• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالات تیزی سے اس طرف چلے گئے ہیں، جن کی نشاندہی گزشتہ دوکالموں میں کی تھی۔14اگست 2014کولاہور سے شروع ہونیوالے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ اسلام آباد پہنچ کردھرنوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔اتوارکی شب جب یہ کالم لکھاجارہا تھا توتمام ٹی وی چینل یہ دکھارہے تھے کہ بارش کے باوجود بھی دھرنوں کے شرکاء اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ان کا جوش اور ولولہ ان کے سفرکی تھکن اور تکالیف پرحاوی تھا۔ان دھرنوں کی وجہ سے تادم تحریر یہ خدشہ موجود تھا کہ حکومت اور عوام کے درمیان تصادم اورٹکرائوکی صورت حال پیداہوسکتی ہے۔اس صورت حال کی ذمہ دار حکومت بھی ہے اور وہ لوگ بھی ہیں، جو حکمرانوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر گمراہ کرتے رہے ہیں اور’’سب ٹھیک ہے ‘‘کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ تاریخ کا یہ فیصلہ ہے کہ جب بھی کوئی حکومت عوام سے ٹکرائو یاتصادم کا راستہ اختیار کرتی ہے، نقصان میں ہمیشہ حکومت ہی رہتی ہے۔
لاہور سے جب آزادی اور انقلاب مارچ کے قافلے چلے تھے توبعض لوگ ان عوامی قافلوں کے بارے میں غلط اندازے کررہے تھے۔لیکن یہ قافلے اس عزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے ،جسے جاں نثاراخترنے اپنے شعر میں بیان کیا ہے
ظلمت آخر شب بھی نہ رہے گی باقی
اور دوچار قدم مشعل جاں لے کے چلو
جیسے جیسے یہ قافلے آگے بڑھتے رہے ،ویسے ویسے ان حلقوں کے مغالطے بھی ہوامیں تحلیل ہوتے گئے۔چین کے عظیم انقلابی رہنما مائوزے تنگ نے ایک دفعہ کہاتھا کہ ’’ہم دانشوراکثربچپنے کا شکار ہوتے ہیں۔اصل ہیروعوام ہیں...میں نے لانگ مارچ میں تاریخ کے کئی مغالطوں کو لوگوں کے قدموں میں روندے جانے کے مناظردیکھے ہیں۔‘‘ ہوسکتا ہے کہ جب یہ کالم شائع ہو ،اسلام آباد میں دیئے جانے والے دھرنے اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہوں یااپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے لوگوں نے دنیا کو باور کرادیا ہے کہ وہ تبدیلی چاہتے ہیں اورکوئی ان کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش نہ کرے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری کی شخصیات اور نظریات کے بارے میں تحفظات ہوں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے عوام کے شعورکاادراک کیا ہے اورعوام کی تبدیلی کی خواہش کو ایک تحریک کی شکل دیدی ہے۔ اب یہ دونوں رہنما بھی عوامی تحریک کے اس دھارے سے نہیں نکل پائینگے۔اگرانہوں نے اس دھارے سے الگ یااس کے خلاف ہونے کی کوشش کی تو وہ بھی سیاسی طور پراسی طرح (Irrelevant) ہو جائینگے،جس طرح آج وہ سیاسی جماعتیں ہوگئی ہیں، جنہوں نے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔
ڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری اور عمران خان نے اپنے مطالبات پر مبنی جوچارٹرزپیش کئے ہیں، وہ پاکستان کے عوام کے اجتماعی شعور کا اظہار ہیں۔ڈاکٹرطاہرالقادری کا دس نکاتی چارٹرانقلاب اور جمہوریت کا ایک جامع منصوبہ ہے۔ انہوں نے اگرچہ کچھ عرصے کیلئے قومی حکومت کے قیام اور انتخابات نہ کرانے کی بات کی ہے لیکن انہوں نے بالآخرجمہوریت کی طرف لوٹ جانے کا راستہ بتایا ہے ۔ان کے پروگرام میں انقلابی پارٹی کی آمریت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ انہوں نے ایک جمہوری اور سماجی بہبود والی لبرل ریاست کے قیام کا پروگرام دیا ہے۔