• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ یقین نہیں کریں گے۔ ہمارے شیر دریا بلکہ یوں کہئے کہ شیر جیسے دریا کا پانی امر ناتھ یاترا کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔کشمیر کے جو برفانی دریا صدیوں سے آہستہ آہستہ پگھل کر دریائے سندھ کو موج زن کرتے آرہے ہیں وہ گلیشئرلاکھوں زائرین کے چھوڑے ہوئے کوڑے کباڑ اور غلاظتوں اور نجاستوں سے اَٹ گئے ہیں ۔ اور جو نتیجہ نکلتا نظر آرہا ہے وہ نہایت تشویشناک ہے۔ اس سلسلے میں دنیا کے مشہور ادارے نیشنل جیوگرافک نیوز نے اپنی ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں پاکستان کی سرحد کے قریب امر ناتھ کے غار وں کی زیارت کے لئے ہر سال جو ن جولائی اور اگست کے مہینوں میں تھوڑے بہت نہیں، تقریباًستّر لاکھ یاتری دنیا بھر سے کشمیر پہنچتے ہیں اور مرتے کھپتے، صعوبتیں اٹھاتے تیس میل کا راستہ طے کر کے برفانی علاقے میں ان غاروں کی زیارت کرنے جاتے ہیں جنہیں وہ دنیا کا مقدّس ترین مقام تصور کرتے ہیں۔اُن کا عقیدہ ہے کہ پانچ ہزار سال پہلے سب سے زیادہ متبرک دیوتا شیوا نے یہیں تپسّیا کر کے کائنات کے سارے راز جانے تھے ۔ اور یہی نہیں، ان غاروں میں برف سے بنا ہوا لارڈ شیوا کا لنگم ایستادہ ہے اور یہ کہ ہر چیز کی ولادت اسی سے ہوئی ہے۔ اس کی بحث میں پڑنا ضروری نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دور دراز برفانی علاقے میں جانا عبادت کی معراج سمجھا جاتا ہے اور بعض لوگ تو بیس بیس سال سے ہر برس جان ہتھیلی پر رکھ کر اس یاترا پر جاتے ہیں اور کتنے ہی تو وہیں مرکھپ جاتے ہیں یاپھر برفانی تودوں تلے دب کر ختم ہو جاتے ہیں۔ ابھی پچھلے ہی سال ایسے ہی ایک سانحے میں سو کے قریب یاتری ہلاک ہوگئے تھے۔بے شمار زائرین برف میں چلتے ہوئے پیدل جاتے ہیں، ہزاروں افراد گھوڑوں اور خچروں پر سوار ہوتے ہیں، جو پیسے والے ہیں ان کی ڈولی کو کہار اٹھاتے ہیں اور جدید زمانے نے اس علاقے کو بھی نہیں بخشا ہے اور رؤسا اور امرا ء کے لئے روزانہ ہیلی کاپٹر کی تین سو پروازیں چلنے لگی ہیں جس کا آنے جانے کا ٹکٹ دو سو ڈالر سے کم نہیں ہوتا۔اب تصور کیجئے کہ یہ جم غفیر ان چڑھائیوں پر پہنچ جاتا ہے، اور راستے بھر پانی کی خالی بوتلیں، ٹین کے ڈبّے،گیس کے کنستر، ہر طرح کے بکسے، شیشیاں، بچا کھچا کھانا، اور آخری غضب یہ کہ صبح صبح کی غلاظتوں اوردن بھر کی نجاستوں کے انبار اپنے پیچھے چھوڑتا چلا جاتا ہے۔یاتری یہ سارے منظر دیکھتے ہیں۔ زائرین بتاتے ہیں کہ راستے بھر انہیں راہ میں دم توڑ دینے والے گھوڑوں اورخچروں کے ڈھانچوں کے علاوہ انسانی لاشیں بھی نظر آتی ہیں۔ چونکہ یاتریوں پر کسی قسم کی کوئی روک تھام نہیں، ان کی تعداد ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔اسی مناسبت سے کثافت اور آلودگی کے انبار اونچے ہوتے جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ لاکھوں افراد کے ساتھ جو آلودگی آتی ہے اس کے نتیجے میں علاقے کی پہاڑی چوٹیاں سیاہ پڑگئی ہیں۔ ماہرین اپنی سائنسی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں کہ برفانی دریا یا گلیشئر کا درجہء حرارت صفر سے بھی کم ہوتا ہے لیکن اس مقام پر ہزارہا افراد آجائیں تو یہ ٹمپریچر سینتیس سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اوپر سے ہیلی کاپٹر بھی آنے جانے لگے ہیں جو اپنے تابکار اثرات چھوڑتے ہیں جس سے درجہء حرارت اَور بڑھتا ہے۔ نتیجہ وہی ہوتا ہے جس کا ہمیں ابھی تک احساس نہیں کہ کتنا خطرناک اور تشویش ناک ہوتا ہے۔ اس سے علاقے میں برف پگھلتی ہے اور گلیشئر کی شکل میں جو قدرتی وسائل موجود ہوا کرتے تھے وہ مٹتے جاتے ہیں۔ہمالیہ پر ان برفانی دریاؤں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان ہی سے ہمارے دریائے سندھ اور علاقے کے دوسرے دریاؤں کوپانی نصیب ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کی نوے فی صد کھیتیاں اسی پانی کی بدولت لہلہاتی ہیں۔