• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
14اگست کا دن تھا ،ایک پر وقار قومی تقریب میں ملک کے معززین جمع تھے۔اچانک ا طلاع موصول ہوئی کہ غلامی کی زنجیروںمیں جکڑے مجبور و مقہور لوگوں نے بغاوت کر دی ہے اور اپنی محرومیوں کا انتقام لینے کے لئے سب کچھ نیست و نابود کرتے چلے آ رہے ہیں۔غلاموں نے تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت بغاوت کی تو مزارعین نے کھیت جلا ڈالے، مزدوروں نے فیکٹریوں کو آگ لگا دی اور بے گھروں نے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ہر وہ شخص ان کے نشانے پر تھا ،جس کے پاس دولت تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے لاشوں کے ڈھیر لگ گئے اور جب مسلسل تین سال کی قتل و غارت گری کے بعد بدلے اور انتقام کی آگ بُجھی تو پانچ لاکھ آبادی کے حامل ملک میں ایک لاکھ 24ہزار انسان لقمہ اجل بن چکے تھے۔یہ 223سال پرانی داستان ہے اور اسے ہم انقلاب ہیٹی کے نام سے جانتے ہیں۔یہی وہ دور ہے جب فرانس میں بھوک و افلاس سے تنگ افراد شاہی محل کے سامنے اپنی فریاد لیکر جمع ہوئے ،ان کا مقصد حکومت کا تختہ الٹنانہیں تھا،وہ تو بس روٹی مانگ رہے تھے لیکن جب ان کی غربت کا مذاق اڑایا گیا ،یہ پھبتی کسی گئی کہ روٹی نہیں ہے تو جا کر چوپائیوں کیساتھ گھاس کھائو اور شکم کی آگ بجھائو۔جب انہیں روٹی کے بجائے کیک کھانے کا مشورہ دیا گیا تو پھر ان کی نیت اور ارادے بدل گئے اور انہوں نے ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت کی ٹھان لی۔جس بد بخت نے انہیں گھاس کھانے کوکہا تھا سب سے پہلے اس کے منہ میں گھاس ٹھونسی گئی اور پھر گلوٹین کے تیز دھار آلے سے گردن اتار دی گئی۔انقلاب آیا تو جگہ جگہ عوامی عدالتیں سجیں،جب کسی مجرم کو پکڑ کر لایا جاتا تو اور مقدمے کی کارروائی شروع ہوتی تو کوئی بحث ہوتی نہ صفائی کا موقع دیا جاتا بس ملزم کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر دیکھا جاتا کہ اس کی جلد کھردری ہے یانرم و ملائم۔کھردرے ہاتھوں والے کو غریب اور مزدور سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا جبکہ نرم و نازک ہاتھوں والے کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا۔یوں اس انقلابی دورمیں ہزاروں نہیں لاکھوں فرانسیسی اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں مارے گئے۔بیسویں صدی کے آغاز میں جب روس پر نکولس دوئم کی حکومت تھی تو ’’بلڈی سنڈے ‘‘ کا اندوہناک واقعہ پیش آیا جو آگے چل کر بالشویک انقلاب کی بنیاد بنا۔22جنوری 1905ء میں ایک پادری فادر گاپون کی قیادت میں ڈیڑھ لاکھ افراد سینٹ پیٹرز برگ میں جمع ہوئے۔یہ کوئی سیاسی نوعیت کا اجتماع نہ تھا اور نہ ہی اس کے مقاصد اس طرح کے تھے۔ان کے تحت الشعور میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ہم حکومت گرائیں گے۔ان کے مطالبات تو بہت سیدھے اور سادے تھے کہ ان کی مشکلات دور کی جائیں۔انہوں نے حاکم وقت کو پیش کرنے کے لئے جو عرضی تیار کی ،وہ بھی نہایت اثر انگیز الفاظ پر مبنی تھی۔لکھا تھا’’اے ہمارے بادشاہ! ہم سینٹ پیٹرز برگ کے مکین اور مزدور،ہماری بیویاں ،ہمارے بچے اور والدین،بےیار و مددگار اور بوڑھے مرد و زن،سب تیرے دربار میں انصاف اور امان کی تلاش میں آئے ہیں۔ہم بھکاری ہیں،ہم مجبور و مقہور ہیں،کام کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں،ہماری تضحیک کی جاتی ہے،ہمیں انسان نہیں بلکہ غلام سمجھا جاتا ہے۔ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ناقابل برداشت مصائب و آلام کے مقابلے میں موت بدرجہا بہتر محسوس ہوتی ہے۔ہم آخری التجاء لیکر تیرے پاس آئے ہیں۔ہمیں خالی ہاتھ نہ بھیجو ،اپنے اور اپنے لوگوں کے درمیان حائل دیوار گرا دو‘‘اگر یہ درد بھری اپیل حاکم وقت تک پہنچ جاتی تو شائد اس کا دل پسیج جاتا مگر بادشاہ اور رعایا کے مابین حائل دیوار نہ ٹوٹ سکی۔