• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور سے اٹھنے والے ’’ طوفان ‘‘ کا کراچی سے نظارہ

یہ کالم اس وقت لکھا جا رہا ہے ، جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی قیادت میں ’’ آزادی مارچ ‘‘ اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی قیادت میں ’’ انقلاب مارچ ‘‘ کے قافلے ’’ تخت لہور ‘‘ کی راج دہانی سے اسلام آباد کے ’’ پایٔہ تخت ‘‘ کی طرف روانہ ہوئے ہیں ۔ پورے ملک میں ہیجان اور بے یقینی کی کیفیت ہے ۔ سندھ کے دار الحکومت کراچی میں بیٹھ کر آزادی اور انقلاب کے مفہوم کو پنجاب کی سیاسی قیادت کی سوچ کے تناظر میں سمجھنا کچھ زیادہ دشواری نہیں ہو رہی ہے ۔ دونوں مارچز کی قیادت کرنے والے صف اول کے رہنماؤں میں سندھ سمیت دیگر چھوٹے صوبوں کے معروف اور بااثر سیاست دانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کے لوگوں کا آزادی مارچ اور انقلاب مارچ سے صرف اتنا ہی تعلق ہے ، جتنا میڈیا ان میں ہیجان پیدا کر سکا ہے ۔ چھوٹے صوبوں خصوصاً سندھ کے لوگ اسے صرف پنجاب کی حکمران اشرافیہ کی آپس کی لڑائی سے تعبیر کر رہے ہیں اور اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اس لڑائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔ جوں جوں قافلے آگے بڑھ رہے ہیں ، توں توں آزادی اور انقلاب کے مفہوم اور تصورات کے بارے میں زیادہ سوالات پیدا ہو رہے ہیں ۔ سب لوگ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے ’’ آزادی کے متوالوں اور انقلابیوں ‘‘ کا راستہ روک کر کوئی دانش مندانہ کام نہیں کیا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اس تنقید میں پیش پیش ہے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بڑے فخر سے اپنے ’’ عظیم کارنامے ‘‘ بیان کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اپنے خلاف ہونے والے لانگ مارچز اور دھرنوں میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی بلکہ ان کے لیے سہولتیں فراہم کیں ۔ وہ 2009ء کے میاں نواز شریف کے لانگ مارچ اور 2012ء کے ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کا خاص طور پر حوالہ دیتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اسی طرح کا ’’ جمہوری رویہ ‘‘ اختیار کرنا چاہئے ، جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اختیار کیا تھا ۔ حالانکہ پیپلز پارٹی والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ لانگ مارچ اور دھرنوں کو روک ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ رکاوٹیں پیدا کرتے تو لانگ مارچ اور دھرنوں سے پہلے ہی ان کا کام ہو جاتا ۔ یہ مجبوری والا جمہوری رویہ پیپلز پارٹی والوں سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کو یہ ’’ جمہوری رویہ ‘‘ نہیں بچا سکا ۔ ان کے خلاف ہونے والے لانگ مارچ اور دھرنے محض ’’ ضابطے کی کارروائی‘‘ تھے ۔ اسی طرح میاں نواز شریف کی بھی دو حکومتیں بھی اسی ضابطے کی کارروائی کے بعد ختم کر دی گئیں ۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ حقیقی عوامی تحریکوں سے کسی بھی فوجی حکومت کا خاتمہ نہیں ہوا جبکہ نام نہاد عوامی تحریکوں سے ( جو صرف ضابطے کی کارروائی کے طور پر مصنوعی اندازمیں چلائی گئی تھیں ) 1977ء سے 1999ء تک پانچ جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں فیصلہ عوامی طاقت سے نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ کوئی اور کرتا ہے ۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے تو وہ غلط نہیں ہے ۔ میرے خیال میں اس نے اگر ’’ جمہوری رویہ ‘‘ اختیار نہیں کیا تو وہ حق بجانب ہے کیونکہ ایسے مارچ جمہوری حکومتوں کے خلاف صرف ضابطے کی کارروائی ہوتے ہیں اور اس کی ’’ ججمنٹ ‘‘ کرنے والے کوئی اور ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو جن لوگوں سے آزادی ملنی چاہئے یا جن لوگوں کے خلاف انقلاب برپا ہونا چاہئے ، وہ نہ صرف سب سے زیادہ پر سکون بیٹھے ہیں بلکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کر رہے ہیں ۔ سب لوگ انہیں کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ آزادی دلانے اور انقلاب برپا کرنے کے لیے وہ لوگ ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں ، جو پاکستان کے عوام کی جمہوری جدوجہد کا کبھی بھی حصہ نہیں رہے اور نہ ہی اس جدوجہد کی میراث ( Legacy ) سے ان کا کوئی تعلق ہے ۔ ان لوگوں کا ہدف وہ دہشت گرد نہیں ہیں ، جنہوں نے کراچی سے سوات اور وزیرستان تک لوگوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے ۔ آزادی اور انقلاب مارچ کرنے والوں کے قہرو غضب کا نشانہ وہ لوگ بھی نہیں ہیں ، جو جمہوری حکومتوں پر شب خون مارتے رہے ہیں ، عوام کے بنیادی حقوق سلب کرتے رہے ہیں اور آئین کو پامال کرتے رہے ہیں ۔ حریت پسندوں اور انقلابیوں نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے میں سزا دی جائے ۔ انہوں نے چھوٹے صوبوں کے سیاسی ، ثقافتی ، تہذیبی اور قومیتی استحصال کے خلاف بھی کبھی بات نہیں کی بلکہ یہ وفاقی اکائیوں کو توڑ کر ان کی وحدانیت اور تاریخی شناخت ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ آزادی اور انقلاب پسندوں سے ان لوگوں کو بھی خوف نہیں ہے ، جو پاکستان کے عوام کا معاشی استحصال کر رہے ہیں ۔ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ جاری ہیں لیکن طاقت کے اصل مراکز کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ارب اور کھرب پتی لوگوں نے اپنے گھروں پر سکیورٹی میںبھی اضافہ نہیں کیا ہے ۔ اگر خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف اس جمہوری نظام کو ہے ، جس کے لیے پنجاب سمیت پورے پاکستان کے غریب لوگوں نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ پاکستان کے عوام کی جمہوری میراث سے بے گانہ پنجاب کی اس لیڈر شپ کی تحریک آزادی اور انقلاب کا کیا نتیجہ نکلتاہے ، اس کا شدت سے انتظار ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ نتیجہ کچھ بھی ہو ، پاکستان کی ’’ بلقانائزیشن ‘‘ ( Balkanization ) کا عمل تیز ہو سکتا ہے اور اگر جمہوری نظام کو نقصان ہوا تو چھوٹے صوبوں میں بہت زیادہ احساس محرومی پیدا ہو گا ۔ پاکستان کے عوام نے حقیقی تبدیلی اور انقلاب کے لیے بہت طویل جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد میں بہت دکھ جھیلے ہیں ۔ ’’ فری میسن موومنٹ ‘‘ والے تصور انقلاب و آزادی سے وہ متفق نہیں ہو سکتے ۔ ایسے تصور انقلاب و آزادی کا بھانڈا پھوٹنے کے وہ منتظر ہیں ۔
تازہ ترین