• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد میں دھرنوں سے اس وقت ملک میں جو سیاسی بحران ہے ، وہ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کا منطقی نتیجہ ہے ۔لگتا ہے کہ اس بحران کا نقصان ان لوگوں کو ہو گا ، جو ان انتخابات میں سب سے زیادہ فائدے میں رہے تھے ۔ یہ انتخابات جس ماحول میں ہوئے تھے ، اس میں پہلے سے یہ اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے اورآئندہ پاکستان میں کس طرح کے سیاسی بحران جنم لیں گے ۔انتخابات سے قبل پاکستان کی ترقی پسند ، روشن خیال اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سمیت بعض دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو بھی انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی تھی ۔ ان حالات میں عام آدمی بھی یہ سمجھ چکا تھا کہ انتخابات کے ذریعہ کیا ’’انتظام‘‘ کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے میں نے بھی ایک تجزیہ لکھا تھا،جو ’’ جنگ ‘‘ میں 11 مئی 2013ء کو ہی شائع ہوا تھا۔ ۔ اس تجزیے میں کہا گیا تھا کہ ’’ انتخابات کی بجائے جمہوری انتظام کیا جا رہا ہے۔ آئندہ سیٹ اپ میں ڈرائیونگ سیٹ پر وہ لوگ ہوں گے ، جو امریکا کے خلاف کھل کر باتیں کرتے ہیں اور جنہیں پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں دائیں بازو کا نام دیتی ہیں ۔ چاروں صوبوں میں اس طرح کی حکومتیں بنیں گی کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پریشر گروپس بھی مطمئن ہو جائیں گے … انتخابات سے قبل پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر ہونے والی خونریزی اور پر تشدد واقعات کے انتخابی نتائج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟یہ آج ہونے والے انتخابات کے حوالے سے یہ سب سے بڑا سوال ہے… انتخابی تشدد کے پس پردہ ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے ، جس کے تحت 2014ء میں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء سے قبل پاکستان میں ایک ایسی حکومت قائم کی جائے گی ، جو امریکا اس کے اتحادیوں کے لیے مسائل پیدا نہ کرے ۔۔۔۔ امریکا اس خطے میں جب بھی کوئی بڑا گیم کرتا ہے ، اس سے پہلے وہ پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت بنوانے کی کوشش کرتا ہے ۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے نام پر جنگ شروع کرنے سے پہلے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگایا گیا اور نائن الیون کے واقعہ سے پہلے جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سونپا گیا لیکن اس مرتبہ مارشل لاء لگانے یا فوج کی براہ راست حکومت بنانے کے بجائے ’’ جمہوری انتظام ‘‘ ( Democratic Arrangement ) کیا جا رہا ہے ۔ ‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے سیکرٹری جنرل سینیٹر تاج حیدر کہتے ہیں کہ یہ تجزیہ انتخابات میں دھاندلی کا منطقی ثبوت ہے اور موجودہ بحران کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ 11 مئی 2013ء کو انتخابات کے نام پر جو’’ انتظام‘‘ کیا گیا تھا ، وہ اب نہیں چل پا رہا ہے ۔ 11 مئی 2013ء کو جو کچھ ہوا ، اس کا حقیقی فائدہ دو سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کو ہوا ۔ انتہا پسند قوتوں اور عسکریت پسندوں نے انتخابات سے پہلے جو ماحول پیدا کر دیا تھا ، اس میں ان دو جماعتوں کے سوا پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی)،متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) اور دیگر سیاسی جماعتوں کو نہ صرف انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی بلکہ ان کے خلاف پر تشدد کارروائیاںبھی کی گئیں۔دائیں بازو کی کچھ مذہبی جماعتوں کے لیے بھی خطرات پیدا کر دیے گئے۔مسلم لیگ (ن) اورتحریک انصاف کے لیے انتہائی مثالی سازگار حالات تھے اور وہی ان حالات کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے ( Beneficiaries ) تھے ۔ اب ان دونوں کے درمیان جھگڑا ہو رہا ہے ۔ یہ دائیں بازو کی ان سیاسی جماعتوں کا جھگڑا ہے ، جنہیں 11 مئی 2013ء کے ’’ جمہوری انتظام ‘‘ کے تحت دو اہم گاڑیوں کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا گیا تھا ۔ اب انتظام کرنے والوں کو شاید یہ محسوس ہو گیا ہے کہ نیا انتظام کرنا پڑے گا کیونکہ 11 مئی 2013ء سے پہلے ان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع نہیں ہوا تھا ، جنہوں نے اس ’’ انتظام ‘‘ کے لیے ضروری انتخابی نتائج مرتب کرنے کا سیاسی ماحول پیدا کیا تھا۔ انتخابی دھاندلی پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے استعفیٰ مانگنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بہت سارے سیاسی اور زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے مارچ اور دھرنے کا ایڈونچرکیا ہے ۔ اب انہیں اسلام آباد جا کر اندازہ ہوا ہے کہ وہ 11 مئی 2013ء کے ’’ انتظام ‘‘ کا خاتمہ کرتے ہیں تو ان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آتا ہے اور اگر وہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لیے بغیر واپس جاتے ہیں تو ان کی سیاسی موت ہو جاتی ہے ۔ میں نے اپنے تجزیے میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ سیاسی جماعتوں کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ وہ اس خطے میں پیدا ہونے والے نئے حالات میں صرف وہی کردار ادا کریں ، جو ان کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنے ۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم نے اس صورت حال پر متوقع مزاحمت یا ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔‘‘موجودہ بحران میں پیپلز پارٹی اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ جمہوریت کو کیسے بچایا جائے۔ نیا ’’ انتظام ‘‘ بھی عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کا ہو گا ۔کیونکہ پاکستان کی سیاسی قوتیں مجموعی طور پر کمزور ہیں ۔ عمران خان ساری زندگی سازگار حالات میں آگے بڑھتے رہے ، وہ موجودہ ، ’’ جمہوری انتظام ‘‘ میں پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح صبر و شکر کرکے بیٹھ جاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا کیونکہ اس انتظام میں انہیں ہی توقع سے بھی زیادہ فائدہ ہوا تھا ۔ ان کو یہ ایڈونچر نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ اس موقع پر مجھے ایک بات یاد آ رہی ہے ۔ جس زمانے میں کرکٹ میں کامیابیوں اور کینسر اسپتال کے قیام کے حوالے سے عمران خان کی شہرت اور نیک نامی کو بعض قوتوں نے پاکستان میں ’’ کرپشن کے خاتمے اور مثالی معاشرے کے قیام ‘‘ کے لیے استعمال کرنے کا آئیڈیا دیا تھا ، ان قوتوں نے ممتاز سماجی رہنما عبدالستار ایدھی کو بھی اسی طرح’’ پاکستان کا نجات دہندہ ‘‘ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن ایدھی صاحب نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔وہ دیدہ ور شخصیت ہیں ۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی نیک نامی کو پاکستان میں جمہوریت اور عوام کے خلاف استعمال کیا جائے گا ۔ عمران خان کے ’’ عظیم لیڈر ‘‘ بننے کے ایڈونچر سے نقصان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کا ہی ہو گا ،جو11 مئی 2013ء کے انتظام میں سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں تھیں لیکن عمران خان سب سے زیادہ خسارے میں نظر آ رہے ہیں ۔ عمران خان کو جلد احساس ہو گا کہ ایدھی صاحب کا فیصلہ درست تھا ۔
تازہ ترین