسی ہوش کے ناخن لیتی؟ مگر پھر اتنی بددعائیں کیسے سمیٹتی۔
تازہ ترین