• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انقلاب اور آزادی کے متوالے سرخ لکیر عبور کر کے ریڈ زون میں داخل ہوئے تو نواز شریف کی صاحبزادی مریم نے ٹویٹ کی’’پریشانی کی کوئی بات نہیں،فوج وزیراعظم کی پشت پر کھڑی ہے‘‘میں نے ازراہ تفنن کہایہ کیا کم پریشانی کی بات ہے کہ وزیراعظم کے پیچھے فوج ہے اور آگے ڈنڈا بردار مظاہرین کی فوج ظفر موج۔غلطی چاہے جس کی بھی تھی لیکن ایک بار پھر سیاستدانوں نے اپنے طرزعمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ ’’تھرڈامپائر‘‘ کے بغیر نہیں چل سکتے۔ مداخلت تو ہو چکی،اب کوئی فریق یہ توقع نہ رکھے کہ اس دنگل میں اس کی فتح ہو گی۔کپتان پارلیمنٹ کے سامنے خوب گرجا،مخالفین کو تو آڑے ہاتھوں لیا ہی مگر ایک بار پھر سچی بات کہہ گیا۔کپتان کا یہی وصف اسے دیگر سیاستدانوں سے ممتاز کرتا ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کے منہ سے سچ نکل جاتا ہے۔جب وہ پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے رہے تھے تو جوش خطابت میں کہہ گئے، وزیراعظم صاحب !فاسٹ بائولر سے صبر نہیںہوتا۔گویا وزیراعظم بننے کے لئے بے صبرا پن ہی انہیں آزادی مارچ کی بند گلی میں کھینچ لایاہے جہاں ان کے آگے کھائی ہے تو پیچھے کنواں۔ایک ان پر ہی کیا موقوف پوری قوم جمہوریت کے معاملے میںبے صبری ہے۔امریکی سفارتخانے کے باہر ویزہ لگوانے کے لئے لائن میں لگنا ہو یا بنک میں بجلی کا بل جمع کرانے کے لئے دھوپ میں انتظار کرنا ہو،ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہوتا۔ماسوائے جمہوریت کے ہم ہر حوالے سے صابر و شاکر قوم ہیںمثال کے طور پر چاہے بھوک سے جان نکلی جا رہی ہو مگر پھر بھی ہم ہوٹل پر بیٹھ کر کڑاہی گوشت کے پکنے کا انتظار کرتے ہیں،کوئی یہ نہیں کہتا کہ کچاپکا گوشت اتار کر کھا لیتے ہیں۔تندور پر روٹیاں لگ رہی ہوں تو فرمائش کی جاتی ہے کہ سرخ کر کے لگائیں۔لیکن جمہوریت کی ہنڈیا چولہے پر رکھتے ہی ہر طرف دہائی مچ جاتی ہے کہ پلک جھپکنے میں ہماری بھوک مٹانے کا اہتمام نہ کیا گیا تو یہ ہنڈیا چولہے سے اتار کر بیچ چوراہے پھوڑ دی جائے گی۔ہم آمریت کی بھوک تو احتجاج کئے بغیرکاٹ لیتے ہیںلیکن جمہوریت کا روزہ سورج نکلنے سے پہلے ہی توڑ دیتے ہیں۔ہماری مثال اس نادان بچے کی سی ہے جس نے پودا لگایا اور ہر روز صبح اٹھتے ہی باپ کے پاس شکایت لیکر آ جاتا کہ بابا! میں نے جو پودا لگایا تھا وہ جڑ نہیں پکڑ رہا ۔باپ سمجھاتا ہے کہ بیٹا پودے راتوں رات بڑے نہیں ہو جاتے،تم اسے وقت پر پانی دو،خیال رکھو اور صبر کا دامن تھامے رکھو،وہ پودا ضرور جڑ پکڑے گا۔جب کئی دن گزرنے کے باوجود یہ سلسلہ نہ رکا تو باپ نے پوچھا،بیٹا! تمہیں کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ پودا جڑ نہیں پکڑ رہا؟بچہ معصومیت سے کہتا ہے،میں ہر روز اسے اکھاڑکر دیکھتا ہوں کہ یہ جڑ پکڑ رہا ہے یانہیں۔ہمارے ہاں ایسے نادان بچوں کی کثرت ہے جو جمہوریت کے پودے کے ساتھ یہی سلوک کرتے چلے آ رہے ہیں۔بلکہ وہ تو اس لئے جمہوریت کے پودے کو اکھاڑ کر دیکھتے ہیں کہ کہیں جڑ تو نہیں پکڑ رہا۔پھر ہمارے ہاں تو ایسے ایسے باغبان موجود ہیں جو جمہوریت کے اس پودے کو اکھاڑ کر اپنی نرسری میں انواع و اقسام کے پودوں کی نئی پنیری اُگاتے ہیں اور جی بہلانے کے بعد چلے جاتے ہیں۔ ان دنوں بھی سیاست کی نرسری میں پہلے سے لگے پودے اکھاڑ کر نئی پنیری لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔تاویل یہ ہے کہ ان پودوں کو دھاندلی کی پھپھوندی لگ گئی ،یہ برگ و بار نہیں لا رہے لہٰذا انہیں اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ خدشات یہ ہیں کہ کہیں یہ باغباں برق و شرر سے ملے ہوئے تو نہیں۔
