• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منیر نیازی مرحوم کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصب کرے کیا غضب کے شاعر تھے اور بلا کے جملہ باز، اپنی سہل پسندی کا ذکر کیا تو لوگوں نے جانا کہ یہ ہمارے عیش کوش سہل پسند اور بروقت فیصلہ نہ کرنے کے عادی حکمرانوں کے بارے میں ہے؎
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں،ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو،کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیرکر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے، کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ، اسے جاکے بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہرکام کرنے میں
وزیر اعظم نے گزشتہ روز قوم سے خطاب کیا چودہ ماہ کی کارگزاری بتائی اشتہاری مہم میں درج کارناموں کا ذکر کیا، مخالفین کو فسادی اور فتنہ پرور قرار دیا اور پھر 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کا جائزہ لینے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین ججوں پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کر دی۔جسے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری دونوں نے پل بھر میں مسترد کر دیا۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’’ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں‘‘عمران خان چودہ ماہ سے دھاندلی کا شور مچارہے ہیں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور اے این پی سمیت ہر سیاسی و مذہبی جماعت کو دھاندلی کی شکایت ہے۔ عمران خان نے 27جون کو ڈیڑھ ماہ کا وقت دیکر لانگ مارچ کا الٹی میٹم دیا، ڈاکٹر طاہر القادری چودہ لاشیں کندھے پر اٹھائے دو ماہ سے شور مچا رہے ہیں مگر میاں صاحب کو تحقیقاتی کمیشن کی تجویز لانگ مارچ سے صرف ایک دن قبل سوجھی ۔جب احتجاجی تحریک کا جوش وجذبہ عروج پر ہے، قافلے چل پڑے اور قادری ،عمران عہدوپیماں ہو چکے۔ تجویز مناسب سہی مگر بعداز وقت اور غیر آئینی ہے آئین کے آرٹیکل 225سے صریحاً متصادم، آرٹیکل 225دوٹوک اور بے لچک ہے۔
"No election to a house or a provinciol assmbly shall be called and question except by an election petition presented to such tribunal and in such manner as may be determined by act of parliment"
وزیر اعظم کی تقریر اور تجویز سن کر آئین و قانون کی معمولی شدبد رکھنے والوں نے سرپیٹ لیا کہ حکومت کے مشیر کیا واقعی آئین سے نابلد، سیاسی حرکیات سے ناآشنااور بعداز وقت اقدامات کے تباہ کن نتائج کا ادراک کرنے سے عاری ہیں۔ سال بھر یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کا واحد فورم الیکشن کمیشن اور الیکشن ٹربیونلز ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے عمران خان کی رٹ پٹیشن سننے کے بجائے کہا کہ ہمارے پاس وقت نہیں بیس ہزار مقدمات پینڈنگ ہیں مگر اب سپریم کورٹ کے تین ججوں کو ایک ایسے تحقیقاتی ٹربیونل یا کمیشن میں شامل کرنے کی تجویز ہے جس کا قیام آئین کے منافی ہے، حکومتی دعوئوں کی نفی اور انتخابی عمل میں دھاندلی کے الزامات تسلیم کرنے کے مترادف ؎
دی موذن نے اذان شب وصل پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
27جون کو عمران خان نے لانگ مارچ کی دھمکی دی تو حکومت کے کسی چھوٹے بڑے کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ، الٹا چند وفاقی اور صوبائی وزراء کو عمران خان اور طاہر القادری کا مذاق اڑانے، انہیں مشتعل کرنے اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ایک دوسرے کے قریب لانے پر مامور کیا گیا، رہی سہی کسر پنجاب حکومت کی پولیس گردی اور کنٹینر پالیسی نے پوری کر دی۔ پابندیاں، دھمکیاں اور رکاوٹیں اپوزیشن کا کام آسان کرتی ہیں حوصلے بلند اور عزم پختہ مگر حکومت کے غیر سیاسی، انتظامی مشیروں کو یہ بات کون سمجھاتا اب وزیر اعظم آمادہ مفاہمت ہوئے تو اس وقت جب پانی سر سے گزر چکا اور عمران خان ،طاہر القادری کے پیروکاروں کو پتہ چل گیا کہ حکمران شدید اندرونی و بیرونی دبائو کا شکار ہیں اعصاب شکنی ہویدااور اپنے بچائو کے لئے پولیس، انتظامیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے محتاج۔
1977ء میں بھٹو صاحب نے اپنا اور قوم کا کافی وقت اور سیاسی کارکنوں کی قیمتی جانیں ضائع کرنے کے بعد اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لئے بعض اقدامات کئے ۔عوام کا غم وغصہ ٹھنڈا کرنے کی اس تدبیر کو مگر ویلے کی نماز کی بجائے کویلے کی ٹکر یں سمجھا گیا کسی نے کان ہی نہ دھرا اور اپنے وقت کا یہ مقبول، سیاست کا فیض شناس سیاست دان دھاندلی کے الزام میں حق حکمرانی اور زندگی سے محروم ہو گیا۔ ایک قدم پیچھے ہٹنا، مکمل پسپائی کی راہ ہموار کرتا ہے اور اپوزیشن کو دبائو بڑھانے پر آمادہ، یہ حکومت کی ناکامی کا اشاہ ہے۔بہتر تھا وزیر اعظم خاموش ہی رہتے ۔ اندیشہ یہی ہے کہ لانگ مارچ اور انقلاب مارچ نہیں رکے گا۔ عمران خان کو احساس ہے کہ حکومت سیاسی مفاہمت پر آمادہ نہیں ،یہ سیاسی دائو پیچ سے تحریک انصاف کے قائد کو اپنے کارکنوں کے سامنے ناقابل اعتبار ثابت اور احتجاجی تحریک کا جوش وجذبہ زائل کرنے کی شاطرانہ چال ہے کیونکہ اس طرح یہ کمیشن اور اصلاحاتی کمیٹیاں چار چھ ماہ باآسانی لے لیتی ہیں اور کسی تحریک کا ٹمپو ایک بار ٹوٹ جائے تو سال ڈیڑھ سال مزید ریاضت درکار ہوتی ہے اس لئے سراج الحق کی مخلصانہ مساعی بھی کامیابی ہوتی نظر نہیں آتی ۔
لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کو طاقت سے روکنے کی حکومتی پالیسی خوفناک تصادم کو جنم دے سکتی ہے اور لاہور ماڈل ٹائون طرز کا کوئی نیا سانحہ شاخ نازک پر قائم اس ناپائیدار ’’جمہوری‘‘ آشیانے کو ہوا میں تحلیل کر دے گا جس نے بجلی، پانی، گیس، پٹرول پمپ، شاہراہیں ،راستے، موبائل فون سروس، کاروبار سب کچھ بند کرکے عوام کا جینا محال کر دیا ہے اور کشتوں کے پشتے لگا کر اپنی حفاظت کی پالیسی پر کاربند ہے ۔تصادم، دفع الوقتی اور سہل پسندی کی یہ پالیسی موجودہ عوام دشمن ڈھانچے کو عوامی غیظ وغضب اور کسی مداخلت سے بچا سکتی ہے ؟کچھ کہنا مشکل ہے ۔
میاں صاحب سیاست دان بہت اچھے ہیں کامیاب و تجربہ کار، حکمران مگر منیر نیازی کی طرح؎
’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘کا نمونہ ہے
ضروری بات کرنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
طاہر القادری اور عمران خان کی کردار کشی کا اب کوئی فائدہ حکمرانوں کو نہیں کہ انہوں نے دیر کر دی۔
تازہ ترین