• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت ملک ایسے اعصاب شکن دور سے گزر رہا ہے جس میں جشن آزادی اور اس پر کئے جانے والے داھائوں کے سوا کسی دوسرے موضوع پر گفتگو کی ہی نہیں جاسکتی۔ 14؍ اگست 2014ء کو بحمدللہ پاکستان نے 67 سال پورے کرلئے اور ارسٹھ ویں سال میں قدم رکھ دیا۔ جہاں تک سال گرہ منانے کا تعلق ہے وہ روٹین کے طور پر برابر منائی جاتی ہے، اس روز تعطیل کا اعلان ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ صدر یا وزیراعظم جلسہ عام میں پرچم کشائی کرتے ہیں، پریڈ ہوتی ہے، خطابات ہوتے ہیں۔ اس سال روایت سے ہٹ کر 14؍ اگست کی رات کو بارہ کا گھنٹہ بجتے ہی ترانے کے ساتھ پرچم کشائی کی رسم ادا ہوئی۔ یہ جدت مجبوراً اختیار کرنا پڑی۔ دن میں زیارت میں ریذیڈنسی کا افتتاح کیا جس کو دہشت گردوں نے تباہ کر دیا تھا۔ کراچی میں گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ نے مزار قائد پر حاضری دی ، فاتحہ ،خوانی کی اور پھول چڑھائے ، گارڈ کی تبدیلی عمل میں آئی ، صوبوں ، اضلاع میں گورنروں اور ڈپٹی کمشنروں نے پرچم کشائی کی، عوام نے اپنے گھروں پر پرچم لہرائے، کاروں ، ٹیکسیوں ، بسوں اور رکشائوں پر پرچم لہراتے نظر آئے مگر ان کی وہ تعداد نہیں تھی جو قیام پاکستان کے اوائلی سالوں میں نظر آتی تھی، جامعات ، کالجوں ، اسکولوں میں پرچم کشائی ہوئی اور جلسے ہوئے، طلبا نے سینوں پر آزادی کے بیج سجائے، جوش و خروش اور جذبہ ماند پڑتا نظر آیا، دو سیاسی پارٹیوں کی طرف سے یوم آزادی کے دن اسلام آباد پر دھاوے کی دھمکیاں ملیں جس نے ماحول کو غیرخوشگوار بنادیا بلکہ اس کو جشن آزادی کی توہین اور تضحیک قرار دیا جاسکتا ہے۔ اول تو مطالبات غیر آئینی اور غیرقانونی ہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے ان کو جائز تصور کرلیا جائے تو کیا ضروری تھا کہ ان کے لئے آزادی کی تاریخ ہی کاتعین کیا جائے، بات دوچار دن آگے بھی بڑھ سکتی تھی۔
آزادی کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے۔ ہمارے ایک بزرگ سید انور قدوائی کا کہنا ہے کہ پاکستان 14؍اگست کو نہیں بلکہ 15؍اگست کو وجود میں آیا کیونکہ اس دن قائداعظم نے ملک کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا۔ 15؍ اگست کو قائداعظم، ہندوستان کے وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ بگھی میں سوار پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی پہنچے اور ایک باوقار تقریب میں حلف لیا اور اس دن برطانوی پارلیمینٹ میں تقسیم ہند کا قانون منظور ہوا جس کی رو سے پاکستان اور بھارت دو نئی مملکتیں وجود میں آئیں۔ 14؍اگست کو پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ 15؍ اگست کو بھارت آزادی کا جشن مناتا ہے اس لئے کابینہ نے 14؍اگست کو پاکستان کا جشن منانے کا فیصلہ کیا اور 1948ء میں وزارت داخلہ نے اس پر مہر ثبت کردی۔ قدوائی صاخب تاریخ تبدیل کرنا نہیں چاہتے مگر ان کی یہ خواہش ضرور ہے کہ کم از کم نئی نسل کو صحیح تاریخ سے مطلع کردیا جائے۔ واضح رہنا چاہئے کہ اس واقعہ سے ہمارے وہ بزرگ واقف ہیں جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا تھا۔ (قدوائی صاحب کا مراسلہ 15؍اگست کے جنگ میں ملاحظہ فرمائیے)
آزادی کی تاریخ میں ایک اور مسئلہ بھی زیر بحث رہا ہے۔ 15؍ اگست کو ہجری سال کی تاریخ 27؍ رمضان تھی۔ یہ بڑا مقدس دن تصور کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ آزادی کا دن 27؍رمضان کو منایا جائے۔ حکیم سعید شہید اس کے زبردست حامی تھے بلکہ انہوں نے اپنے طور پر ایک سال اس دن منایا بھی تھا، لیکن رمضان کی وجہ سے اور دن کے تقدس کی بنا یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
اس سال دو سیاسی پارٹیوں کی دھمکیوں کی بدولت آزادی کا دن انتشار و اضطراب کی زد میں آگیا بلکہ صورت حال اتنی اعصاب شکن ہوگئی کہ حکومت اور سیاسی ادارے پریشانی کا شکار ہوگئے، اس کا مختصر احوال یہ ہے کہ دو پارٹیوں کی طرف سے 14؍اگست کو اپنے مطالبات (جو زیادہ تر غیرآئینی اورغیر قانونی ہیں) منوانے کے لئے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ حکومت نے مفاہمت کی بعض شرائط کے ساتھ نہ صرف اجازت دے دی بلکہ قافلوں کی سیکورٹی کا بھی اہتمام کیا۔ 15؍ تاریخ کو یہ قافلے اسلام آباد پہنچ گئے اور وہاں جلسے کئے۔ 17؍اگست کی شام کو ایک لیڈر کے اعلان سے صورت حال خاصی سنگین ہوگئی۔ انہوں نے دو دن میں وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا بلکہ حکومت کے خلاف سول نافرمانی کا اعلان بھی کردیا۔ انہوں نے بجلی ، گیس اور یوٹیلیٹز کے بل اور ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا۔
ساتھ ہی سامعین سے وعدہ لیا کہ وہ بھی ان کی پیروی کریں گے۔ تاجروں سے ٹیکس کی عدم ادائیگی پر زور دیا۔ یہ حکومت کے خلاف کھلی بغاوت ہے مگر جوش و خروش میں کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر 24گھنٹے سارے ملک میں بجلی بند کردی جائے تو کیسا واویلا مچ جائے گا۔ اگر حکومت کو ٹیکس وصول نہ ہوں گے تو اس کے اخراجات ، سرکاری ملازمین اور فوج کی تنخواہیں ، پنشروں کی پنشنیں، قرضوں کے سود کہاں سے ادا ہوں گے۔ وزیراعظم کے استعفیٰ سے کابینہ ختم ہوجائے گی۔ ٹیکنو کریٹ کابینہ تشکیل دینا پڑے گی جو سال دو سال میں مڈٹرم الیکشن کا ڈھنگ ڈول ڈالے گی۔ بھنگڑا ڈالنے والوں اور تالیاں بجانے والوں کی فوری امیدوں پر اوس پڑ جائے گی۔ اس نازک صورت حال میں ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ بادل نخواستہ پنجاب اور خیبرپختون خوا میں یا پورے ملک میں مارشلا لگا جائے گا، کیا یہ عمل جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کی بات نہیں، مگر بات اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ مصالحت کنٹرول کی کوششوں کو کامیابی مشکل ہی نظر آتی ہے۔ مجموعی حیثیت سے ملکی معیشت کی بنیادیں ہل جائیں گی اور کون کہہ سکتا ہے کہ ان کو استوار کرنے میں کتنا عرصہ لگے گا۔ بس دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔
تازہ ترین