• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
24 مارچ1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی نے پہلا جلسہ تقسیم اسناد کرنا چاہا تو طلباء کا اصرار تھا کہ مہمان خصوصی کے طور پر قائداعظم کو دعوت دی جائے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر محمود حسن، بابائے قوم کی صحت کی صورتحال سے آگاہ تھے۔ چنانچہ طلباء کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انہیں زحمت نہ دی جائے مگر ادھر تو ایک ہی نعرہ تھا کہ ڈگری لیں گے تو صرف قائداعظم کے ہاتھ سے۔ آپ کو پتہ چلا تو ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود ڈھاکہ کے طویل اور تھکا دینے والے سفر پر روانہ ہو گئے۔ یونیورسٹی پہنچے تو طلباء کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ وائس چانسلر نے خطبہ استقبالیہ ختم کیا تو فلک شگاف نعروں اور تالیوں کی گونج میں قائداعظم روسٹرم پر تشریف لائے۔ حاضرین کے جوش و جذبہ سے بے حد مسرور تھے۔ اپنے مخصوص انداز میں بایاں ہاتھ سینے پر رکھا اور دائیں سے تین بار خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔ پھر خفیف تبسم کے ساتھ گویا ہوئے۔ ’’وائس چانسلر صاحب نے میری تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میں جو بھی تھوڑا بہت کر پایا ہوں وہ میرا فرض تھا کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم سب پر لازم ہے کہ بے لوثی اور دیانتداری کے ساتھ قوم کی خدمت کریں۔‘‘
طلباء کو مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا ’’یونیورسٹی سے فارغ ہو کر آپ لوگ عملی زندگی میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ آپ کے سینئرز پر بھی یہ وقت آیا تھا۔ مگر ان میں اور آپ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آپ اپنی جدوجہد کا آغاز آزاد اور خودمختار مملکت کے اندر کرنے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا قیام فی الحقیقت ایک انقلابی تبدیلی ہے جس کے مضمرات کو سمجھنا ازبس ضروری ہے۔ اب ہمارا اپنا ملک ہے، ہماری اپنی حکومت ہے، عوام کی حکومت جہاں حاکم، عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ لیکن آزادی کی اپنی حدود و قیود ہیں۔ یہ اس امر کا لائسنس ہرگز نہیں کہ تم من موجی بن جائو۔ جو جی میں آئے کر گزرو۔ نہیں ہرگز نہیں۔ آزادی نے بے پناہ ذمہ داریوں کا بوجھ تم پر لاد دیا ہے۔ اب ہم پر لازم ہے کہ ایک متحد و منظم قوم کی حیثیت سے سرگرم عمل ہوں۔ اب جدوجہد والا سپاہیانہ انداز ترک کر کے جذبہ تعمیر کو اپنانا ہو گا، جو کوئی آسان کام نہیں۔‘‘
اپنی تمام تر توانائیاں تعلیم پر صرف کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ’’کسی سیاسی جماعت یا سیاستدان کے چکر میں نہ آئیں۔ سیاست آپ کا کام نہیں۔ آپ کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ اپنی ذات، والدین اور مملکت کے ساتھ انصاف کریں اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پڑھائی میں غرق ہو جائیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر آپ مستقبل کی ذمہ داریوں سے بہتر طور پر عہدہ برا ہو پائیں گے۔‘‘ قوم کے نونہالوں کو مردم شناسی کا درس دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’سازشی اور وطن دشمن عناصر سے چوکنا رہیں۔ دوسروں کو پیچھے دھکیل کر آگے بڑھنے والے خودغرضوں پر بھی نظر رکھیں اور اپنے اندر ملکہ پیدا کریں کہ سچے، سچے اور بے لوث سرفروشان وطن کی پہچان کر سکو۔‘‘ڈھاکہ سے لوٹے بمشکل دو ہفتے ہوئے تھے کہ اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ کو بھی قائد اعظم کو مدعو کرنے کی تحریک ہوئی۔ یہاں بھی معاملہ ڈھاکہ والا ہی تھا۔ ادھر بابائے قوم کی صحت کے مسائل اور ادھر طلبہ کا اسرار۔ معصومانہ دلیل دی گئی کہ اتنی دور ڈھاکہ بھی توہو آئے ہیں، پشاور کا سفر اس سے زیادہ تو نہیں۔ قائد کو علم ہوا تو فرمایا بے شک پشاور والوں کا حق بھی بنتا ہے۔ چنانچہ تشریف لے گئے۔12اپریل1948ء کو اسلامیہ کالج میں ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اس موقع پر میرا دھیان فطری طور پر تحریک پاکستان کی طرف جاتا ہے جس میں طلباء برادری بالخصوص صوبہ سرحد کے طالب علموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ریفرنڈم کے حوالے سے مجھے اہالیان صوبہ کے دوٹوک اور دانش مندانہ فیصلہ کا بھی ذکر کرنا ہے جو انہوں نے پاکستان کے حق میں دیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں اس فیصلہ تک لے جانے میں طلباء نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے.... اب جب کہ ہم نے آزادی کی منزل پا لی ہے تو لامحالہ آپ مجھ سے کچھ پندونصائح کی توقع بھی کر رہے ہوں گے کہ اس نوزائیدہ ریاست کی تعمیر و ترقی کے لئے ہمیں کیا کچھ کرنا ہو گا؟ تو سب سے پہلے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے تقاضوں میں فرق کو سمجھنا ہو گا۔ حصول پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہم حکومت کے خوب لتے لیا کرتے تھے کیونکہ وہ ایک بدیسی حکومت تھی جس سے ہم آزادی چاہتے تھے اور جس کے لئے ہم نے نوجوان نسل کی تعلیم سمیت بے پناہ قربانیاں دیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آپ نے اپنا فرض شاندار طریقے سے ادا کیا۔ اب جب کہ ہم منزل پا چکے ہیں۔ آپ کا اپنا ملک ہے اور آپ کی اپنی حکومت ہے جس میں آپ ایک آزاد شہری کی طرح زندگی بسر کر سکتے ہیں تو اب آپ کی ذمہ داریوں اور سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے حوالے سے آپ کی سوچ میں تبدیلی آنا بھی ازبس ضروری ہے۔
اپنے اندر ڈسپلن پیدا کرو۔ کردار کو مضبوط بنائو۔ آمادہ عمل رہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیم پر توجہ دو۔ آپ کے والدین اور ملک و ملت کی نظریں آپ پر لگی ہیں۔ تمہیں اپنے آپ کو دل و جان سے تعلیم کے لئے وقف کرنا ہو گا۔ حکم چلانے سے پہلے حکم ماننا سیکھو۔ سیلف کنٹرول کا خاص خیال رکھو تاکہ سنی سنائی باتیں اور خوش نما نعرے آپ کو متحرک نہ کر سکیں۔ اس عظیم الشان درس گاہ میں اپنے قیام کا بھرپور فائدہ اٹھائو تاکہ آنے والی نسلوں کی رہنمائی کر سکو۔ طلباء کی ایک اور عجیب عادت بھی ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو ہمہ دان سمجھتے ہیں اور اس زعم میں رہتے ہیں کہ کوئی بھلا ہمیں کیا سکھائے گا؟ ہم تو پہلے ہی سب کچھ جانتے ہیں۔ یہ سوچ بے حد نقصان دہ ہے۔ یاد رکھو کہ دانا لوگ خود تجربہ کرنے کی بجائے دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا۔ ’’یاد رکھو ہم ایک ایسی مملکت تعمیر کر رہے ہیں جو پورے عالم اسلام کا مقدر سنوارنے میں اہم کردار ادا کرے گی لہٰذا ہمیں وسعت نظری سے کام لینا ہو گا۔ ایسی وسعت نگاہی جس میں نسلی، لسانی اور علاقائی سوچ کی کوئی گنجائش نہ ہو… اپنےعمل اور سوچ میں وقارپیدا کرو۔ صبر کرنا سیکھو۔ روم ایک دن میں نہیں بن گیا تھا۔ لہٰذا ٹائم فیکٹربے حد ضروری ہے ۔ ہماری کامیابیوں اور کامرانیوں کا دارومدار اتحاد، تنظیم اور یقین محکم پر ہے اور یہ محکم یقین ہمیں اپنی ذات پر ہی نہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس پر بھی ہونا چاہئے کیونکہ قوموں کی تقدیر اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اس قدر پرمغز اور ایمان افروز فرمودات کسی تبصرہ کے محتاج نہیں۔ ڈھاکہ اور پشاور میں قائداعظم کے مخاطب گو طلباء تھے مگر ان کا پیغام پوری قوم کے لئے تھا۔ قائد کے ان فرمودات کو ہم نے کس قدر درخور اعتنا سمجھا ہے؟ اس پر بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ68واں یوم آزادی ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی تاکید ضرور کر رہا ہے کیونکہ معاملہ دعوت سے آگے نکل گیا ہے اور اب اصرار و تاکید کی نوبت آ چکی۔ یاد رکھیے اگر اب بھی نہ پلٹے تو پھر کسی اور کو دوش نہ دیجئے گا۔
تازہ ترین