عمران خان نے اگرچہ کوئی جامع منصوبہ پیش نہیں کیا ہے لیکن وقفے وقفے سے وہ اپنی تقاریر کے ذریعے اپنے پروگرام کے خدوخال واضح کر رہے ہیں۔ انکا پروگرام بھی جمہور کی آواز ہے۔ پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ چوری نہ ہو،کرپشن کا خاتمہ ہو،ہرایک کو انصاف ملے ،بے روزگاری ،غربت اور مہنگائی سے نجات ملے، تعلیم، صحت اور دیگربنیادی سہولتیں میسرہوں۔عوام چاہتے ہیںکہ ملک میں گڈگورننس ہو،آئین، قانون اور میرٹ کی بالادستی ہواورعنان اقتدارایسے صاحب بصیرت لوگوں کے پاس ہو،جوعوام سے بھٹو اور محتر مہ بے نظیر بھٹو جیسارومانس کرتے ہوں اور جن میں اس خطے اور دنیا میں تبدیلی کی اٹھتی ہوئی لہروں کومحسوس کرنے کی صلاحیت ہو۔ تاریخ میں عوامی طاقت کے اتنے بڑے مظاہرے شاذونادرہی ہوتے ہیں۔ کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ یہ دھرنے ختم ہونے کے بعدسارے معاملات ختم ہوجائیں گے۔ ایساسوچنے والے تاریخ سے نابلدہیں۔ عوامی طاقت کے اتنے بڑے مظاہرے کے اثرات بہت دیرتک رہتے ہیں۔
جولوگ تاریخ کا ادراک رکھتے ہیں، وہ آج بھی شاہ عنایت شہید کی قیادت میں چلنے والی کسانوں کی تحریک کے اثرات موجودہ حالات پر بھی محسوس کرسکتے ہیں اور یہ بات بھی وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ ایم آرڈی کی تحریک کے اثرات کو آج محسوس نہ کرنے والی سیاسی قوتیں غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔ آج اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے جس تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا ہے،اس تبدیلی کے مکمل ہونے تک پاکستانی معاشرے میں سیاسی بے چینی ختم نہیں ہوگی۔ یہ بات بھی تاریخی شعور سے عاری لوگ کررہے ہیں کہ دس لاکھ افرادجمع نہیں ہوئے، لہٰذامارچ اور دھرنے ناکام ہوگئے ہیں۔ ایسی باتیں کرنے والوں کویہ علم ہی نہیں ہے کہ مسئلہ تعداد کا نہیں بلکہ عوام کی خواہشات کا ہوتا ہے۔ ایک فرد بھی بھوک ہڑتال یا دھرنے میں بیٹھ کرعظیم عوامی تحریکیں چلاسکتا ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی کے احتجاج نے سلطنت برطانیہ کوہلاکررکھ دیاتھا۔ ابھی تین سال پہلے ہی بھارت میں ’’اناہزارے‘‘نامی ایک عمررسیدہ اورنحیف شخص نے کرپشن کے خلاف اکیلے بھوک ہڑتال کرکے ایک ارب سے زائدبھارتی باشندوں کی آوازبلند کی، جس سے طاقت کے بڑے بڑے مراکزتھرتھرکانپنے لگے۔ مارٹر لوتھر کنگ امریکہ میں اور نیلسن منڈیلا نے آج کی دنیا میں امن اور جمہوریت بڑے اثرات چھوڑے ہیں۔ تعداد پرنہیں جانا چاہیے بلکہ عوام کی امنگوں کو سمجھناچاہئے۔
عوام کی خواہشوں کے مطابق تبدیلی کے عمل کو مکمل کیاجانا چاہئے اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہئے۔ تصادم اور ٹکرائوکی پالیسی کا نتیجہ ماڈل ٹائون لاہور کے واقعہ سے سامنے آچکا ہے۔ سیشن عدالت نے ماڈل ٹائون کے شہداء کا مقدمہ وزیراعظم،وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وصوبائی وزراء سمیت 21افراد کے خلاف درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ حکم بھی ایک انقلاب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف ایک قتل کا مقدمہ درج ہواتھا،جس کا نتیجہ اگرچہ بہت بعد میں نکلا لیکن موجودہ حکمراں اس سے بے خبر نہیں ہوں گے۔ ماڈل ٹائون میں خواتین سمیت چودہ افراد کو بے دردی سے شہیدکردیا گیا۔ ان بے گناہوں کا لہو اس وقت تک بولتارہے گا،جب تک انصاف قائم نہیں ہوجاتا۔ مجھے تعجب ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزمان کو رات کو نیند کیسے آتی ہے وہ تو دور حاضر کے یزید ہیں۔
