• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس دفعہ حساب (ریاضی) کا ’’نوبل پرائز‘‘ بین الاقوامی انعام ایک ایران سے تعلق رکھنے والی خاتون مریم مرزا خانی کو ملا ہے۔ وہ پہلی خاتون ہے جس کو اس خصوصی انعام سے نوازہ گیا ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی ایران میں حاصل کی۔ پی ایچ ڈی (Phd) کی ڈگری ہاوڑ یونیورسٹی سے کی۔ ان کی قابلیت کی وجہ سے ان کے مضمون ’’حساب‘‘ میں ان کو 1994ء میں ہانگ کانگ اور 1995ء میں کینیڈا میں گولڈ میڈل دیئے گئے۔ ابھی تک ایرانی حکومت نے اس باہمت خاتون کے حوالہ سے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ ایک خاتون کی تحقیق اور انعام نے دنیا بھر کی خواتین کو حوصلہ اور ہمت دی ہے کہ تعلیم میں اعلیٰ مقاصد کیلئے محنت اور ریاضت بنیادی وصف ہے۔
نوبل انعام کے بانی جناب الفریڈنوبل جو سویڈش سائنسدان تھے۔ الفریڈنوبل نے اپنی زندگی کا کافی وقت روس میں گزارا ان کی بنیادی ایجاد ڈائنامائٹ تھی۔ اس کے علاوہ دیگر سائنس کی ایجادات پر کام کیا۔ 1896ء میں جب ان کی موت ہوئی۔ تو ان کے اکائونٹ میں تقریباً 90 لاکھ ڈالر تھے۔ جو انہوں نے ڈائنامائٹ اور اپنی زمینوں سے حاصل کئے۔ موت سے پہلے ہی انہوں نے وصیت کر دی تھی کہ ان کی دولت طبعیات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے معاملات میں تحریر، تحقیق اور کردار ادا کرنے والوں کو دی جائے۔ اس سلسلہ میں ایک فنڈ قائم کیا گیا اور اس رقم پر حاصل منافع سے انعام کی رقم کا انتظام کیا گیا۔ نوبل فنڈ کے چھ ڈائریکٹر ہیں۔ جو دو سال کی مدت کیلئے ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق سویڈن اور ناروے سے ہوتا ہے۔ پہلا نوبل پرائز 10 دسمبر 1901ء میں دیا گیا۔
سائنس اور ادب کے انعام تحقیق اور تحریر کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ مگر امن کیلئے جو معیار مقرر کیا گیا ہے وہ آج کی متشدد دنیا میں ایک سوال ہے۔ الفریڈ نوبل کو اندازہ تھا کہ سائنس کی ترقی، ادب کی نشوونما کیلئے امن کی کتنی ضرورت ہے۔ اس ہی وجہ سے امن کے مقاصد کو اجاگر کرنے کیلئے امن کے سلسلہ میں خصوصی کردار اور اداروں کو امن کا نوبل انعام دیا جاتا ہے۔ پاکستان سے واحد نوبل انعام یافتہ سائنس دان کا نام ڈاکٹر عبدالسلام ہے۔ جن کو طبعیات پر اس اعزاز سے نوازہ گیا۔ انہوں نے (ELECTROWEAK THEORY) نظریہ کو منصوب کیا۔ ڈاکٹر سلام 29 جنوری 1926ء میں موضع سنتوک داس ضلع ساہیوال (پرانامنٹگمری) میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ایس سی کی۔ 1979ء میں ان کو نوبل انعام دیا گیا۔ اس ہی طرح ایک خاتون میری کیوری کو دو دفعہ نوبل انعام ملا۔ پہلی دفعہ یہ انعام ان کو 1903ء میں دیا گیا۔ دوبارہ ان کو یہ انعام 1911ء میں ملا۔ آپ اب تک واحد سائنس دان خاتون ہیں۔ جن کو بیک وقت طبعیات اور کیمیا میں نوبل انعام ملا ہے۔ ادب میں پہلا ہندوستانی انعام یافتہ رابندرناتھ ٹیگور تھا۔ رابندرناتھ ٹیگوربنگلا زبان کے شاعر تھے۔ ان کو 1913ء میں ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔ ان کو ’’سر‘‘ کا خطاب بھی ملا تھا۔ مگر پنجاب میں تشدد کے خلاف انہوں نے ’’سر‘‘ کا خطاب واپس کر دیا تھا۔ رابندر ناتھ ٹیگور بنگالی اور انگریزی بھاشا کے شاعر تھے۔ اس کے علاوہ آپ ڈرامہ نگار اور اداکار بھی تھے۔اس ہی طرح ایک اور مشہور زمانہ شخصیت برٹرینڈرسل کی ہے۔ آپ محقق، سائنسدان، ماہر ریاضیات، مدرس، فلسفی، مفکر، ادیب نہ جانے کتنی خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ کے والد سرجان رسل برطانیہ کے وزیراعظم بھی رہے۔ 1950ء کو امن کا نوبل انعام ملا۔ ویت نام کی جنگ میں واحد برطانیوی مفکر تھے۔ جنھوں نے ڈٹ کر مخالفت کی۔ 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو غاصب قرار دیا۔ وہ ایٹمی سائنسدانوں کو انسانیت کے قاتل قرار دیتے تھے۔ 1967ء میں ان کی آپ بیتی شائع ہوئی اور دنیا بھر کی مقبول کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ وہ 1876ء میں پیدا ہوئے اور 1970ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کا مشہور فقرہ ہے۔ ’’میں نے اپنی زندگی کے 80 سال فلسفے کی نظر کئے باقی زندگی کہانی کی نظر کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔
1953ء میں ایک اور برطانیوی شخصیت ونسٹن چرچل کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ وہ ہمارے صوبے خیبرپختونخوا میں فوج کی جانب سے کام کرتا رہا۔ دو دفعہ برطانیہ کا قدامت پسند وزیراعظم بنا۔ وہ برطانیوی نو آبادیوں کی آزادی کے سخت خلاف تھا۔ چرچل ایک قدامت پسند متعصب شخص تھا۔ اس کی وجہ سے آج فلسطین کےلوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ اب آپ اندازہ کریں۔ 1950ء میں عظیم برطانیوی فلسفی اور مفکر برٹرینڈرسل کو امن کے نوبل انعام سے نوازہ گیا۔ جو آزاد منش انسان تھا۔ دوسری طرف چرچل جیسے شخص کو بھی نوبل انعام دیا گیا۔ یہ وہ بنیادی تضاد ہے۔ جو امن کے معاملہ میں نوبل انعام کو مشکوک بنا رہا ہے۔ اب ایک ایسے ادیب اور روشن خیال دانشور کا ذکر کرتے ہیں۔ جس نے نوبل انعام لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ژاں پال سارتر ایک معتبر فرانسیسی مفکر اور فلسفی تھے۔ آپ کو 1964ء میں نوبل پرائز برائے امن کیلئے منتخب کیا گیا۔ مگر ژاں پال سارتر نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کی وجہ سے نوبیل انعام مسترد کر دیا تھا۔ ان کے خلاف میں اس طرح ان کی شخصی آزادی متاثر ہوتی تھی۔ صدر ڈیگال کے نزدیک فرانس کی آزادی اور خود مختاری کا دوسرا نام ژاں پال سارتر تھا۔1978ء میں امن کاانعام مصری صدر انور سادات کو دیا گیا۔ اس انعام پر عرب دنیا میں بہت شور بھی ہوا۔ فلسطینی مصری صدر سے متفق نہ تھے اور ان کو اسرائیل پر بالکل اعتبار نہیں تھا۔ جو امن شانتی کے معاہدے امریکہ کی مدد سے مصری صدر نے کئے۔ ان پر کوئی بھی فریق کبھی بھی عمل نہ کر سکا۔ فلسطین کا مسئلہ اب تک حل طلب ہے۔ غزہ میں حالیہ اسرائیلی جارحیت امن کیلئے مستقل خطرہ ہے۔ ایسے میں امن کا انعام دہشت گردی کی نظر ہو چکا ہے۔ 1993ء میں امن کا نوبل انعام جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا کو دیا گیا۔ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے سخت مخالف اور افریقی نیشنل کانگرس کی فوجی تنظیم کے سربراہ بھی رہے۔ ان کو جبر پسندوں نے تقریباً 27 سال تک قید میں رکھا۔ 1990ء میں ان کو آزادی میسر آئی۔ آپ 1994ء سے 1999ء تک جنوبی افریقہ کے صدر رہے۔ امن کے سلسلہ میں آپ نے درگزر اور برداشت کو اپنا نظریہ بنایا اور اس ہی وجہ سے نوبل انعام ان کو دیا گیا لیکن اس کے بعد کیا ہوا۔ اگلے سال امن کی آشا کے سلسلہ میں بیک وقت تین لوگوں کو امن کے انعام کیلئے منتخب کیا گیا۔ ان میں دو اسرائیلی اور ایک فلسطینی تھا۔ ان میں اسحاق رابن سابقہ جنرل اسرئیلی افواج پھر اسرائیل کا پانچواں وزیراعظم بھی بنا۔ 1992ء میں اسحاق رابن کو قتل کر دیا گیا اور الزام اسرائیلی انتہا پسندوں پر شک کیا جاتا ہے کہ اس نے امن کے سلسلہ میں فلسطینی قیادت کو کیوں اہمیت دی۔ دوسرا انعام یافتہ فلسطینی لیڈر پی ایل او (PLO) کے حریت پسند گروپ کے سربراہ یاسر عرفات تھے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ امریکی دوستوں کی مدد سے معاہدہ کیا۔ اگر اسرائیل حسب سابقہ اس معاہدہ کو ہضم نہ کرسکا اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ اسرائیل نے یاسرعرفات کو زہر دے کر موت سے ہم کنار کیا۔ یہ تھا امن کا وہ خواب جو نوبل انعام دینے والوں کے نصیب میں تھا اور آج بھی غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ امن انعام پر دھبہ ہے۔
اب آخر میں ذکر کرتے ہیں 2009ء میں امریکی صدر بارک حسین اوبامہ کو امن کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ بارک حسین اوبامہ پہلے سیاہ فام امریکی صدر ہیں۔ انہوں نے امن کیلئے خلوص نیت سے کافی کوشش کی۔ مگر امریکی افواج اورسیاسی اشرافیہ نے ان کی ایک بھی نہ چلنے دی اور ہر دفعہ بارک حسین اوبامہ کو شرمندہ کروایا۔ حال ہی میں مشہور دانشور رابرٹ فسک نے ایک مضمون لکھا ہے۔ جس میں امن کے نوبل پرائز کیلئے بارک اوبامہ کی بجائے اسرائیلی فوج کو نامزد کرنے کا سوچا ہے۔ اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر امریکی کردار دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے۔ اس ہی طرح کینیڈا کی سیاسی قیادت بھی اسرائیلی جارحیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس سے غزہ کا امن مسلسل خطرہ میں ہے۔ 2014ء کیلئے نوبل انعام کا اعلان ہو چکا ہے۔ مگر ایک برطانیوی شخصیت ایسی ضرور ہے جو اس انعام کی حق دار ہیں۔ وہ ہیں سابقہ وزیر محترمہ سعیدہ وارث ہیں۔ جن پر برطانیوی حکومت بھی فخر محسوس کر رہی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ نوبل انعام کی کمیٹی جو اس انعامات کیلئےلوگوں کا انتخاب کرتی ہے وہ سوچے کہ امن کیلئے کام کرنے والے لوگ کن کن مشکلات کا شکار ہیں اور ضروری ہے۔ ان لوگوں کو انعام دیا جائے جو امن کی بھیک نہیں مانگتے بلکہ اپنے قول اور قرار سے امن کو مسائل کا حل بتاتے ہیں اور اس وقت ہمارے خطہ میں بھی امن کی شدت سے ضرورت ہے۔ خوش حالی اور ترقی کیلئے امن واحد ذریعہ ہے جو انسان کی بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔
تازہ ترین