• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زمانہ طالب علمی کی بات ہے کہ ہمارے کالج کا ایک ٹوور کچھ ہم جماعتوں اور پروفیسرکے ساتھ کوہاٹ کے پہاڑی علاقے کے مطالعاتی دورہ پر روانہ ہوا ۔یہ سفر کرنے کے لئے ہمیںاس وقت کی دیدہ زیب سواری ’’ بس ‘‘ جسے ’’پرانا راکٹ‘‘ بھی کہا جاتا تھا میسر تھی جس پرہم راولپنڈی سے جنڈ روڈ پر محو سفر تھے یہ سڑک کوہاٹ تک جاتی ہے ، کوہاٹ سے آگے بنوں جانے کا پروگرام بھی راستے میں ہی طے ہو ا تھا لہٰذا راکٹ کا منہ اب کوہاٹ سے بنوں کی جانب کر دیا گیاتھا ۔بنوںکی طرف جاتے ہوئے راستے میں ہمیں لب سڑک ایک ڈیرہ نظر آیا ، ہمارے سفر کی تھکاوٹ کو دیکھتے ہوئے پروفیسر نے راکٹ کے ڈرائیور کو رُکنے کا کہا تاکہ پیاس مٹانے کے لئے ڈیرے سے پانی پی لیں ۔ یہ دیسی ڈیرہ دوران سفر ہمیں بھوک اور پیاس ختم کرنے کا بہترین ٹھکانہ محسوس ہوا ، سب راکٹ سے اترے اور ڈیرے کی جانب چل پڑے ۔ڈیرے کے گرد کھجوروں کے جھُنڈ نے کسی نئی نویلی دلہن کے دوپٹے پرلگی جھالرکی طرح اسے خوبصورت بنایا ہوا تھا ۔کھجوروں کے کچھ درخت پیچھے چھوڑنے کے بعد ہمیں اب ڈیرے کے مالک سمیت وہاںکچھ ’’مال ڈنگر ‘‘ بھی نظر آیا ۔اس جگہ کا مالک چھریرے بدن اور چہرے پر رعب دار مونچھیں سجائے اپنے سامنے رکھے حقے کے کش لگا رہا تھا ۔ہمیں اپنی جانب دیکھ کر اس نے حقے کے کش لگاتے ہوئے ہمیں حیرت سے دیکھا ، مالک کے ماتھے کی تیوریاں ہم سے اس ڈیرے پر آنے کی وجہ پوچھ رہی تھیں ۔ہم اس چیز کو بھانپ گئے اور فوراً کہا کہ طالب علم ہیں اور پیاس کی شدت نے ہمیں آپ تک پہنچایا ہے ، مالک نے اپنے نوکر کو آ واز دی کہ لڑکوں کے لئے پانی لاؤ ، نوکر پانی لایا تو ہم نے دیکھا کہ پانی کے اوپر چھوٹے چھوٹے کیڑے تیر رہے ہیں ، اس سے پہلے کہ ہم اس حوالے سے بات کرتے ، ڈیرے کا مالک خود ہی بولا یہاں کے پانی میں بڑے کیڑے بھی ہوتے ہیں ، آپ والا پانی اسپیشل مہمانوں کے لئے رکھا گیا ہے اس لئے صاف ہے اور چھوٹے موٹے کیڑے دیکھے بغیر ہی ہم پانی پی لیتے ہیں، یہ سننا تھا کہ میری پیاس تو کسی ایتھلیٹ کی طرح دور بھاگ گئی اور میں نے پیالہ آرام سے نیچے رکھ دیا۔ ڈیرے پر چار بھینسیں ، پانچ گائے، سات اونٹ، کچھ بھیڑیں اور بکریاں ،پانچ گھوڑے ،تین گدھے ،دو کتے اور دو’’ اُڑیال‘‘ اکھٹے بیٹھے تھے ،ان جانوروں کے لئے کسی قسم کی کوئی علیحدہ باڑ نہیں بنائی گئی تھی ،سب جانور اپنی مستی میں ایک ہی جگہ بیٹھ کر ’’جگالی ‘‘کر رہے تھے۔ میں بہت حیران ہوا کہ سب جانور ایک ہی جگہ بیٹھے ہیں ، کوئی جانور دوسرے سے چارہ نہیں چھین رہا ، کوئی کسی سے لڑ نہیں رہا ، ہر جانور کی اپنی بولی ہے لیکن وہ اس بات پر بھی جھگڑا نہیں کر رہے کہ وہ ایک دوسرے کی بولی کیوں نہیں بولتے ؟ نہ بھینس کو اُونٹ کا ڈر ، نہ کتے کو گائے کا اور نہ ہی گائے کو کتے کا ،نہ بھیڑ بکریوں کو اُڑیال کے سینگوں سے خطرہ اور نہ ہی گدھے کو کم عقل ہونے کی وجہ سے دیس نکالے کا خوف ،میرے لئے یہ سب کچھ عجیب و غریب تھا ۔میں نے اپنی اس کیفیت کو ڈیرے کے مالک پر عیاں کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پوچھا کہ جناب عالی یہ سب جانور ایک جگہ کیسے اکٹھے بیٹھے ہیں ، کسی کو دوسرے جانور سے کوئی خطرہ نہیں ؟ ڈیرے کا مالک زیر لب مسکرایا اور بولا ، بیٹے یہ جانور کے مالک پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ تمام جانوروں کو ایک جگہ کیسے اکٹھا رکھے ،وہ بولتا جا رہا تھا ، جب مالک تمام جانوروں کے ساتھ ایک جیسا اور اچھا سلوک کرے گا تو جانور بھی اپنے مالک کا اشارہ سمجھیں گے ۔جانوروں کی بولی آپس میں ایک جیسی نہیں لیکن وہ اپنے مالک کی بولی اور مخصوص الفاظ ضرور سمجھتے ہیں ،اگر کبھی کوئی جانور بھٹک جائے یا ڈیرے پر واپس آنے میں دیر کرے تو میرے پالتو کتے اسے ڈھونڈ کر واپس لے آتے ہیں ۔یہ جانور پیار کے بھوکے ہوتے ہیں اور جو مالک انہیں پیار کے ساتھ ساتھ راستوں سے شناسائی کروا دے اسے پھر جانوروں کی لڑائی ، گم ہونے ، یا ایک دوسرے کا چارہ چھین کر کھانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔یہ جواب سن کر میری حیرانگی میں مزید اضافہ ہو گیا۔میں سوچنے لگا کہ ہم اشرف المخلوقات ہیں ،ہمارا ڈیرہ پاکستان ہے جہاں ہم اکھٹے رہتے ہیں ، ہماری بولی بھی ایک دوسرے کو سمجھ آتی ہے ،پھر بھی ہم لسانی جھگڑوںکو ختم نہیں کر رہے ، ایک دوسرے سے کھانا چھین رہے ہیں ، ایک دوسرے کو مار رہے ہیں ۔میں سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہے ؟ اور کب ہم ان جھگڑوں سے نجات حاصل کریں گے ؟کہیں ہم جگہ سے لڑتے ہیں تو کہیں سیاسی نعرے ہماری لڑائی کا سبب بنتے ہیں ،سیاسی جماعتوں سے وابستگیاں بھی ہماری انا کا مسئلہ بن جاتی ہیں ،ہم اپنی گلی یا مکان پر اپنی سیاسی پارٹی کا جھنڈا لگنےیا لگانے پر قتل و غارت پر اتر آتے ہیں جبکہ مخالف سیاسی پارٹیوں کے قائدین آپس میں رشتہ داریاں کر لیتے ہیں ۔مختلف مسالک پاکستان میں اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کیلئے ایک دوسرے پر ایساکیچڑ اُچھالتے ہیں کہ خدا کی پناہ ، تمام معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس فیصلہ پر پہنچا کہ شاید ہمارے ڈیرے یعنی پاکستان کو ایک ایسے سربراہ (مالک ) کی ضرورت ہے جو تمام پاکستانیوں کو صحیح راستے کا تعین کرنے میں مدد دے ، ایسا سربراہ جو اپنی حکومت بچانے اور آئندہ پانچ سال کے لئے اپنا ووٹ بینک پکا کرنے کی بجائے عوام کو ایک جگہ پر اکٹھا کرے ، ایسا مالک جو وطن عزیز سے بولی، جائیداد، سفارش ، مہنگائی ، دہشت گردی اور دوسروں کے حقوق سلب کرنے کی خاطر ہونے والی ہلاکتوں پر ایکشن لے اور پاکستان کے گرد محبت ، بھائی چارے اور اپنائیت کی وہ جھالر لگائے جو نئی نویلی دلہن کے دوپٹے پرلگی ہوتی ہے۔ ایسا سربراہ جو پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دے تاکہ دوسرے ممالک سے آنے والے مسافر یہاں رکیں، سستائیں اور کھانے پینے کی اشیاء لیں ، ان مسافروں کو تحفظ ملے اور وہ پاکستان آنے میں کوئی خطرہ محسوس نہ کریں ۔کیا ہمیں ڈیرہ پاکستان کیلئے ایسا مالک (سربراہ) کبھی ملے گا ؟اگر جانوروں کو ایسا مالک مل سکتا ہے تو ہمیں بھی ضرور ملے گا کیونکہ ہم تواشرف المخلوقات ہیں۔
تازہ ترین