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہُو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشان
انسانی تاریخ امام حسینِ، مارٹر لوتھر کنگ‘ گاندھی‘ بے نظیر بھٹو جیسے لوگوں سے عبارت ہے یزید‘ فرعون ‘ ظالموں اور قاتلوں سے نہیں۔ ماڈل ٹائون کے واقعے کے بعد بھی اگرحکومت تصادم اور ٹکرائوکی پالیسی اختیار کرتی ہے توحکمرانوں کی بصیرت اور بصارت پرصرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہیں، جسے ہم مارچ اوردھرنوں کی وجہ سے بھول گئے ہیں جبکہ دوسری طرف سیاسی لڑائی کامحاذ کھل گیا ہے۔ حکمراں اگرفہم وفراست سے کام لیتے تویہ صورت حال پیداہی نہ ہوتی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے بھی حکومت کو دلچسپی نہیں تھی۔ پاکستان کی فوج پہلے جو جنگیں لڑتی رہی ہے، وہ ملک کے لئے تھیں اور اب جوجنگ لڑرہی ہے، وہ نہ صرف پاکستانی قوم اور اس کے مستقل کے لئے ہے بلکہ پوری انسانیت کے لئے بھی ہے اورہماری آنے والی والی نسلوں کے لئے بھی ہے۔پاک فوج کو سلام
عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری نے جو الٹی میٹم دیئے ہیں، ان پرسنجیدگی سے غورکیاجائے اورمسئلے کا سیاسی حل نکالنے کے لئے انااور مخصوص مفادات کو ایک طرف رکھ دیا جائے۔ رات کو ہی معلوم ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کل اس صورتحال پر کوئی بیان جاری کرنے والے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ الطاف حسین ملک کے واحد قائد ہیں جن کا ہاتھ پاکستان کے عوام کی نبض پر ہوتا ہے۔ لندن میں رہتے ہوئے انہیں دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے حالات‘ بدلتے ہوئے رجحانات نئی نئی کتابوں، مضامین پڑھنے اور آنے والی تحریکوں کی معلومات تک زیادہ رسائی ہوتی ہے۔ وہ واحد لیڈر ہیں جو کتابیں پڑھتے ہیں ۔ ہمارے قائدین تو اپنے بیانات ہی سنتے ہیں۔ زمینی حقائق جس میں قومی اور بین الاقوامی دونوں شامل ہیں تمام کو معلوم ہوتے ہیں مگر ہر شخص اپنے علم‘ تجربہ اور اپنے ساتھیوں سے Feed Back اور مشاوارت کی بنیاد پر صورتحال کو اپنے لحاظ سے دیکھتا ہے۔ کوئی آدھے بھرے گلاس کو آدھا گلاس کہتا ہے اور آدھا بھرا ہوا۔ یہی Perception ہوتا ہے۔ الفاظ کے معنی وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ الفاظ کے معنی وہ ہوتے ہیں جو دوسرے سمجھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح اب تک ان مارچوں کو تصادم سے بچانے میں ان کا کردار رہا ہے۔ کل کا بیان بھی بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اسلئے کہ الطاف حسین کے علاوہ اس بحران پر ساری سیاسی پارٹیاں اور انکے قائدین ’’بونے‘‘ نظر آتے ہیں اور میڈیا میں ٹابک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور اپنی موجودگی کو ظاہر کر رہے ہیں۔
اس موقع پرفیض احمدفیض کی وہ نظم یادآرہی ہے، جوانہوں نے14 اگست 1967میں لکھی تھی، جب تبدیلی کی ایسی ہی کیفیت پائی جاتی تھی، جو اس وقت ہے۔ فیض نے کہاتھا چند اشعار۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں،ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیںسوزمحبت کے سوا
کوئی بت ،کوئی خدایاد نہیں
تبدیلی کے اس نئے تاریخی مرحلے پرفیض احمدفیض کی طرح ہم بھی دعاکے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
تازہ ترین