• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی طرف سے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر بات چیت کی بھارت کو دی گئی دعوت کا جواب بدھ کو اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کے ذریعے وزارت خارجہ کو مل گیا جس میں بھارتی میڈیا کے دعوے کے مطابق مذاکرات پر مشروط آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کو بھارتی ہائی کمشنر کے توسط سے بھیجے گئے خط میں اسلام آباد اور نئی دہلی کی ان ذمہ داریوں کا ذکر کیا تھا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں دونوں ممالک پر عائد ہوتی ہیں۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کےخط کے مندرجات اگرچہ سرکاری طور پر ظاہر نہیں کئے گئے ،مگر بھارتی اور مغربی میڈیا نے مختلف ذرائع کےحوالے سے جو خبریں دیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت دہشت گردی اور دوسرے مسائل پر بھی بات چیت چاہتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ سفارتی طریق کار کے مطابق بھارتی جوابی خط ملنے کے بعد اپنا ردعمل تیار کر رہا ہے جس میں مختلف معاملات پر پاکستان کے تاریخی موقف اور کشمیر کی موجودہ صورتحال کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔بھارت کی جانب سے مشروط بات چیت کا عندیہ ایسے وقت دیا گیا جب دنیا بھر اور خود بھارت کے اندر سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ نوجوا ن کشمیری رہنما برہان وانی کی شہادت کے بعد جاری احتجاجی لہر کے دوران بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں سے فائرنگ کے نتیجے میں تقریباً 70افراد شہید اور چھ ہزار سے زیادہ زخمیوں میں سے بیشتر بصارت سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایک طرف کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہہ کر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود بھارتی آئین کی کشمیر سے متعلقہ شق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں بلند ہونے والے آزادی کے نعروں کو پاکستانی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے بلوچستان ،آزاد کشمیر، اور گلگت میں بھارتی مداخلت کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں پاک بھارت بات چیت پر نئی دہلی کی آمادگی بیک ڈور ڈپلومیسی اور دوست ملکوں کی سفارتی کوششوں کی ایسی کامیابی ہے جس سے برصغیر کے حالات بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان اپنی آزادی کے وقت سے بھارت کے ساتھ امریکہ اور کینیڈا کی طرح باہمی تعاون پر مبنی تعلقات رکھنے کا خواہاں رہا ہے اور اسی لئے کشمیر کے اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دیتا رہا جو 1947میں تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے کے تحت مسلم اکثریت رکھنے والی اس ریاست کی پاکستان میں شمولیت میں رکاوٹ ڈالنےوالی قوتوں کے اس خطے کی ترقی روکنے کے ایجنڈے کی پیداوار کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر پر باہمی بات چیت کے کئی مواقع ملےجن سے یا تو فائدہ نہیں اٹھایا گیا یا یہ مواقع کہیں سے سبو تاژ کر دیئے گئے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دونوں ممالک اس تنازع کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق افہام و تفہیم کے ساتھ اس طرح حل کریں کہ نئی دہلی اور اسلام آباد ہی نہیں، کشمیری عوام بھی اسے اپنی فتح تصور کریں اور خطہ کشمیر برصغیر جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور یگانگت کی علامت کے طور پر پہچانا جائے۔ بھارت کی مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کو جس انتہائی سطح پر پہنچا دیا تھا اس کے بعد بھارتی عوام کو مذاکرات کی افادیت پر قائل کرنے میں کچھ دشواری ضرور ہو سکتی ہے لیکن لائق قیادت کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنے ملک کےمفاد کو پیش نظر رکھتی اور اس پر عوام کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کو اپنے ہی ملک کے سابق وزرا پی چدم برم ،سلمان خورشید، مانی شنکر آئر اور دیگر رہنمائوں کے مشوروں اور بھارتی اخبارات ہندو اور ہندوستان ٹائمز کے تبصروں پر توجہ دینی چاہئے۔ گلگت، آزاد کشمیر اور بلوچستان کے سوالات اٹھا کر انہوں نے پاکستان میں مداخلت کے جو ثبوت فراہم کئے ہیں وہ بھارت کے مفاد میں نہیں۔ مذاکرات کے اس موقع کو کشمیر سمیت تمام پاک بھارت تنازعات حل کرنے اور مل جل کر ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہونے کا ذریعہ بنا کر وہ تاریخ میں اپنے لئے ایک بڑا مقام بنا سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین