• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اُن کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
دریچوں کو تو دیکھو، چلمنوں کے راز تو سمجھو
اُٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ
مصطفیٰ زیدی کے مندرجہ بالا اشعار آزادی مارچ اور لانگ مارچ کے قافلوں کی رفتار دیکھ کر میرے ذہن میں آئے۔ میں نے سوچا قارئین کی نذر کردوں۔ اس سال کا 14اگست یعنی ہمارا یوم آزادی بھی نئے انداز کا ہوا۔ آدھا تیتر، آدھا بٹیر۔ کراچی میں لوگوں نے جشن آزادی جوش و خروش سے منایا۔ 13اگست کی رات کو سڑکوں پر بچوں اور خواتین کے ہمراہ یوم آزادی پر کئے گئے بلڈنگوں اور سرکاری اداروں کی تعمیرات پر کئے گئے چراغاں کو دیکھنے اور یوم آزادی کا جشن منانے والوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کاروں، ویگنوں اور موٹر سائیکلوں پر پاکستان کے جھنڈے لگائے ہوئے رواں دواں تھا۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ رات بارہ بجے اندھا دھند ہوائی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا جو کافی دیر جاری رہا۔ یہ نوجوان اپنے قانون اور غیر قانونی اسلحہ سے ہوائی فائرنگ کرکے جشن آزادی کے موقع پر اپنی خوشی اور جذبات کا اظہار کررہے تھے۔کیا سماں تھا۔ دیکھنے جیسا۔ افسوس کسی ٹی وی چینل نے ان کا آنکھوں دیکھا حال نہیں دکھایا۔ دوسری طرف لاہور میں لانگ مارچ اور آزادی مارچ کی تیاریاں، پھر انتظار اور اس کے بعد دوپہر ایک بجے روانگی کی لمحے لمحے کی خبر تقریباً تمام چینل دکھا رہے تھے اور عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ ٹی وی کے سامنے دھرنا دے کر مستقل بیٹھا ہوا تھا، کچھ لوگ جو سیاسی طور پر جلوس جلسے کی سیاست سے بہت محظوظ ہوتے ہیں وہ وقتاً فوقتاً اپنے دوستوں اور عزیروں کو ٹیلیفون کرکے مختلف چینلوں پر ہونے والے پروگراموں کو دیکھنے کی تلقین کررہے تھے۔ کہیں کنٹینر ہٹانے کا منظر تھا اور سرکار کی طرف سے لگائی گئی رکاوٹیں قادری صاحب کی رہائش گاہ کے راستے سے ہٹانے کی کارروائیاں دکھائی جارہی تھیں اور کہیں عمران خان کے گھر کے باہر تیاری کے دوران انتظار کے مناظر، بھنگڑے، چہروں پر پاکستان کے جھنڈے بنانے کے مناظر تھے۔ پولیس کی نفری بھی بالکل غائب تھی۔
ایک اخبار کی خبر کے مطابق قائدین فائیو اسٹار ہوٹل کے کھانوں کے مزے اُڑاتے رہے۔ کھانے میں 5ڈشیں تھیں۔ کارکنوں سے بچنے کے لئے شیشوں کے آگے پردے لگا دیئے۔ بلٹ پروف کنٹینر میں لاہور کے صدر کی طرف سے اپنے قائدین عمران خان اور دوسرے شرکا کے لئے ظہرانے کا انتظام تھا جس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین اور دیگر شامل تھے۔ طاہر القادری کوامن کی ضمانت پر مارچ کی اجازت ملی۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب و سندھ کے گورنروں اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ سب کچھ تو ہو ہی رہا تھا اور ٹی وی کی اسکرین پر دیکھ کر عوام محظوظ ہورہے تھے دوسری طرف عدالتی فیصلے کی تفصیلات بھی چھٹی والے دن جاری ہوگئیں۔ جن کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل بنچ نے عمران خان اور طاہر القادری کی طرف سے وزیراعظم کے استعفیٰ، پارلیمان کی تحلیل، الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل اور ٹیکنوکریٹس حکومت کے قیام کے اور نئے انتخابات کے مطالبات کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں جماعتوں کے سربراہوں اور کارکنوں کو آئین کی خلاف ورزی پر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ میں نے اس فیصلے کی تفصیلات صرف اخبارات میں پڑھی ہیں۔ اصل فیصلہ نہیں پڑھا۔ یہ تین ججوں پر مشتمل بنچ کا فیصلہ ہے۔
یہ جو میں نے لکھا یہ تو سب خبریں تھیں جو آپ نے خود دیکھ بھی لی ہوں گی اور اخبارات میں پڑھ بھی لی ہوں گی۔ اب آئیے اصل کالم کی طرف۔ جو بات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ اپنے عمران خان اور قادری صاحب اسلام آباد پہنچ کر کیا کریں گے؟ استعفیٰ کا مطالبہ ؟ دھرنا؟ کتنے دن ؟ کہاں پر؟ اور پھر کیا ہوگا۔ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ نواز شریف استعفیٰ دے دیدیں گے اور کچھ تھینک ٹینک کے بقول اوپری سطح پر حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان کافی حد تک معاملات درست ہوگئے ہیں مگر میرا طوطا خاموش نہیں رہتا کچھ نہ کچھ بڑ بڑاتا رہتا ہے جو کبھی تو سمجھ آتا ہے اور کبھی نہیں۔ طوطا بھی چوری کے مطابق ہی بولتا ہے۔ فرض کریں معاملات طے نہیں ہوتے تو بھی ملک میں ان دونوں لانگ مارچوں نے کوئی ایسا ہیجان تو برپا نہیں کیا جس سے کوئی بڑا فیصلہ سامنے آجائے۔ صرف لانگ مارچ تو خدا جنت نصیب کرے قاضی حسین احمد بھی کیا کرتے تھے اور خود ہی اپنے کارکنوں کے ہمراہ سڑکوں پر جلوس نکالتے رہتے تھے۔ پھر نہ تو مارشل لا لگتا تھا اور نہ ہی کوئی حکومت استعفیٰ دیتی تھی۔ 90کی دہائی میں چار مرتبہ حکومتیں بدلیں اور صرف فوجی مداخلت سے۔ 99میں مشرف جب فضٗا میں تھے تو ان کے ساتھیوں نے ان کی برطرفی کا بدلہ لینے کے لئے ازخود پہلے سے طے شدہ کارروائی کی تھی جسے سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں جائز قرار دیا تھا۔ اب اگر عمران خان اور طاہر القادری کسی ایسی کارروائی کے منتظر ہیں تو وہ اور بات ہے۔ باقی جلسے جلوس سے پاکستان میں کبھی حکومت نہ بدلی ہے اور نہ بدلے گی۔ 1977کی پی این اے کی تحریک 4ماہ چلی مارچ 1977سے 4جولائی 1977 تک۔ کچھ نہیں ہوا۔ پھر 5جولائی 1977کو ضیا الحق نے 90دن میں انتخابات کرانے کا عندیہ دیا جو گیارہ سال پر چلا گیا۔ اگر ایسا کوئی معجزہ ہوجائے تو اور بات ہے۔ باقی جلسے جلوس سے صرف رونق لگتی ہے، خرچہ ہوتا ہے، خبریں بنتی ہیں اور جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ ’’کھایا پیا کچھ نہیں صرف گلاس توڑا ہے‘‘ آخر میں عبدالحمید عدم کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
چلتے نہیں بغیر تعاون کے سلسلے
دنیا تمام ایک ضرورت کی شکل ہے
کہتے ہیں خاموشی جسے ارباب آگہی
وہ میرے انہماک سماعت کی شکل ہے
تازہ ترین