جب یہ لوگ ونٹر پیلس کی جانب بڑھے تو حفاظت پر مامور مسلح محافظ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور مظاہرین پر گولی چلا دی۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تو اس بلڈی سنڈے کو مارے جانے والے افراد کی تعداد 100سے زائد نہ تھی مگر افواہوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ تعداد ہزاروں تک جا پہنچی۔حکومت کے خلاف انقلابی جدوجہد شروع ہوئی تو مطالبات بھی بدل گئے اور روٹی کے بجائے منتخب پارلیمنٹ کے قیام کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔روس کے اس انقلاب کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد مورخین 17لاکھ سے 90لاکھ بتاتے ہیں۔امریکہ میں ہونے والی سول وار کو بھی انقلابات کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔اس انقلاب کے دوران 6لاکھ امریکی ایک دوسرےکےہاتھوں مارے گئے۔مائوزے تنگ کا ملک چین جہاں سے ہم نے لانگ مارچ کی اصطلاح مستعار لی ،وہاں ثقافتی انقلاب آیا تو 30لاکھ انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل دیئے گئے۔ کیوبا میں فیڈل کاسترو نے ایک ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے انقلاب برپا کیا تو پچاس ہزار افراد قتل ہوئے ،اور نتیجہ کیا نکلا،ایک ڈکٹیٹر کی جگہ دوسرے ڈکٹیٹر نے لے لی۔ایران میں انقلابی جدوجہد کچلنے کے لئے شاہ ایران کی حکومت نے 60ہزار افراد کے خون سے ہاتھ رنگے تو انقلاب آنے کے بعد اس سے دوگنا زائد سیاسی مخالفین کو قتل کیا گیا۔انقلاب خون خرابے،جنگ و جدل اور تباہی و بربادی کا دوسرا نام ہے مگر نجانے کیوں ہمارے ہاں ہر شخص کی تان یہیں آ کر ٹوٹتی ہے کہ اب تو کوئی انقلاب ہی آنا چاہئے۔ہمارے ہاں احتجاج کی قیادت کرنے والے قائدین انقلاب کی بات بھی کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد پُرامن ہو گی بھلا کوئی انقلاب خون خرابے کے بغیر کیسے آ سکتا ہے؟انقلاب تعمیر ضرور کرتا ہے مگر اس منزل تک پہنچنے کے لئے تخریب کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ویسے بھی اس خطے میں نہ ماضی میں کسی انقلابی جدوجہد کے آثارملتے ہیں اورنہ مستقبل میں اس طرح کے امکانات دکھائی دیتے ہیں کیونکہ جس طرح ہمارے ہاں دیگر اشیاء میں ملاوٹ اور جعلسازی کا رجحان ہے،اسی طرح یہاں ہر چیز ہی دو نمبرہے۔جیسے گوالے دودھ میں پانی ملانے کے بجائے پانی میں تھوڑا سا دودھ ملا کر بیچتے ہیں ،ویسے ہی ہم نے آمریت میں جمہوریت کی تھوڑی سی آمیزش کر کے خود کو دھوکا دے رکھا ہے۔ہمارے ہاں انقلاب کا سیلاب ہر بار ظالمانہ نظام سے ٹکرانے کے بجائے تعفن زدہ جوہڑ میں اس لئے تبدیل ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہاں انقلابی ہی شتابی نہیں بلکہ نیم خوابی کا سبب ہیں۔
زیرنظرسطور آپ تک پہنچیں گی تو آزادی اور انقلاب مارچ کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔اگر ہمارے حکمرانوں نے سیاسی فہم و فراست کا ثبوت دیا تو یہ بحران ٹل جائے گا لیکن جس دن محکومی کی زنجیروں میں جکڑے گئے عوام بغاوت پر آمادہ ہو گئے اور انہیں حقیقی قیادت میسر آگئی ،اس دن ہر اس شخص کا یوم حساب ہو گا جو اس نظام کا پتھارے دار ہے۔اگر ان دھرنوں اور لانگ مارچوں سے بچنا ہے تو ظلم و جبر کے ستائے اور تنگ آئے عوام کی عرضی پر غور کرنا ہو گا۔اگر اپنی ڈبل روٹی بچانی ہے تو ان غریبوں کے لئے روکھی سوکھی کا انتظام کرنا ہو گا۔حکام اور عوام کے درمیان حائل دیوار ختم نہ ہوئی تو ایک دن یہ لوگ پھر آئیں گے،کسی عمران خان،کسی طاہر القادری کی قیادت کے بغیر اور پھر واپس نہیںجائیں گے۔ڈرو اس وقت سے جب تیونس،مصر اور لیبیا کی طرح یہاں بھی تاج اور تخت اچھالے جائیں گے۔
تازہ ترین