• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1967(انیس سو سڑسٹھ )پاکستان میں گھیرائو، جلائو، اور دوسری طرف پر امن جمہوری تحریک کا زمانہ تھا جب اس وقت پاکستان کے دونوں بازوئوں یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان کے 12کروڑ عوام تب کے فوجی آمر ایوب خان کی دس سالہ آمریت کے خلاف آزردہ ہو کر سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ مزدور ہوں کہ طلبہ، بیروزگار نوجوان، متوسط طبقہ، صحافی ، دانشور، سب کے سب ایوبی آمریت کے خلاف سڑکوں پر تھے۔ میں نے بھی اپنے پرائمری کے دنوں میں پہلی بار اپنے چھوٹے سے شہر میں ایوب خان کے خلاف بڑے اسکول یعنی ہائی اسکول کے طلبہ کا جلوس دیکھا تھا، جس میں وہ’’ایوب ۔۔۔۔ ہائے ہائے‘‘ اور’’چمچہ گيری نہیں چلے گی‘‘ کے نعرے لگارہے تھے۔ پہلی بار میں نے علاقے کے جدی پشتی جاگیرداروں سرداروں کے خلاف ایوب خان کے چمچوں کے حوالے سے ان طلبہ کے نعرے سنے۔ وگرنہ لمبا تڑنگا، لال چٹا گرجدار آواز والا ’’صدر ایوب‘‘ گھر گھر لیا جانے والا نام ہوا کرتا تھا۔ سندھ کے وڈیروں نے تب سے ہی آج تک سندھ کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے حکمرانوں کی شکارگاہیں بنا رکھا ہے۔گویا وطن عزیز کے علاقے دیسی بدیسی مطلق العنانوں کیلئے’’سرخ روشنی‘‘ والے ایریاز ہوں۔
جب نیویارک میں پاکستان میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک چل رہی تھی تو پاکستانی قونصل خانے کے نزدیک تارکین وطن پاکستانیوں کے مظاہرے کے دوران پڑوس میں واقع سینٹرل پارک میں اپنے کتوں کو واک کیلئے لے جانے والوں میں سے ایک خاتون کے کتے کے گلے میں مظاہرین میں سے کسی نے کتے کے نعرے والا کاغذ پہنا دیا جس پر کتے کی مالکہ نے مظاہرے میں شریک ایسے شخص سے پوچھا کہ اس کے کتے پر پہنائے جانے والے کاغذ پر جلی حروف میں کیا تحریر ہے تو اس شخص نے کتے کی مالکہ کو بتایا کہ اس پر ان کے ملک کے ڈکٹیٹر کے نا م لکھا ہے تو فطری طور پر مالکہ اس معصوم جانور پر ڈکٹیٹر کا نام رکھنے پر نہایت ہی غصہ میں آئی اور اسے آنا بھی چاہئے تھا کہ آخر اس شخص نے ایسی جرأت کیسے کی( اس کے جانور پر ڈکٹیٹر کا نام رکھنے کی)۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ جنرل مشرف کو امریکہ میں کئی لوگ اس طرح نہیں سوچتے تھے جس طرح یہ مظاہرین سوچ رہے تھے۔
تو ذکر کر رہا تھا انیس سو سڑسٹھ اڑسٹھ کے دوران لوگوں کا آمریت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر آئے دن احتجاج شروع کرنے کا۔ ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں جلتا ہوا لاوا پھٹ پڑا تھا۔ پھر یہ اسی عشرے کے اوائل میں فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی انتخابات کے دوران ایوب خانی حکومت کی بڑے پیمانے پر دھاندلیاں تھیں،یا کہ پینسٹھ کی جنگ میں ایوب خان کے بھارت کے ساتھ تاشقند میں معاہدے پر دستخط کرنا تھے،کہ ایوب خان کے بیٹے، سمدھیوں، خاندان کے دیگر افراد اور ملک کے بائيس سرمایہ دار خاندانوں کی لوٹ مار و استحصال کے خلاف ردعمل تھا ، لیکن کیا دائیں کیا بائیں بازو کے لوگ باہر نکل آئے تھے، انہی دنوں میں ہم نے پہلی بار لفظ ’’ہنگامے ‘‘ بھی سنا۔ بلکہ کاروں پر لوگ سیاہ جھنڈیاں لگا کر اپنے کام پر نکلتے اور ’’ہنگامے‘‘ والوں کی طرف سے روکنے پر ’’ جئے بھٹو‘‘ ’’ایوب آمر مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا کر جانے دئیے جاتے۔ ان دنوں میں نہ لوگوں کے پاس اتنی کاریں تھیں نہ کراچی نہ ملک کےدیگر بڑے شہروں کے راستوں پر۔ بلیک اینڈ وائٹ ٹیلیویژن تھا ۔ بلیک اینڈ وائٹ زندگی۔
لیکن لوگ سڑکوں پر تھے ۔ جمہوری تحریک کی جوانی تھی۔ وہ شاید اس لئے تھی کہ ملک میں طلبہ مزدور تحاریک باوجود دس سالہ آمریت کے مضبوط تھیں۔ ملک میں مشرقی تھا یا مغربی حصہ پر وہاں عوامی نیشنل پارٹی جیسی مضبوط سخت آمریت مخالف اپوزیشن پارٹیاں تھیں (نیپ بھاشانی اور نیپ ولی خان)،مغربی پاکستان کے سیاسی افق پر بھٹو ایک طوفان کی طرح چھا رہا تھا۔ کوئی نہ خود کو سونامی کہتا تھا نہ سائیکلون۔ اگرچہ اکا دکا تشدد اور توڑ پھوڑ کا عنصرکہیںکہیں سیاست میں چھا رہا تھا لیکن حزب مخالف کی طرف سے نہیں آمرانہ حکومت کی طرف سے۔ اسی لئے تو ’’لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلےگی نہیں چلے گی‘‘ نعرہ بھی مقبول ہو رہا تھا۔ پولی ٹیکنک کالج راولپنڈی میں ایک طالب علم کی ہلاکت اورسابقہ این ڈبلیو ایف پی میں بھٹو کے جلوس پر حکومتی غنڈوں کی طرف سے حملے نے ایوبی آمریت کے دن پورے کردئیے تھے۔ عوام کی طرف سے گھیرائو اور طلبہ مزدور اور متوسط طبقات کی تحاریک نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور تو کیا لیکن وہ عنان اقتدار ایک اور آمر یحییٰ خان کے حوالے کرتے چلتے بنے۔ لیکن سیاست نے برچھی کی جگہ پرچی یعنی انقلاب کی جگہ انتخابات کے نعرے اور پرزور مطالبے کی شکل لے لی۔ بس پوری دنیا میں نوجوانوں اور طلبہ تحاریک کی لہر تھی جو’’پیرس جل رہا ہے‘‘ کی یاد دلاتی تھی۔
اس سے قبل ایوب خان دارا لحکومت راولپنڈی کے گيریزن شہر منتقل کرچکے تھے۔ اس کی وجہ کی اندرونی کہانی اگرچہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کراچی کے پانی نےان کا پیٹ خراب کردیا تھا.... کراچی کے پانی نےکئی آمروں کے پیٹ خراب کردئیے۔ (گوکہ وہ بادشاہت قائم کرنے کو آیا تھا) جبکہ اصل وجہ یہ تھی کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں ملک کے قائم ہونے سے فوری بعد پچاس کے عشرے کے سالوں میں آٹھ جنوری کے بہت بڑے طلبہ مظاہرے، ہاریوں کی الاٹی تحریک کی طرف سے سندھ اسمبلی کا گھیرائو اور مزدوروں کے آئے دن جلوسوں نے پاکستانی حکمرانوں اور ان کے اصل آقائوں پر یہ ڈر بٹھا دیا تھا کہ ننگے بھوکے عوام ایک دن ’’جب تخت اچھالے جائيں گے ‘‘کا موجب بن سکتے ہیں۔