سائنس دانوں کو فکر ہے کہ موسمی تبدیلیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور گلیشئر یوں ہی پگھلتے رہے تو زراعت کا کیا ہوگا۔ سرینگر یونیورسٹی کے ایک سرکردہ استاد نے باضابطہ مطالبہ کیا ہے کہ زائرین اور سیاحوں کی تعداد پر پابندی لگائی جائے تاکہ ماحولیاتی نظام درہم برہم نہ ہونے پائے۔ حکومت نے اتنا ضرور کیا ہے کہ یاتریوں کو لانے لے جانے والے ہیلی کاپٹروں کو امر ناتھ کے غاروں سے کافی دور اتارا جاتا ہے۔مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ اس کاروبار میں اتنا زیادہ منافع ہے کہ تین مہینے تک فضا میں ان کا شور مچا رہتا ہے۔کچھ ماہرین نہایت سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ہیلی کاپٹر سروس بالکل ختم کی جائے لیکن دولت مند زائرین مچل گئے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اَور زیادہ پروازیں کی جائیں،ریسٹ ہاؤس،گیسٹ ہاؤس تعمیر ہوں، غاروں تک پکّی سڑک بنے اور دو رویہ روشنیاں لگائی جائیں۔ ان سے پوچھاگیا کہ پھر عالمی ماحول کا کیا بنے گا تو جواب ملا کہ ماحول تو ساری دنیا ہی کا بدل رہا ہے۔ دنیا گرم ہوتی جارہی ہے۔کون سا آسمان گر پڑے گا۔ مگر بیس سال سے ہر برس آنے والے ایک یاتری نے کہا کہ علاقے میں اتنی غلاظت پھیلی ہے کہ پہاڑی نالوں میں بہنے والے پانی سے آپ منہ نہیں دھوسکتے۔ اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن کوئی وحشی، کوئی درندہ نہیں، خود انسا ن ہے۔
یہ بات تو ہر ایک کہتا ہے اوریہ بات کہنا بہت آسان بھی ہے کہ ساری دنیا ہی کا موسم ، ماحول اور فضا سب خراب ہو چلے ہیںلیکن آج یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے سنہ نوّے اکیانوے کا اپنا ہمالیہ کے اوپر اُڑ کر اس کے پچھواڑے لدّاخ جانا یاد آرہا ہے جہاں چھوٹے سے نو خیز دریائے سندھ کے کنارے ہم سب جوان اور بوڑھے احباب بیٹھے اُسی دریا کی باتیں کر رہے تھے۔علاقے کے ایک بزرگ کلونگ رگزی ننگل(لدّاخ میں ایسے ہی نام ہوتے ہیں)ہماری باتوں میں شریک تھے۔ پرانے زمانوں کی بات چھڑی۔ ان کی بات دھیان سے سنئے تاکہ پتہ چلے کہ وہاں ساری دنیا سے الگ تھلگ کیسی اردو بولی جاتی ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہاں کا انداز فکر کیسا ہے۔ کہنے لگے ’’پہلے زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ نالے میں پانی بہتا تھا تو ہر ایک مذہب کے لوگ ہمیں ہدایت کرتے تھے کہ اس پانی میں آپ ہاتھ نہ دھوئیے، نیچے کہیں کوئی اس پانی کو پینے والا بھی ہوگا۔ تو ہمارے بچپن کے زمانے تک لوگ کسی برتن میں نالے کا پانی نکالتے تھے اور ذرا دور سوکھی زمین پر پیتے تھے اور وہیں ہاتھ دھوتے تھے۔ مگر اب لوگ اسی نالے میں پیشاب کرتے ہیں، گندے کپڑے دھوتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ہر مذہب میں ہدایت تھی کہ راستے میں کوئی پتھر پڑا ہو اور ٹھوکر لگنے کا خطرہ ہو تو راستے کو صاف کرتے چلیں۔ اب تو راستے کو بگاڑتے جاتے ہیں۔ یہ حالت ہے۔‘‘
کلونگ رگزی ننگل صاحب یہ کہہ کر ہنسے۔ ہم یہ سن کر روئے۔ جس شے کو وہ نالا کہہ رہے تھے وہ ہمارا دریائے سندھ تھا۔ کیسے چپ چاپ بہے جا رہا تھا۔ یوں لگا کہ دیکھا دیکھی سارا ماحول پر سکون ہو گیا ہے۔ چرواہے گا رہے تھے، قصّہ گو لمبی لمبی داستانیں سنا رہے تھے۔ کوئی گدا گر خاتون اونچی لے میں گارہی تھی۔ نوجوان تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے، دور کہیں ڈھول پر ایک خاص طرح کی تھاپ پڑ رہی تھی جس کا مطلب تھا کہ پولو کا مقابلہ شروع ہوا ہی چاہتا ہے، اپنے اپنے گھوڑے کھولو اور آجاؤ میدان کے بیچ۔یہ سب ان خشک پہاڑوں کا چمتکار نہیں تھا جن پر پانی کی طرح ریت بہتی ہے۔ یہ ہونہ ہو، ان وادیوں کے بیچ بہے جانے والے ہمارے اس دریا کا سحر تھا جس کے بارے میں تبّت والوں کو یقین ہے کہ شیر کے منہ سے نکلتا ہے۔ وہ اس دریا کو سنگھ دریا کہتے ہیں۔ شوق سے کہیں کیونکہ اس میں ساری خوبیاں شیر ہی کی ہیںسوائے اس کے کہ شیر نگلتا ہے، ہمارا یہ دریا اگلتا ہے، حیات ، نعمت اور سب سے بڑھ کر جئے جانے کی امنگ۔خدا اسے جیتا رکھے۔
تازہ ترین