وفاقی دارلحکومت کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ یہاں جب بادل برستا ہے تو خوب برستا ہے۔امروز بھی چھاجوں مینہ برسا۔اسی پر یاد آیا کہ ایک وقت تھا جب جناب شیخ الاسلام اتفاق مسجد میں امام تھے۔پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور انہوں نے اپنی راہ لی۔ 13اگست کی شام وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کے احاطے میں جشن آزادی کو منانے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا ۔جس کی تیاریاں دو روز قبل کچھ اس طرح سے شروع ہوئیں کہ سب سے پہلے ریڈزون اور گرد نواح کے علاقوں میں موبائل سروس بند کردی گئی اور پھر ریڈ زون کو مکمل سیل کردیا گیا۔وفاقی حکومت کے سینئر نمائندے بھی اس اقدام پرمتفق نہیں تھے ہر افسر یہی کہتا نظر آتا تھا کہ آرمی چیف و مسلح ا فواج کے سربراہان کی آمد کی وجہ سے تمام ذمہ داریاں فوج نےخود لے لی ہیں اس لئے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتے۔13اگست کی شام سویلین و فوجی مہمانوںکی آمد کے لئے رات9:30بجے کا وقت مختص کیا گیا تھا۔10:45 پر تقریب کے مہمان خصوصی جناب وزیراعظم پاکستان کو احاطے میں پہنچنا تھا۔راستوں کی بندش اور غیر معمولی ٹریفک کی وجہ سے 10:30پر امروز کابینہ ڈویژن کی جانب سے گیٹ نمبر 3پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ مہمانوں کی آمد روک دی گئی ہے۔مگر اللہ بھلاکرے جنرل صاحب کا جو میری طرح ہی تاخیر سے نمودار ہوئے تھے۔انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور پورےپروٹوکول کے ساتھ اندر داخل ہوگئے۔گیٹ کی سیکورٹی پر مامور ایک کیپٹن نے جنرل صاحب کا استقبال کیا اور خصوصی راستے سے لیجا کر انہیں تیسری لین میں لگی مخصوص کرسی پر بٹھادیا۔جنرل صاحب نے مجھے بھی اپنے ساتھ نشست پر بیٹھنے کو کہااور یوں مجھ سویلین کو بھی فوجی افسران اور ان افراد خانہ کے لئے مختص کئے گئے علاقے میں جگہ مل گئی۔میرے بالکل سامنے لین میں وزیر اعظم کے ایڈیشنل سیکریٹری فواد حسن فواد اور ان کے بالکل آگے لین ون میں جناب وزیر اعظم و آرمی چیف تشریف فرما تھے۔
ویسے تقریب میں مہمانوں کے لئے دوحصے بنائے گئے تھے۔وزیر اعظم و آرمی چیف کی نشستوں کے بالکل پیچھے ریٹائرڈ و حاضر سروس فوجی افسران اور ان کے افراد خانہ جبکہ دوسری جانب سینئر سول افسران دیگر مہمانوں کے لئے نشستیں مختص کی گئی تھیں۔تقریب میں جناب وزیر اعظم دس منٹ کی تاخیر سے پہنچے تو آرمی چیف اور چیف آف جوائنٹ اسٹاف نے ان کی کار کے پاس پہنچ کر ان کا استقبال کیا۔وزیر اعظم آرمی چیف کے ہمراہ اپنی مخصوص نشست پر آکر بیٹھ گئے۔ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔جب کہ آرمی چیف مکمل ہشاش بشاش معلوم ہورہے تھے۔آرمی چیف،اسپیکر قومی اسمبلی وفاقی وزراء و دیگر وی آئی پیز کے برعکس میاں نواز شریف کے ہمراہ خاتون اول بیگم کلثوم نواز نہیں تھیں۔جناب وزیراعظم سے چند ہی نشستوں کی دوری کی وجہ سے میں با ٓسانی ان کا مشاہدہ کرپارہا تھا ۔مگر پوری تقریب میں وزیراعظم گہری سوچ میں نظر آئے۔تقریب میں موجود مختلف سینئر فوجی افسران سے موجودہ ملکی حالات پرگفتگو ہوئی بیشتر افسران کی رائے تھی کہ فوج اس وقت کسی مارشل لا سمیت کسی بھی غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے گفتگو کے دوران میں نے سپریم کورٹ میںممکنہ غیر آئینی اقدام کے خلاف دائر کی جانے والے درخواست کا ذکر کیا تو ایک موصوف مسکراتے ہوئے بولے کہ آپ کو معلوم ہے کہ 2نومبر 2007کو اسی قسم کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر ہوئی تھی اور 5نومبر کے لئے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں لارجر بنچ تشکیل دیا گیا مگر ہم نے کیس کی سماعت سے قبل ہی3نومبر کو ملک میں آئین معطل کرکے ایمرجنسی کا نفاذکردیا۔مگر اب کی بار ایسا نہیں ہوگا۔اب عدالت عظمیٰ کیس کی سماعت کرے گی۔ملک کے حالات اب بدل چکے ہیں ۔گزشتہ روزسپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ناصر الملک کی سربراہی میں 4رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو مجھے دو روز قبل تقریب میں موجود فوجی افسر سے ہونے والی گفتگو یا د آگئی۔جب کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درخواست گزار سے پوچھا کہ شاید آپ کا اشارہ فوج کی جانب ہے کیونکہ ماضی میں بھی جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے مگر سب سن لیں اس وقت حالات اور تھے اور آج حالا ت اور ہیں۔موجودہ ملکی حالات میں ویسے دور دور تک کسی غیر آئینی اقدام کی گونج سنائی نہیں دے رہی مگر سپریم کورٹ آ ف پاکستا ن کے حالیہ فیصلے نے کسی بھی طالع آزما کی جانب سے کئے جانے غیر آئینی و غیر قانونی اقدام کو روکنے پر مہر ثبت کردی ہے۔