ہتھیلی پر سرسوں کی فصل اگانے کا فیصلہ کر لیا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو جمہوریت ہے ہی نہیں، بادشاہت کی دکان پر محض جمہوریت کا بورڈ لگا دیا گیا ہے۔ یہ سوال بھی اُٹھایا جا سکتا ہے کہ اس نگوڑی جمہوریت نے آخر ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ لوڈشیڈنگ، بدامنی، مہنگائی، بیروزگاری، احتجاج، کرپشن، نااہلی، بدانتظامی، اقربا پروری..تو پھر آگ لگے ایسی جمہوریت کو۔ڈی ریل ہوتی ہے تو ہو جائے آخر ریل کا نظام بھی تو اسی جمہوریت کے دور میں ڈی ریل ہوا۔یہ نظام تلپٹ ہوتا ہے تو ہو جائے،بھاڑ میں جائے ایسا سسٹم جس نے ہماری حالت سدھارنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔سیاست کے سمندر میں جمہوریت کی کشتی مگرمچھوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو بھی گئی تو ہمیں کیا فرق پڑے گا۔کل جب ایک ڈکٹیٹر برسر اقتدار تھا تو تب بھی تو یہ ملک چل ہی رہا تھا،پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے کون سے چار چاند لگا دیئے ہیں۔ان سب باتوں میں وزن ہے مگر یہ لولی لنگڑی ، اندھی اور گونگی بہری جمہوریت اس لئے ضرور ی ہے کہ دنیا میں آج تک اس سے بہتر کوئی نظام دریافت نہیں ہوا۔اس جمہوریت کا سب سے بڑا وصف ہے کہ آصف زرداری جیسا بانٹ کر کھانے اور سب کو چکمہ دے جانے والا صدر بھی پانچ سال بعد رخصت ہو جاتا ہے،یہ جمہوریت میں ہی ممکن ہے کہ ایک وزیراعظم عدالتی فیصلے کے نتیجے میں گھر چلا جاتا ہے۔یہ جمہوری دور کا ہی اعجاز ہے کہ ایک ماتحت عدالت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے خلاف فیصلہ سنا دیتی ہے۔یہ آزادی مارچ،یہ انقلاب مارچ اور اس نوع کے دیگر چونچلے جمہوری دور میں ہی ممکن ہیں۔یہ جمہوریت میں ہو سکتا ہے کہ ایک چائے بیچنے والے بھارتی شہری کا بیٹاملک کا وزیراعظم بن جاتا ہے،یہ جمہوریت میں ہی ممکن ہے کہ ایک غیر سیاسی پس منظر کا حامل امریکی پروفیسر صدر منتخب ہو جاتا ہے۔اس طرح کے حوالے بے شمار ہیں لیکن اگر آپ تبدیلی کے لئے بے قرار ہیں تو پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ کہیں ایک بار پھر آپ کے ساتھ ہاتھ تو نہیں کیا جا رہا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرلقادری کا ایجنڈا بہت پرکشش اور متاثرکن ہے۔وہ چاہیں تو انتخابی سیاست کے میدان میں اپنے انقلاب کے گھوڑے خوب دوڑائیں اور عوام کا اعتماد پائیں تو اپنی مرضی اور منشا ء کا نظام لائیں۔عامیانہ تبصرہ کیا جائے تو ان کی باتیں تو اچھی ہیں مگر ’’کریکٹرڈھیلا‘‘ ہے۔ان کے گفتار اور کردار میں تضاد ہے۔عمران خان بے داغ سیاستدان ہیں اوران کانئے پاکستان کا تصور بھی بہت خوشگوار ہے۔لیکن اس نئے پاکستان میں چندہزار افراد کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے والے کو حکومت کا تختہ الٹنے کا حق حاصل ہو گا،نوے دن میں کرپشن ختم کرنے کا وعدہ کر کے پورا نہیں کیا جائے گا،پٹواری اور تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہو پائے گا،لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہیںہو گا تو پھر پرانے پاکستان میں کیا قباحت ہے؟
ہم نے ہر بار بے صبری کا مظاہرہ کیا ،کیوں نہ اس بار جمہوریت کی ہنڈیا اچھی طرح پکنے دی جائے۔دیہات میں زمین سے پانی نکالنے کے لئے ہینڈ پمپ لگائے جاتے ہیں جنہیں نلکا کہا جاتا ہے۔جب یہ نلکا لگانے کے لئے زمین میں بور کیا جاتا ہے تو شروع میں پتھر نکلتے ہیں،پھر ریت نکلنے لگتی ہے،اس کے بعدکیچڑ بر آمد ہوتا ہے،اس کے بعد گدلا پانی آتا ہے جس میں ریت ہوتی ہے،تب کہیں جا کر صاف پانی نصیب ہوتا ہے۔مگر ہم پتھروں اور ریت کے بعد کیچڑ تک پہنچتے ہیں تو بےصبرے ہو کر سب کچھ اکھاڑ پھینکتے ہیں۔براہ کرم جمہوریت کا نلکا لگا رہنے دیں اور امید رکھیں کہ صاف پانی بھی ایک دن نکل ہی آئے گا۔
تازہ ترین