• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہوسکتا ہے کہ کور کمانڈرز اور دوسرے بہت سے جنرل نیشنل ایکشن پلان نامی نیم افسانے کو عمل کی دنیا سے دور دیکھ کر وقتاً فوقتاً اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہیں لیکن سویلینز، جن کے کانوں پر کلام ِ نرم و نازک بے اثر، کے پیش ِ نظر ایک ہی ایجنڈا کہ اگلا آرمی چیف کون ہو گا۔ میڈیا پر بحث کا طبل بج چکا، حریف صفیں سیدھی کر چکے،ظن و تخمین کے رستم میدان میں، قیاس آرائی کی پتنگ بازی آرزوکی ڈور کے دوش، اور پھرجب موضوع اتنا چھلک دارہو کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا تو ہماری عقابی روح کس طرح عقل کے آشیاں پر بیٹھ سکتی ہے۔ یہ موضوع ہر تین سال بعد ہمارے لئے ’’لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ‘‘ بن کر نیم جاں فوکرز کو بھی ایف سولا بنا دیتا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے نیشنل سیکورٹی کی زرہ فوج کے تن بدن پر ہے، اور چونکہ نیشنل سیکورٹی ہمارے نظریات کی بلاشرکت ِ غیرے سرخیل، عقیدے کی آفاقی روشنی سے سرفراز، اس لئے فوج ہی ہمارا سب سے مقتدر قومی ادارہ ٹھہری۔ لہٰذا اس کا جو بھی چیف ہو، ہماری خو ش گمانی اُسے جادوئی خواص کی حامل بنا دیتی ہے، چاہے قومی امور میں اُس کا اثر غلو کے غلاف میں لپٹا ہو۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ آرمی چیف کی شخصیت سے فرق پڑتا ہے ، جیسا کہ جنرل راحیل شریف نے اپنے پیش روں کی غیر ضروری احتیاط کا دامن ایک طرف جھٹک کر اسلام کے نام پر پاکستان میں آگ و خون کا کھیل رچانے والے مسلح لشکروں کے خلاف اعلان ِ جنگ کردیا۔ اسی طرح جب آرمی چیفس اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے آمر بن جاتے ہیں تو ملک اور اس کے اداروں پر اُن کی بلاشرکت ِ غیرے حکمرانی قائم ہوجاتی ہے ۔ تاہم وہ پھر بھی ہمارے مسائل کا کوئی انقلابی حل تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
پاک فوج ایک روایتی سوچ رکھنے والا ادارہ ہے ۔ اس کی صفوںسے ابھر کر اُوپر آنے والے مختلف جنرلز، جیسا کہ یحییٰ، ضیا اور مشرف نے سماج کو تبدیل کرنے کی راہ سے گریز کیا۔ اُنھوں نے طے شدہ نظریات کا تحفظ کیا، اور جب نظریات سے تہی داماں دکھائی دئیے تو اسلام کا پرچم لہرا دیا۔ اسلام اورجہاد کی گردان کرتے ہوئے جنرل ضیانے ملک اورفوج کووقت کے معکوسی دھارے پر ڈال دیا۔ حتیٰ کے ایران میں مذہبی انقلاب کے داعی، آیت اﷲ بھی جہاد کا اس طرح ذکر نہیں کرتے تھے جس طرح جنرل ضیا الحق اور ان کے ہمنوا جنرل۔ جب آرمی چیفس سویلین امور میں مداخلت نہیں کرتے تو وہ لگے بندھے اصولوں پر کام کرتے ہیں۔ ان کے منصب کے سنجیدہ تقاضے ذاتی نمود و نمائش کی اجازت نہیں دیتے، تاہم داخلی اور خارجی حالات واقعات ان کی فعالیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر ہمسائے میں امریکی مفادات کی جنگ ہوتو شاید ہی کوئی آرمی چیف امریکی دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی آزاد سوچ کے مطابق فیصلہ کرنے کے قابل ہوا ہو۔ شاید اُنہیں ہوا کا رخ پہچانتے ہوئے اس کے ساتھ چلنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔
تاہم ایک میدان ایسا ہے جس میں آرمی چیفس نے امریکی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آزادنہ طور پر کام کیا ، اور یہ میدان پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ تاہم اس میدان میں ان کی رہنمائی کرنے والا ایک سویلین لیڈ ر تھا، جناب ذوالفقار علی بھٹو۔ ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا دلیرانہ فیصلہ اُنہیں کا تھا ، لیکن پھر بعد میں آنے والوں، جیسا کہ جنرل ضیا الحق، غلام اسحاق خان اور میرا خیال ہے کہ آغا شاہی، نے بھی اس کی حفاظت کی اور اسے پروان بھی چڑھایا۔ تاہم ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عجیب بات یہ ہے کہ ایٹمی قوت حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو ایک زیادہ آزاد اور خود مختار ریاست بننا اوردیگر قوتوں کا آلہ کار بننے سے گریز کرنا چاہئے تھا، لیکن کیا ایسا ہوا؟ کیا ہم اپنے جوہری اثاثوں کی وجہ سے زیادہ آزاد ملک بن چکے ہیں؟ ہم ایٹم بم سے پہلے دنیا کو بھارتی خوف کے آئینے میں دیکھا کرتے تھے ، ہمارا زاویہ نگاہ ابھی تک وہی ہے۔ ہم زمین، ہوا اور سمندر، ہر جگہ مار کرنے والے جدید ترین میزائل بناسکتے ہیں لیکن ہمارے جنرل اسٹاف کے ذہن سے بھارتی جارحیت کے سائے نہیں ڈھلیں گے ۔ ہم نے 1947ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی، ہم انڈین خوف سے آزادی کب حاصل کریں گے ؟تقسیم ِ ہند کا ادھورا ایجنڈا صرف کشمیر ہی نہیں، بھارتی خوف کے اندھیرے کو دور کرنا بھی ہے۔ ایک اورسوچ ہماری پیر تسمہ پاہے ۔ ہمار ے ہاں سکہ بند خیال یہ ہے کہ ہمارے پاس سب سے طاقتور چیزعقیدہ، یعنی اسلام ہے اور اس کے بعد ایٹم بم۔ اگر واقعی بم کو ہمار ے قومی اسٹیج پر سرخیل کا درجہ حاصل ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایٹمی پروگرام کے بانی، ذوالفقار علی بھٹو کی گرد ن میں اسٹیبلشمنٹ نے پھندا ڈالا، اُس اسٹیبلشمنٹ نے جو قومی سلامتی کی نگہبان کہلاتی ہے؟ کیا یہ سوچ نیند اُڑانے کے لئے کافی نہیں؟
خیر میں کس طرف بھٹک کر جانکلا؟ آرمی چیف کی تقرری قواعد وضوابط کے مطابق کسی ہنگامہ آرائی کے بغیر ہونی چاہئے لیکن میلو ں ٹھیلوں کی شوقین یہ قوم اس موقع پر بھی ایک تماشا لگا لیتی ہے ۔ ابھی جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ باقی ہیں لیکن اُن کے جانشین کا اندازہ لگانے کا کھیل شروع ہوچکا ۔ ویسے تو ہر آرمی چیف کی مدت ختم ہونے کے قریب ہم ایسا پنڈال سجا لیتے ہیں لیکن جنرل راحیل شریف کی روانگی کے حوالے سے تجسس کچھ بڑھ کرہے کیونکہ اُن کی فعالیت اور کامیابی نے حکمران طبقے کی نیند حرام کئے رکھی۔ پس ِ پردہ جانا کوئی بھی پسند نہیں کرتا ، اور منتخب شدہ لیڈر تو نجات دہندہ بن کرچپوسنبھالتے ہیں۔ تاہم موجودہ حکمران سیٹ اپ کے ساتھ ہوا یہ کہ جب وہ دہشت گردوں کے ساتھ بے معانی مذاکرات کی ریت چھان رہے تھے، جنرل راحیل شریف نے تاریکی کی قوتوں کے خلاف جنگ کا دوٹوک فیصلہ کیا۔ اس طرح اپنی عدم فعالیت کی وجہ سے سیاسی طبقہ پردے کے پیچھے چلا گیا۔ اب قوم کے سامنے جنرل شریف تھے اور قربانیاں دینے والی فوج۔
پی ایم ایل (ن) عمران خان کو ہینڈل کرسکتی ہے۔ طاہر القادری ذرا دوسروں سے بڑھ کر تنگ کرلیتے ہیں، لیکن حکومت کے لئے درد ِ سر انتہائی فعال آرمی چیف ہیں جو نہ صرف ہر جگہ موجودہیں بلکہ عوام میں بے پناہ پذیرائی بھی رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں تو کوئی درویش صفت حکمران بھی تلملا اٹھتا، اور شریف برادران پر درویشی کا الزام ہر گز نہیں لگایا جاسکتا۔ چنانچہ بہت محتاط ہوکر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جس چیف کا انتخا ب اُنھوں نے خود کیا تھا، وہ اُن کی خواہشات اور توقعات سے کہیں بڑھ کر نکلا۔ اس اذیت کی نسبت سرور پیلس میں جلاوطنی کہیں راحت رساں تھی۔ اُس وقت نواز شریف صاحب کی صحت کافی اچھی ہوگئی تھی کیونکہ ذہن پر کوئی دبائو جو نہیں تھا۔ تاہم اب نومبر تلک انتظار انتہائی جاں گسل ہے ، اور اُن کے حامی رات دن دعائیں کررہے ہیں کہ یہ عرصہ جلد اور خیر وعافیت سے گزر جائے ۔ تاہم خدشہ ہے کہ ان کی تشویش رفع نہیں ہونے والی ۔ اُن کے اعصاب کی شکستگی کے لئے ایک ہی جنرل راحیل شریف کافی، تھے، کسی مزید کی تاب نہیں، خاص طور پر ایسے چیف کی جو پھر اپنی فعالیت کی وجہ سے عوامی پذیرائی حاصل کرجائے اورجن کی تصاویر شاہراہوں اور ٹرکوں کے پیچھے آویزاں ہو کر ان کے سینے پر مونگ دلتی پھریں۔ اس لئے اگرچہ اُن کا ایک ہاتھ پاناما کی بیلن میں پھنسا ہوا ہے ، ان کے روز و شب اسی سوچ کی نذر کہ جنرل راحیل شریف کا جانشیں کون ہو۔
ہوسکتا ہے کہ کورکمانڈرز نیشنل ایکشن پلان پر اپنے تصورات رکھتے ہوں لیکن شریف برادران کا ایکشن پلان جانشین کے چنائو کی بابت ہے ۔ انہیں ضرب ِ عضب سے کیا لینا دینا، اور پھر ویسے بھی اس کا نام سن کر ان کے منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہے ۔ اب اُنہیں ایک فعال آرمی، کسی رومیل یا زھوکوف کی نہیں، کسی ضیا الدین بٹ کی تلاش ہے، کسی ممنون حسین یا قمر الزماں چوہدری کو وردی پہنا کر چیف بنانے کی آرزو دل میں مچل رہی ہے ۔ چنانچہ ہمارا قومی لینڈ اسکیپ نومبر کا منتظر ہے، یہ وقت جلدی سے گزر جائے، پاناما جان چھوڑ دے، اور پھر دعوتیں اُڑیں گی۔ ابھی تک تو اقتدار کا دسترخوان پھیکا ہی تھا۔
تازہ ترین