• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں یہ کالم منگل12 اگست کی رات کووزیر اعظم پاکستان کے قوم سے خطاب اور اس پر عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے رد عمل اور سید خورشید شاہ اور دوسرے زعماء کرام کے تبصرے کے بعد تحریر کر رہا ہوں۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میںانتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ عدالتی کمیشن کے قائم کرنے کا اعلان کیا، جس کے بارے میںصرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ـ ’’بہت کم اور بہت دیر میں‘‘۔پچھلے چند روز سے اعصاب شکن صورت حال رہی ۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجودبہت بڑی تعداد میں لوگ ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع تحریک منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ پہنچے اور یوم شہداء کے حوالے سے جلسہ عام میں شرکت کی ۔ ماڈل ٹاؤن کا یہ اجتماع عوامی طاقت کا ایک متاثر کن مظاہرہ تھا ۔ اگر حکومت رکاوٹیں نہ ڈالتی تو لوگوں کی تعداد ان اندازوں سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ، جن اندازوں کی وجہ سے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔ اس دن پنجاب کے مختلف شہروں میں عوامی تحریک اور اس کی اتحادی جماعتوں کے کارکنوں کی گرفتاریاں ہوتی رہیں ۔ پولیس کے ساتھ تصادم کی رپورٹس آتی رہیں بین الصوبائی سرحدوں پر پنجاب کے داخلی راستوں پر بھی ان لوگوں کو جانے سے روکا گیا ، جو یوم شہداء کے جلسے میں شرکت کرنا چاہتے تھے ۔ ماڈل ٹاؤن کے عوامی اجتماع میں شریک لوگوں کے جذبات کو دیکھ کر یہ محسوس ہورہا تھا کہ وہ غیر معمولی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ جلسہ عام میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ بھی اعلان کیا کہ انقلاب مارچ 14 اگست کو شروع ہو گا ، جب پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ ہو گا اور وہ عمران خان کے آزادی مارچ کے ساتھ ہوں گے ۔ اس اعلان سے سیاسی ہیجان میں یک دم اضافہ ہو گیا اور ملک میں تیسری مرتبہ ایک منتخب اور بھاری اکثریت کی حامل حکومت کے لئےنہ صرف بے یقینی کے حالات پیدا ہو گئے بلکہ جمہوری نظام کےلئے بھی خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں ۔
میں ہمیشہ جمہوریت کا حامی رہا ہوں اور جمہوریت چاہتا ہوں لیکن اشرافیہ والی جمہوریت نہیں۔ میں وہ جمہوریت چاہتا ہوں ، جو غریب اور محروم طبقات کے حقوق کی محافظ ہو ۔جمہوریت جاگیردارانہ ( فیوڈل ) معاشرے کی پیداوار نہیں ہے۔ جمہوریت اس وقت آئی، جب معاشرہ جاگیردارانہ نظام سے نکل کر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف آگے بڑھا ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں لیکن ہمارے یہاں جاگیردارانہ اقدار اور طرز فکر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔ ملک میں صنعتیں تو لگی ہیں لیکن ہم فیوڈل ازم سے نہیں نکل سکے ۔ ہماری جمہوریت میں پرانے نظام کی خرابیاں تو موجود ہیں لیکن نئے نظام کی خوبیاں نہیں آ سکی ہیں ۔ جمہوریت کے لئے معاشرے میں خواندگی کی جو شرح ہونی چاہئے ، وہ نہیں ہے ۔ جمہوریت اوپر سے نچلی سطح ( گراس روٹ لیول ) تک اختیارات کی منتقلی کا نام ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے بغیر اختیارات کی یہ منتقلی نہیں ہوسکی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی سیاسی اور جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے بلکہ ہمیشہ آمروں نے ہی یہ کام کیا ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم سے آئین زیادہ جمہوری اور عوام دوست ہو گیا ہے لیکن ہم نے اس ترمیم کے بعض پہلووں پر غور نہیں کیا انتخابات کےلئے گریجویٹ ہونے کی شرط اچھی تھی مگر دونوں بڑی پارٹیوں نے اپنے مفاد میں اسے ختم کرا دیا ۔18 ویں ترمیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں میں جو تھوڑی بہت جمہوریت تھی ، وہ بھی ختم کر دی گئی پارٹی سربراہ کو آمرانہ اختیارات دے دیئے گئے ۔ کوئی بھی پارٹی میں نہ تو تنقید کر سکتا ہے اور نہ ہی سچ بات کہہ سکتا ہے ۔ جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت میں انتخابات نہیں ہوئے ۔ اگر ہوتے ہیں تو وہ صرف ضابطے کی کارروائی کے طور پر ہوتے ہیں اور ارکان کو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی سربراہ کے حق میں ووٹ دے دیں یا قرار داد منظور کر لیں جو لوگ آج جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے نعرے لگا رہے ہیں ، انہوں نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے اشرافیہ کی جمہوریت کے لئے راہ ہموار کی اور اپنے آپ کو احتساب سے بچانے کے لیے ایک نظام وضع کیا ۔ آج ایک امید وار انتخابات میں 10 سے 15 کروڑ روپے خرچ کرکے اسمبلی میں پہنچتا ہے ۔ وہ جب تک 10 گنا زیادہ رقم نہیں کمائے گا ، آرام سے نہیں بیٹھے گا ۔ پھر جو لوگ اکثریت کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں اور پورے ملک یا صوبے کو اپنی رعایا تصور کر لیتے ہیں ، انہوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ موجودہ انتخابی نظام میں وہ کس طرح منتخب ہو کر آئے ہیں اور کتنے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ 2013ء کے عام انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 42 لاکھ سے زیادہ تھی ۔ مسلم لیگ (ن) کو صرف ایک کروڑ 48 لاکھ 74 ہزار ووٹ ملے اور پیپلز پارٹی کو صرف 69 لاکھ 11 ہزار ووٹ ملے ۔ مسلم لیگ (ن) بمشکل 15 فیصد لوگوں کی جبکہ پیپلز پارٹی بمشکل 6 فیصد لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کل ووٹوں کے تناسب سے دوسرے نمبر پر آنے والی سیاسی جماعت ہے ، جس نے 76 لاکھ 79 ہزار ووٹ لئے ۔ اگر وہ کوئی بات کر رہی ہے تو حقیقی جمہوریت میں اسے وزن دالنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں جمہوری رویئے نہیں ہیں ۔ اس طرح دونوں بڑی حکمران پارٹیاں اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتیں ۔ نمائندہ پارٹی ہونے کے لئے کم از کم کل ووٹوں کا کم از کم 50 فیصد ووٹ لینا اچھی روایت ہے ۔
1970 کے بعد سے اس ملک میں سیاست بھٹواور پیپلز پارٹی کے حوالے سے ہو تی رہی ہے ۔ ہر بحران اور ہر دور میں پیپلزپارٹی کا بڑا کردار رہا ہے ۔آج اس ملک کے سب سے بڑے بحران اور عوام کے اجتماعی شعور کے اظہار میں پیپلز پارٹی کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ قومی سیاست میں غیرمتعلق ہو رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے سیاست دانوں سے رابطے کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے اوروہ یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ’’ہم بھی تو ہیں۔‘‘ جماعت اسلامی اور ایم کیوایم ساری باتوں کے باوجودبرمحل(Relevant) سیاست کرتی رہی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایم کیوایم کی سیاست ہمیشہ’’اسٹیٹس کو‘‘کے خلاف رہی ہے۔ آج کے زمینی حقائق کی روشنی میں مجھے ایم کیوایم کاسیاست میں کوئی اہم کردار نظرآرہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس کھیل سے باہر نہیں بیٹھی رہے گی۔اب میں سمجھتا ہوں کہ ایک لکیر کھنچ گئی ہے ۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں ، جو جاگیردارانہ اقدار کے ساتھ جمہوریت کو اشرافیہ کی حکمرانی قائم رکھنے کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں ، جو ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کے خلاف بات کر رہے ہیں ۔ اس صورت حال کی ذمہ داری میرے خیال میں ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے ، جو 2007ء کے بعد حکومتوں میں آئے ۔ انہوں نے گڈ گورننس ، سروس ڈلیوری اور عوام کو ریلیف پہنچانے پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ کرپشن ، اقربا پروری اور سیاست پر مخصوص لوگوں کی اجارہ داری اور قبضہ قائم کرنے کی کوششوں کو تقویت پہنچائی گئی ۔ اس طرح دونوں حکومتیںخراب گورنینس کی ا یسی مثال ہیں جسکی مثال کم از کم خطہ میں تو نہیں ملتی ۔ انہوں نے صرف اشتہارات کے ذریعہ حکومت کی کارکردگی کا پروپیگنڈہ کیا ۔ ایسی صورت حال میں موجودہ حالات کا پیدا ہونا کوئی حیران کن بات نہیں ہے ۔ اگر جمہوریت ناکام ہوتی ہے تو صرف ملک کی سیاست پر ہی نہیں بلکہ معیشت پر بھی اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے پچھلے دو دنوں میں اس بے یقینی کی کیفیت میں اسٹاک مارکیٹ میں1700 پوائنٹس سے زیادہ کی کمی ہوئی اور ملک معاشی طور پرمفلوج ہوکررہ گیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ گرنے سے تقریبا3کھرب کا نقصان ہوا۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بہت پہلے کمیشن کا مطالبہ کیا تھا ۔ عمران خان کا مطالبہ بلاجواز نہیں ہے ۔ا ب حکومت نے بد حواسی کے عالم میںجو لالی پاپ دینے کی کوشش کی ہے، میں نہیں سمجھتا اس سے اس بحران کا کوئی حل نکل پائے گا۔ حکومت پہلے ہی اس مسئلے کو سلجھا سکتی تھی لیکن حکمرانوں کی بے جا خواہشات پر مبنی اہداف اور غلط اندازوں نے صورت حال کو انتہائی گمبھیر بنا دیا ہے ۔ آئندہ چند دنوں میںجو خوف ناک کھیل ہونے والا ہے ، اس کے بارے میں خلق خدا کی یہ آواز سن لی جائے کہ
ہے افق سے ایک سنگ آفتاب آنے کی دیر
ٹوٹ کر مانند آئینہ بکھر جائے گی رات
تازہ ترین