غزہ میں کوئی بھی جنگ بندی مستقل شکل اختیار نہیں کر سکی۔ اسرائیل کا مقصد حماس کی فوجی استعداد کو نیست و نابود کرنا ہے۔ بظاہر اسرائیل اس میں ناکام نظر آتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یا ہو نے دو بنیادی کامیابیاں حاصل کی ہیں ، اول تو یہ کہ اس نے دنیا میں یہ تاثر قائم کیا ہے کہ اس کی موجودہ جنگ فلسطینیوں کے خلاف نہیں بلکہ صرف حماس کے خلاف ہے۔ دوسرے اس جنگ میں اسرائیل نے بہت سے عرب ملکوں کی خاموش حمایت حاصل کر لی ہے، یہ ملک حماس کو اسرائیل سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ بینجمن نیتن یاہو نے فلسطین پر قبضے کے تاثر کو ختم کرکے اسے حما س ۔اسرائیل تنازع کا رنگ دے دیا ہے۔ اب دنیا کے میڈیا میں اس جنگ کی رپورٹنگ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ حماس غزہ نہیں ہے اور غزہ فلسطین نہیں ہے۔ اسرائیل کی حکمت عملی یہ ہے کہ جب تک غزہ کے فلسطینی حماس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوتے تب تک فوجی کارروائی جاری رکھی جائے۔ امریکہ اور مغربی دنیا کے میڈیا میں اس جنگ کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے اسرائیل حماس کے حملوں کے خلاف دفاعی جنگ لڑ رہا ہو۔ حقیقت تو اس کے برعکس ہے۔
فلسطین خون میں لت پت ہے، غزہ کی ہنستی بستی آبادی ملبے کا ڈھیر بنی نظر آتی ہے۔ ایک ماہ کے اندر اندر ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد معصوم بچوں اورخواتین کی ہے۔دوسری طرف اسرائیل کے تین شہری اور ساٹھ کے قریب فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے اس یکطرفہ جنگ میں ہر عالمی اصول اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس نے نہ اسکول اور اسپتال چھوڑے ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ کی اپنی عمارتیں جہاں بے گھر فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہے۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم ہو یا عالمی عدالت کوئی بھی فلسطینیوں کی داد رسی کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔ امریکہ اور مغرب تو اس نسل کشی پر بے اعتنائی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں ہی عرب حکمران بھی خاموش ہیں۔اقوام متحدہ بھی دکھاوے کے اجلاس بلاتی ہے اور اس کے بعد بنا کسی عملی اقدام کے خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کو انصاف دلانے والی کوئی بھی قرارداد امریکی ویٹو سے بچ نہیں سکتی۔ یورپی ممالک بھی امریکہ کے اتحادی ہوتے ہوئے اسرائیل کے خلاف کسی قسم کا فیصلہ نہیں ہونے دیتے۔ عرب دنیا کے بعض حکمران حماس کو اپنا دشمن قرار دیتے ہوئے پس پردہ اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چند دہائیاں پیشتر عرب دنیا کے اکثر ممالک فلسطینی مزاحمت کی حمایت کرتے تھے۔ اسی لئے 1967اور 1971میں عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کیا۔ عرب ممالک کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسرائیل نے بہت سے عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اب مصر،اردن، اور خلیجی ریاستوں کے حکمران خاموشی اختیار کرکے اسرائیل کی ہمت افزائی کر رہے ہیں ۔ اس کی وجہ ان کا خوف ہے کہ حماس اور اس کی حامی اخوان ا لمسلمین کے بنیاد پرست ان کا تختہ نہ الٹ دیں ۔یہ ممالک سیاسی اسلام سے خوفزدہ ہیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مصر کی حکومت نے فلسطینیوں پر اپنی سرحدیں بند کر دیں جس سے ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ مصر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا جو معاہدہ پیش کیا اس میں اسرائیل کی شرائط کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔ عرب دنیا کے بعض حکمران چاہتے ہیں کہ اسرائیل حماس کا مکمل خاتمہ کردے اور جب تک یہ نہیں ہوپاتا وہ خاموش رہیں گے۔ مصر کی حساسیت اس میں زیادہ ہے کیونکہ وہاں حماس اور اخوان ایک دوسرے کے اتحادی ہیں ۔ مصر کی حکومت اخوان سے جنگ لڑ رہی ہے اور اس حوالے سے حماس کو بھی اپنا دشمن قرار دیتی ہے۔عرب بہار میں بہت سے عرب مطلق العنان حکمرانوں کا تختہ الٹ دیا گیا تھا جس میں مصر کے صدر حسنی مبارک بھی تھے۔ اس کے بعد مصر میں انتخابات ہوئے جن میں اخوان فتح یاب ہوئی اور اس کے محمد مرسی صدر بنے۔ اس سے خلیجی ریاستوں میں تشویش پیدا ہو گئی کیونکہ ان ملکوں میں بھی اخوان کی تنظیم کافی مضبوط ہے۔صدر مرسی کے خلاف عوامی بغاوت ہو گئی (یا کروائی گئی) جس کے نتیجے میں فوج کے سربراہ ابوالفتح السیسی نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ خلیجی ریاستوں نے فوجی حکومت کی کامیابی کے لئے بڑی فراخدلانہ مالی امداد دی تاکہ مصر کی فوجی حکومت اپنے پاؤں جما سکے۔السیسی نے اپنے آپ کو صدر منتخب کروالیا اور اخوان پر پابندی لگا کر اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ اسرائیل نے بھی مصر میں فوجی حکومت کی حمایت کی۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح بعض عرب حکمرانوں اور اسرائیل کا پس پردہ گٹھ جوڑ ہوا ہے۔ بہت سے مغربی تجزیہ کار دعویٰ کرتے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اس لئے بھی قائم نہیں رہتی کہ مذکورہ عرب ریاستیں عملی طور پر اسرائیل کی حامی ہیں۔ امریکی صدر کے سابق مشیر ایرن ڈیوڈ ملر لکھتے ہیں کہ ’’عرب ریاستوں کی سیاسی اسلام کے ساتھ نفرت بینجمن نیتن یاہو سے زیادہ ہے۔
میں نے کبھی یہ صورت حال نہیں دیکھی کہ اتنی زیادہ عرب ریاستیں غزہ کی تباہی، بربادی اور حماس کی پٹائی پر تماشائی بنی رہیں۔ ان کی خاموشی خو فناک ہے‘‘ ۔ خلیجی ریاستوں سمیت بعض عرب حکمران تب سے خوفزدہ ہیں جب شاہ ایران کا تختہ الٹ کر اسلامی انقلاب آیا تھا۔ایرانی انقلاب کے بانی آیت خمینی عالمی اسلامی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے خواہاں تھے۔ ابھی تک ایران کے حکمران کسی نہ کسی انداز میں عالم اسلام میں انقلابی تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اس کے لبنان میں حزب اللہ سے قریبی تعلقات ہیں تو وہ حماس کی بھی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ شام کی حکومت بھی حماس کی حامی ہے۔ غرضیکہ حماس کا تعلق مشرق وسطی میں ان طاقتوں کے ساتھ ہے جسے بعض خلیجی حکمران اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں ۔ دنیا میں صرف لاطینی امریکہ کے بائیں بازو کے ممالک ہیں جنھوں نے فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے۔ بولیویا نے اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دے دیا ہے اور اجنٹائن نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی شہریت کو ختم کردیں ۔ اسی طرح برازیل اور دوسرے لاطینی ملکوں نے فلسطینیوں کی حالت زار پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا ہے۔ بھارت پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے زمانے تک فلسطین کی حمایت میں پیش پیش ہوا کرتا تھا لیکن موجودہ دائیں بازو کی حکومت اسرائیل نواز ہے۔ فلسطینیوں کی بدقسمتی ہے کہ بعضٗ عرب حکمران بھی اسرائیلی بر بریت کی درپردہ حمایت کررہے ہیں اور باقی دنیاکے اکثر ممالک بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