آج جب ایک نہیں دو دومارچ اسلام آباد میں داخل ہوچکے ہیں ۔وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والے جناب عمران خان صاحب 48گھنٹے تک انتظار کرنے والے اپنے کارکنان کو تیز بارش اور سرد رات میں چھوڑ کر خود بنی گالہ چلے گئے ہیں جبکہ جناب شیخ 50گھنٹے بعد بھی طبیعت ناسازی کو جواز بنا کر جلسہ گاہ میں تشریف نہیں لائے تو ایسے حالات میں انقلاب کے نعرے اور دعوے پھیکے پھیکے سے معلوم ہوتے ہیں۔گزشتہ چند روز سے جناب خان صاحب اور شیخ الاسلام کے انقلاب و آزادی مارچ کے چکروں میں ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔جس روپے کی قدر گزشتہ کئی ماہ سے مستحکم تھی آج ایک مرتبہ پھر ہچکولے لےرہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ گزشتہ ماہ کی کم ترین سطح پر آچکی ہے۔پورے ملک میں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔مگر انقلاب و آزادی کہیں نظر نہیں آرہی۔تحریک انصاف توقع کے مطابق کارکنان تو اکٹھا نہیں کرسکی البتہ علامہ صاحب کے اردگرد شہر اقتدار میں ہزاروں کارکنان جمع ہیں۔توقع ہے کہ جلد ہی دونوں جماعتوں کے کارکنان پر امن طور پر منتشر ہوجائیں گے۔مگر یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر رب ذوالجلال نے جمہوریت کا ساتھ دیا ہے اور عمران خان صاحب کا 10لاکھ افراد کا دعوی ٰ دھرا کا دھرا رہ گیا ہے تو مسلم لیگ (ن )کے وزراء کو زیب نہیں دیتا کہ وہ سخت بیانات جاری کریں۔میری رائے میں عمران خان بھی اپنی ’’میںـ‘‘اور تکبرکی وجہ سے10لاکھ افراد اکٹھا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں وگرنہ ملک میں ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔
اللہ کریم کو غرور بالکل پسند نہیں ہے۔حکومتی وزراء کی ذمہ داری ہے کہ سنجیدگی کا مظاہر ہ کریں۔علامہ صاحب کے ورکر اس وقت بھی شہر اقتدار کی سڑکوں پر براجمان ہیں ،مگر خوش اسلوبی اور خندہ پیشانی سے حکومت انہیں بھی مطمئن کرسکتی ہے۔حکومت نے جس طریقے سے مارچ شروع ہونے سے قبل انتخابی اصلاحات اور عام انتخابات میں دھاندلی پر تحقیقات کرانے کے مطالبے کو تسلیم کیا تھا اب اس پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔تقریب میں جس مارچ کی میاں صاحب کو پریشانی تھی ۔وہ تو اب شاید ختم ہوگئی ہوگی مگر ان کی اولین ذمہ داری ہے کہ عوامی مسائل کی طرف توجہ دیںاور منتخب نمائندوں کو عزت بخشیں۔فواد حسن فواد،جاوید اسلم ،محی الدین وانی جیسے لوگ بلاشبہ سول سروس اور خاص طور پر ڈی ایم جی کا سرمایہ افتخار ہیں ۔ان کی قابلیت اور دیانتداری پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔مگر سیاست کا مقابلہ سیاست دانوں سے کریں۔علامہ صاحب اور تحریک انصاف کے سونامی مارچ کے بعد بظاہر تو نہیں لگتا کہ اب میاں نوازشریف یا ان کی حکومت کو کسی سنگین چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔پرویز مشرف کے معاملے کوویسے ہی خوش اسلوبی سے حل کریں جیسے طے کیا گیا ہے۔اس وقت ملک میں جمہوریت کا پہیہ چلنا چاہئے ۔آئین سے غداری کرنے والے طالع آزماؤں سے بعد میں بھی نمٹا جاسکتا ہے۔پرویز مشرف کو غداری کیس میں سزا دلوانا عوام کی ترجیحات نہیں ہیں ۔عوام کے مسائل اور ترجیحات کچھ اور ہیں۔آپ درست فرماتے ہیں کہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور سویلین برتری کے لئے ضروری ہے کہ غیر آئینی اقدام کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے مگر اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ملک میں جمہوریت چلنی چاہئے۔جمہوریت ہوگی تو یہ سب خواہشات پوری ہوجائیں گی۔لیکن اگر وطن عزیز میں اس مرتبہ جمہوریت کو دھچکا لگا تو پھر باقی کچھ نہیں رہے گا۔