انیس سو انہتر میں ملک کے دار الحکومت اسلام آباد (نام پر غور کیجئے ) کہ جسکی کسی سڑک کا نقشہ ٹیڑھا نہیں بنایا گیا۔ اسلام آباد پاکستان کے دارالحکومت بننے کا فائدہ حکمرانوں کو یہ ہوا کہ آنےوالے دنوں میں تہران، منیلا ، انقرہ اور قاہرہ نہ بن سکا تھا جب تک ملک کے اصلی تے وڈے چوہدریوں نے نہیں چاہا۔ رہی رالپنڈی کی بات تو وہاں سے منتخب وزرائے اعظموں کی لاشیں آ چکی ہیں۔ راولپنڈی کے اسی کمپنی باغ میں انیس سو تہتر میں بھٹو حکومت کی انتہائی ریاستی فسطائیت کی ایک مثال تب کی حزب مخالف یو ڈی ایف (متحدہ جمہوری محاذ) کے جس جلسے پرسرکاری پارٹی کے سینئر لیڈروں کی سربراہی میں ہونے والی فائرنگ ہے جو خان قیوم کی سربراہی میں بابڑہ واقعے کی یاد دلاتی ہے۔
لیکن مسلمان ممالک میں شایدپاکستان واحد ملک تھا جہاں جمہوریت کی بحالی کی تحریکیں انتہائی مضبوطی کی تاریخ رکھتی تھیں، پھر ایسا ہوا کہ جمہوریت کو کسی تناور درخت بننے سے قبل اس کے پودے کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکنے کا ٹھیکہ ملک کے اصلی تے وڈے چوہدریوں نے اپنے ہاتھ میں لیا جس سے انہوں نے بگھیاڑ اورآخر شب کے گیدڑ سیاسی پارٹیوںسے ہی پیدا کیے۔ اس کیلئے راولپنڈی اور اسلام آباد مناسب و موزوں شہر تھے۔ آئی جے آئی سے لیکر اب عوامی تحریک ہو کہ تحریک انصاف بچہ بچہ بھی سمجھتا ہے کہ اس کے پیچھے عزائم کیا ہیں۔ یہ راولپنڈی والوں کی سرسوں کا ایسا کھیت ہے جس کے پیچھے چھپنے والے پریمی جوڑے کی ایکٹنگ کرنے والے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو وہ کیوں اس کا بھی مطالبہ سر فہرست نہیں رکھتے کہ آئی جے آئی بنانے کے وقت سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کو دئیے جانے والے کروڑوں لاکھوں کےلئے گئے بریف کیس وصول کرنےاور بانٹنےوالوں کو بھی سزائیں دی جائیں۔میانوالی سے مسولینی خان یا کینڈا سے علامہ ایڈولف کو ملک کے عوام کی دی ہوئی جمہوری تحریک کی قربانیوں اور بہے ہوئے خون کو رائیگاں کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں یہ سخی اور تھے شریف برادران نہیں تھے۔ پولیس والے غریبوں کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دینے کی بات کرنا جلاد خانی نہیں تو کیا ہے، یا ان کو فسطائیوں کے حوالے کرنے کی بات۔ جو لوگ جمہوریت کو ’’چـھنال عورت‘‘ کہتے ہیں۔ وہ اسی جمہوریت کی آزادی کی وجہ سے ہی ایسا کہہ پاتے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے خلاف جتنا بھی کوئی ہو لیکن وہ دنیا کی سب سے پرانی اور بڑی جمہوریتیں اس لئے کہلاتی ہیں کہ ہر کوئی اپنی معیاد پوری ہونے کا انتظار اور صبر کرتا ہے۔ جمہوری عمل سے ہی گاندھی خاندان اور کانگرس جیسی پارٹیوں کا صفایا ہو چکا ہے، نہ کہ وہ بھانڈ ٹوکے نما صحافی جو ڈنڈے کی حکومت کی تجویز کرتے پھرتے ہیں۔ کوئی ان سے بھی پوچھے کہ بھائی صاحب یہ جمہوریت کا کرم ہے کہ نہ فقط تمہاری بات اب تک بنی ہوئی ہے بلکہ آپ کروڑ پتی بنے ہوئے ہیں جن کو شاید بس کنڈکٹری بھی نہ ملتی۔ ایسے بھانڈوں اور ملک کے تمام نام نہاد لیڈروں اور ملین مارچیوں کی آنکھیں کھولنے کو کیا یہ کافی نہیں کہ ان کے ایسے ڈراموں میں نہ بلوچستان کے عوام شامل ہیں اور نہ ہی سندھ کے لوگ۔ اور پنجاب کے بھی فقط پانچ ضلعے بمشکل شامل ہیں۔
تازہ ترین