• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چہرے بشرے سے وہ کسی اچھے خاندان کا سلجھا ہوا، سمجھ دار اور باوقار فرد دکھائی دیتا تھا۔ اس کی نیلی آنکھوںسے ذہانت چھلک رہی تھی مختلف پیرایوں میں لپٹی گفتگو اس سے کہیں زیادہ سنجیدگی ومتانت کی غمازی کرتی تھی۔ اللہ نے اسے آواز بھی خوب دی تھی اور اس کا خبریں پڑھنے کا اسٹائل بھی نرالا تھا۔ وہ پورے 33 برس تک نیوز ایڈیٹر رہا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب وہ اپنے گھر آسٹریلیا پہنچا تو کسی صحافی نما دوست نے پوچھا کہ اتنے طویل عرصے تک تم دنیا کے مشہور اور قدرے مستند ادارے کے اس کمرے میں رہے ہو جسے نیوز روم کہا جاتا ہے۔ تمہیں پوری دنیا کی خبریں ملتی تھیں اور تم بڑے باخبر اور معتبر سمجھے جاتے تھے۔ تمہارے پاس یقینا پاکستان کی خبریں بھی آتی رہی ہوں گی۔پاکستانی قوم کی نفسیات سے بھی آپ بخوبی باخبر ہوں گے۔‘‘طویل سوال سننے کے بعد اس نے پہلے کچھ لمحے سوچا اور پھر کہا: اس کے جواب میں لفاظی بہت کی جاسکتی ہے لیکن میں صرف وہ بات کروں گا جس پر پروپیگنڈے کی ادنیٰ سی بھی چھاپ نہ ہو بلکہ وہ حقیقت پر مبنی ہو کیونکہ بعض جانبدار صحافی ایک آنکھ سے دیکھ کر لکھتے ہیں اور اگر وہ دونوں آنکھیں استعمال کررہے ہوں تو بھی آنکھیں کھولنے سے پہلے مخصوص رنگ کا چشمہ چڑھالیتے ہیں تاکہ اگر حقائق چلاچلاکر بھی جھوٹ کی گرد جھاڑنا چاہیں تو بھی اس کی پرچھائیاں باقی رہ جائیں۔ ان کا کہنا تھا پاکستان میں کوئی جتنا ہی بڑا واقعہ ہوجائے، کوئی المیہ ہو جائے یا دشمن جتنی بھی بڑی کارروائی کرجائے۔ بس ہوتا یہ ہے کہ کچھ عرصے کے لئے ہاہا کار مچ جاتی ہے، شوراٹھتا ہے، واویلا ہوتا ہے اور جلسے جلوس بھی ہوتے ہیں۔حکومت کی مذمت کی جاتی ہےاس سےمستعفی ہوجانے سے لیکراصل حقائق منظرِعام پر لانے جیسے مطالبات کئے جاتے ہیں۔کسی واقعے پر عدالتی کمیشن قائم کرنے کے اعلانا ت بھی سنائی دیتے ہیںکبھی دو چار دن اور کبھی کبھار دو تین ہفتے اسی طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں پھر آہستہ آہستہ پوری قوم ہر بڑے سے بڑے واقعے اور سانحے کو ہضم کر جاتی ہے اور اپنے مدار میں گردش شروع کر دیتی ہے۔
آئیے ہم بھی اس حوالے سے قومی تاریخ کے پس منظر نظر پر ڈال لیں ۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے چند سالوں بعد ہی اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں جلسہ عام میں گولی مار دی گئی۔ پھر کیا ہوا؟ عوام مشتعل ہوئےاور حکومتی اہلکار ان کا’’جوش‘‘ٹھنڈا کرنے کے لئے پر اعتماد اور جذباتی بیانات جاری کرتے رہے پھر یہ شور بھی تھم گیا اور ہر ایک اپنی زندگی میں مگن ہو گیا۔1971ء میں سقو ط مشرقی پاکستا ن کا سانحہ۔ پھر کیا ہوا؟ پاکستانی قوم ایک سال کے اندر اندر اس المناک واقعے کو بھول گئی ۔2001ء میں جب امریکہ کے دبائو میںہمارے حکمرانوں نے افغانستان سے متعلق اپنی دیرینہ پالیسی پر یوٹرن لیا تو ایک دوسال تک احتجاج ہوا، حکومت کو برا بھلا کہا گیااور قوم آہستہ آہستہ اپنے افغان بھائیوں کو بھول گئی اور اب تک ان کو بھلا رکھا ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ مسنگ پرسنز کارہا ہے۔اسی طرح کئی بڑی بڑی شخصیتیںقتل ہوئیں وقت کی حکومتوں کی طرف سے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے بلند آہنگ دعوئےاور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے وعدے ہوئے اور بس… آج تک ان کا کوئی قاتل کیفرکردار تک پہنچا ہے اور نہ ہی پہنچ سکتا ہے ۔ امریکہ نے کئی دفعہ پاکستان کے قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے کئی علاقوں پر بمباری کی، نتیجے میں غریب عوام شہید ہوئے۔ پھر کیا ہوا؟ اپوزیشن کی طرف سے امریکہ مردہ باد کے نعرے لگے، ان کی جوشیلی تقریریں ہوئیں، جلوس نکلے، مظاہرے ہوئے، مظاہرین نے قومی، ملکی اور عوامی املاک کو شدید نقصان پہنچایا، کئی گاڑیاں جلا کے رکھ دیں، کئی غریبوں کے ٹھیلے توڑ ڈالے۔ مظاہروں کی تصویریں اخبارات کی زینت بنیں اور بس… قوم پھر اپنی زندگی میں مست ہوگئی۔بعض حکمرانوں نے سینکڑوں محب وطنوں کو دشمنوں کی جھولی میں ڈال کر مفادات دونوں ہاتھوں سے سمیٹے ۔پھر کیا ہوا؟ چند دنوں تک تبصرے ہوئے، حکمرانوں کی ملامت کی گئی اور بس… قوم پھر سب کچھ بھول گئی۔ 2005ء میں باجوڑ کے علاقے ’’ڈمہ ڈولا‘‘ میں امریکی طیاروں نے بمباری کی، نتیجے میں18 عورتیں اور بچے جام شہادت نوش کر گئے۔ امریکی ڈرون حملوں سے سیکڑوں بے گناہ پاکستانی شہید ہوئے۔پھر کیا ہوا؟ احتجاج ہوا، جلوس نکلے، امریکہ مردہ باد کے نعرے لگے اور بس۔ قوم پھر آہستہ آہستہ اپنی اصلی حالت پر آگئی۔
67سالہ ملکی تاریخ کے ہر بڑے اور اہم ترین واقعے ،سانحے کو اٹھا کر دیکھ لیں ۔حمود الرحمٰن کمیشن سے لے کر کل تک بننے والے 70کمیشنوں کا جائزہ لے لیں۔ 2013ء کے انتخابات میں شدید دھاندلی اور بدعنوانی پر تمام سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ۔عمران خان نے پہلے چار حلقوں اور پھر پورے الیکشن کو دھاندلی کی پیدا وار قرار دے کر احتجاج شروع کردیا۔ میاں نواز شریف کے استعفٰی اور نئے انتخابات کا پر زور مطالبہ کیا تو میاں نواز شریف نے 2013ء کے انتخابات کے جائزے اور تحقیق کے لئے سپریم کورٹ کے 3ججوں پر مشتمل کمیشن بنادیا۔ اس کے باوجود احتجاج ہو رہا ہے، نعرے لگ رہے ہیں، تحریک انصاف مطالبہ کررہی ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں، احتجاجی ریلیاں نکل رہی ہیں۔ بعض حضرات اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں، بعض اس میں مصلحت کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں اورلاشوں پر سیاست کرنے میں بازی لے جا رہے ہیں۔ اب کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں۔ دو تین ہفتوں کے بعد پاکستانی قوم سب کچھ بھول کر اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئے گی، اس پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔اس باخبر دانشور نے ہماری قومی، ملی اور عوامی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عالمی تناظر میں تجزیہ کرتے ہوئے سچ اور حق ہی کہا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے اگر یہ قوم دائمی شعور اور دور اندیشی کا مظاہرے کرے تو آ ئندہ ایسے سانحات اور المیوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے اور بمصداق آیت قرآنی ’’اﷲ تعالی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کا ارادہ نہیں کرلیتی۔‘‘ کاش! پاکستانی قوم اپنی قابلِ رحم حالت بدلنے کا ارادہ کرلے تو بھی ہم دنیا میں سرخروہوسکتے ہیں۔ تو ہمارا شمار بھی مثالی قوموں میں ہوسکتا ہے۔ ہم حقیقی زندہ دل ہوسکتے ہیں۔شاہراہِ امن پر چڑھ سکتے ہیں۔ دنیا میں سر اُٹھاکر جینے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
تازہ ترین