• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست کو عام طور پر اقتدار کا کھیل کہا جاتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ تا ہم دنیا آہستہ آہستہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل ہونہ ہو ، سیاسی اخلاقیات کا کوئی نہ کوئی پیمانہ ضرور ہونا چاہئے۔ چند روز قبل برطانیہ کی سینئر وزیر سعیدہ وارثی کا استعفیٰ سیاسی اخلاقیات کا مظہر تھا۔ وہ برطانیہ کی پہلی مسلمان خاتون ہیں جو برطانوی کابینہ کی رکن بنیں۔ پاکستانی نژاد سعیدہ وارثی کا یہ اعزازخود پاکستان کے لئے بھی باعث افتخار ہے۔ انہوں نے فلسطین میں جاری اسرائیلی بر بریت پر برطانوی حکومت کی پالیسی کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دیا۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو لکھے گئے استعفیٰ میں ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ پارٹی ملاقاتوں میں متواتر اس امر کا اظہار کرتی رہی ہیں کہ فلسطین کی حالیہ صورتحال پر انکی حکومت کی پالیسی اخلاقی طور پر نا قابل دفاع Morally Indefesible) ( ہے۔ اسی تناظر میں انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعیدہ وارثی مسلمان سہی تا ہم وہ کسی مسلمان ملک یا حکومت کی نمائندہ نہیں۔ برسوں سے برطانیہ میں مقیم ،برطانوی خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی سعیدہ وارثی اپنی جماعت اور حکومت کے اسرائیل کی جانب جھکاو سے بخوبی آگاہ ہوں گی۔ اس کے با وجود انہوں نے اس پالیسی کا عوامی سطح پر دفاع کرنا ایک غیر اخلاقی فعل گردانا اور وزارت چھوڑنے کو ترجیح دی۔
پاکستان میںسعیدہ وارثی کے اس اقدام کو بے حد سراہا گیا۔ ہمارے ہاں ایسے واقعات قابل تحسین تو ضرور گردانے جاتے ہیں مگر شاذ ہی قابل تقلید سمجھے گئے ہوں۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ مہذب ممالک میں کوئی حادثہ یا سانحہ پیش آیا تو وہاں کاحکومتی عہدیدار مستعفی ہو گیا۔ مگر یہ مہذب دنیا کی باتیں ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا طرز عمل پروان چڑھ سکا نہ طرز فکر ۔یہاں توسنگین حادثے، سانحے اور خسارے کی صورت بھی عہدہ چھوڑنا تو درکنار، کسی شرمندگی اور ندامت کے اظہار اور ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ذمہ داران بڑھ چڑھ کر اپنا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ۔ قائد کا پاکستان دو لخت ہو گیا۔ مگر نہ تو کسی نے اس قومی سانحے کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی ہم نے آج تک اس کے پس پردہ حقائق معلوم کرنے اور اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس کی۔
صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کو اخلاقیات سے مبرا تصور کیا جاتا ہے۔ جس میں اصول اور نظریات جیسے عوامل خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ جس بابائے قوم کے ہم نام لیوا ہیں ان کی سیاست اصولوں ، نظریات اور اخلاقیات کا مجموعہ تھی۔ تاریخ پر نگاہ ڈالیں، بیشترسیاستدان بار بار غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتے اور جمہوریت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کا باعث بنے۔ تاہم برسوں بعد بھی کسی نے اس پر شرمندہ ہونے اور قوم سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ لال مسجد اور اکبر بگٹی کی شہادت جیسے واقعات کو بھی قابل تائید قرار دیتے ہوئے ان کارگزاریوںکا دفاع کیا جاتا رہا۔ سیاسی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر کو بار بار باوروی منتخب کروانے کی دعویدار جماعتیں اور سیاستدان جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو اپنے ماضی کو فراموش کئے، آئین قانون کی بالا دستی کے نعرے بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
عام طور پر بلند و بانگ سیاسی نعروں کا عملی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تمام تر دعووں کے برعکس تحریک انصاف کو فرشتے میسر نہ آسکے۔ ماضی میں جنرل مشرف کے دست راست اور میڈیا پر مسلم لیگ (ق) کے پر زور حامی آج مسلم لیگ (ن) کے سر کردہ رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تقریبا سبھی جماعتوں میں یہی صورتحال ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کے طرز عمل میں اخلاقیات تو کیا بسا اوقات قومی مفاد کا پہلو بھی کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ منتہائے مقصود فقط ذاتی و سیاسی مفادات ہیں۔برسوں سے برسر اقتدار ایم کیو ایم کوکبھی کراچی کی شورش زدہ صورتحال پر استعفے دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اسکے کارکنان ماضی میں بارہا حکومتی عہدوں سے مستعفی توہوئے مگر کراچی کی صورتحال پر نہیں جماعتی اور سیاسی مفادات کے لئے۔
حالیہ سیاست پر نگاہ ڈالیں، عمران خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف سے انکی کوئی ذاتی دشمنی نہیں بلکہ نظریاتی اور اصولی اختلاف ہے۔حالانکہ واضح دکھائی دیتا ہے کہ شیخ رشید ، چوہدری برادران اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ہمراہی میں یہ اختلاف کس قدر نظریاتی اور اصولی ہے۔گذشتہ دنوں حکومت نے ڈاکٹرطاہر القادری اور چوہدری برادران کے مالی بد عنوانی کے معاملات پر گرفت کرنے کا فیصلہ کیا۔تاہم یہ فیصلہ عین لانگ مارچ سے قبل کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انتہائی جائز امر بھی سیاسی آمیزش کی وجہ سے ناقابل تائید دکھائی دیتا ہے۔یہ ہے ہماری سیاست اور طرز سیاست۔
درحقیقت ہماری سیاست میں نہ تو جمہوری رویے پنپ سکے اور نہ اخلاقی اقدار جڑ پکڑ سکیں۔تاحال کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خود کو قومی رہنما کہلوانے والے ہمارے سیاستدان اخلاقی طرز سیاست اپنائیں۔ اخلاقیات کاایک پہلو تو یہ ہے کہ کسی نظریے یا اصول کی بنیاد پر اقتدار چھوڑ دیا جائے جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اقتدار کی اندھی خواہش کو ہوس میں نہ بدلا جائے اور اس ہوس کے لئے تمام اصولوں اور نظریات کو پس پشت نہ ڈالا جائے۔ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ جب کوئی اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوا تو وہ سارے نظرئیے اور اصول چھوڑ آیا اور جو اقتدار سے محروم رہا اس نے اقتدار کے حصول کے لئے جائز نا جائز کی تمیز ختم کر دی۔ اصولوں اور نظریوں کو بالائے طاق رکھ دیا اور اپنے اس روئیے کے لئے کوئی نہ کوئی دلیل تراش لی۔ آج کل بھی ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔ وطن عزیز میں 2013 کے الیکشن کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل ہمارے پڑوس میں دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات ہوئے جن میں55 کروڑ کے لگ بھگ افراد نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ یہ انتخابات کسی نگران بندوبست کے تحت نہیں بلکہ اسی حکومت کے زیر انتظام ہوئے جو خود بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہی تھی۔ لیکن وہاں کسی طرح کا کوئی شور نہیں اٹھا اور کسی ہارنے والے نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ حکومت ایک فریق تھی اس لئے میں نتائج تسلیم نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں ایسی سیاسی اخلاقیات اب تک جگہ نہیں بنا سکی۔ آگے بڑھنے کی کوشش کی بھی جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی پھر پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ مقام افسوس کہ اپنی بات پر اڑ جانے والے لوگ کسی بھی ریاستی فورم کو تسلیم نہیں کرتے اور معاملات کو آئین اور قانون کی بجائے اسٹریٹ پاور کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے ابھی ابھی یوم آزادی منایا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ اس آزادی کے لئے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے بے مثال جدوجہد کی۔ یوں تو ہم ان کا نام بڑے احترام سے لیتے ہیں۔ انہیں قائد اعظم یعنی سب سے بڑا قائد تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے سیاسی اخلاقیات کا جو درس دیا اور جس کا انتہائی عملی نمونہ پیش کیا اس سے کوئی راہ نمائی نہیں لیتا۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ قائد اعظم نے بر صغیر کی مسلم قوم کے واحد لیڈر ہونے کے با وجود بھی گلی کو چوں کی احتجاجی اور شورش پسند سیاست کو قریب نہیں آنے دیا۔ وہ زندگی بھر نہ جیل گئے نہ اس وقت کے آئین و قانون سے ٹکرانے کی کوشش کی۔ ان کی ساری جدوجہد پر امن مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے پر مرکوز رہی ۔حتی کہ انہوں نے اپنی بصیرت کے ذریعے میز پر بیٹھ کر مذاکرات کی مدد سے پاکستان حاصل کر لیا۔ آج ہم ذرا سی بات پر لوگوں کو تشدد پر اکساتے ، قتل و غارت گری کی تلقین کرتے اور مسائل کو طاقت کے زور پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی اخلاقیات سے عاری یہ رویے پاکستان کے لئے ہمیشہ ایک مسئلہ رہے ہیں۔ اور آج بھی ہماری قومی ساکھ پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ ہمیں اپنے رویوں کی اصلاح احوال کرنا ہوگی کیونکہ ایسا کئے بنا نہ تو ہمارا ملک آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری لائی جا سکتی ہے۔
تازہ ترین